نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن میں مقیم ایک ایرانی نوسرباز کی سنائی داستانوں سے حیران ہوئے ہم سادہ لوگ یہ طے کربیٹھے تھے کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنے گا۔ اس کے روبرو فقط یک نکاتی ایجنڈا رکھا جائے گا۔ معلوم صرف یہ کرنا تھا کہ جنرل مشرف کے بنائے قومی احتساب بیورو کو ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ کا سراغ لگانے کے لئے ’’براڈشیٹ‘‘ نامی کمپنی ہی سے رجوع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس کمپنی نے ہم سے معاہدہ کرنے سے قبل دُنیا کے کس دوسرے ملک کے ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاستدانوں کی غیر ملکوں میں چھپائی دولت کا پتہ چلایا تھا۔ کونسے نامور شخص کو اس کی بدولت سزا ہوئی۔
نظر بظاہر اس تناظر میں براڈشیٹ کا کوئی ’’کارنامہ‘‘ حوالے کے لئے موجود ہی نہیں تھا۔ امریکہ میں محض ایک دفتر تھا۔ نوسربازی پر نگاہ رکھنے والا عام سا ’’تفتیشی‘‘ بھی تاہم خوب جانتا ہے کہ امریکہ جیسے ممالک میں دو نمبری کمپنیوں کو ایسے ’’دفاتر‘‘ بآسانی مل جاتے ہیں جو فلموں کے لئے لگائے Sets کی طرح ’’حرکت تیز تر…‘‘ کا منظر بنا دیتے ہیں۔ نیب کے بانی چیئرمین جن کی سخت گیری، اصول پسندی اور نگاہ باریک بین کے بہت چرچے تھے، 2002 میں اپنا منصب سنبھالنے کے بعد غالباََ ایسے ہی کسی دفتر گئے تھے۔ وہاں بیٹھے ’’جاسوسوں‘‘ کو انہوں نے ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاست دانوں کی ایک فہرست تھمائی ۔ کمپنی نے ’’فکر کی کوئی بات نہیں‘‘ والی بڑھک لگائی اور اپنی خدمات فراہم کرنے کے لئے ایک معاہدے کا مسودہ پیش کردیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری وزارتِ قانون میں بیٹھے افراد مجوزہ معاہدے کا باریک بینی سے جائزہ لیتے۔ کرپشن کے خلاف جہاد کے میدان میں اُتارے جنرل امجد اور ان کے بااعتماد مصاحبین کو مگر Out of Box Solutions درکار تھے۔ انہیں ’’فرسودہ‘‘ ضوابط کار سے بالاتر ہوکر Deliver کرنا تھا۔ براڈ شیٹ کے تیار کردہ مسووے کو Vetting کی چھلنی سے گزارے بغیرمنظور کرلیا گیا۔ تین سال گزرنے کے بعد مگر نیب کو احساس ہوا کہ اس کیساتھ پنجابی والا ’’ہتھ‘‘ ہوچکا ہے۔ معاہدے پردستخط بھی تاہم ہوچکے تھے۔ اس کی بنیاد پر براڈ شیٹ حکومت ِپاکستان سے اپنے ’’واجبات‘‘ کا تقاضہ کرتی رہی۔ ہم مہربان نہ ہوئے تو کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔ دیوالیہ ہوئی کمپنی کو مگر ایک کائیاں نوسرباز نے خرید لیا۔ برطانوی عدالت میں چلاگیا اور بالآخر میرے اور آپ کے دئیے ٹیکسوں میں سے تقریباََ پانچ ارب روپے وصول کرلئے۔
یہ رقم وصول کرنے کے بعد کاوے موسوی نامی نوسرباز ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘ اینکر خواتین کو تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر دستیاب ہونا شروع ہوگیا۔ اپنی ’’کاریگری‘‘ وہ ہم سے مقدمہ جیت کر پہلے ثابت کرچکا تھا۔ ہمارے ’’درد‘‘ میں مبتلا ہوکر مگر اب وہ یہ جھانسہ دینے کی کوشش کرتا رہا کہ اگر اس کی ’’ذہانت‘‘ سے دوبارہ رجوع کیا جائے تو وہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی چھپائی رقوم کو بازیاب کروانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اپنی مارکیٹنگ کے لئے اس نے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ مسئلہ اس کا مگر یہ ہوگیا کہ براڈ شیٹ کے حق میں برطانوی جج کا لکھا تفصیلی فیصلہ بھی منظر عام پر آگیا۔ مجھے کامل یقین ہے کہ کرپشن کے خلاف شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر سینہ کوبی فرمانے والے چند ہی افراد نے اس فیصلے کو غور سے پڑھا ہوگا۔ میں نے بھی سرسری نگاہ ہی ڈالی ہے۔ میری نگاہ نے مذکورہ فیصلے میں جو ’’سنسنی خیز‘‘ پہلو دیکھے انہیں بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ یہ مگر طے کرلیا کہ بالآخر ’’رات گئی بات گئی ‘‘ والا معاملہ ہوجائے گا۔
رات تو گزر گئی مگر بات ختم نہیں ہوئی۔ وفاقی کابینہ نے اب سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے عظمت سعید شیخ صاحب کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا ہے۔ اس کمیشن کا بنیادی فریضہ تو فقط ’’براڈ شیٹ‘‘ پر فوکس ہونا چاہیے تھا۔ انہیں اختیار مگر یہ دیا گیا ہے کہ وہ سرے محل اور حدیبیہ جیسے دہائیوں پرانے سکینڈلز کی بابت ’’حقائق‘‘ بھی منظر عام پر لا ئیں۔ قومی خزانے کو پانچ ارب روپے کا نقصان اس کا بنیادی موضوع نہیں ہے۔ اب نئے کمیشن کی بدولت کرپشن کے بارے میں ’’طلسم ہوشربا‘‘ جیسی داستانیں ہی سننے کو ملیں گی۔
عظمت سعید شیخ صاحب سپریم کورٹ کے اس بنچ کا حصہ تھے جسے پانامہ پیپرز کے منکشف ہونے کے بعد نواز شریف کی چھپائی دولت کا سراغ لگانے کا اختیار ملا تھا۔ اپنی معاونت کے لئے شیخ صاحب نے مختلف ریاستی اداروں سے اپنی پسند کے افراد چن کر ایک JIT بھی قائم کی تھی۔ اس JIT کے روبرو نواز شریف بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔ نواز شریف بالآخر مگر اقامہ کی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لئے نااہل قرار پائے۔ JIT نے جو مواد جمع کیا تھا اس کی بنیاد پر احتساب عدالتوں میں مقدمات چلے۔ جن مقدمات میں انہیں سزا ہوئی ان کے خلاف ہائی کورٹ میں فریاد زیر غور ہے۔ مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ براڈ شیٹ کے بہانے بنائے کمیشن کی سربراہی سنبھالنے کے بعد عظمت سعید شیخ صاحب مزید کیا دریافت کرپائیں گے۔ اب کی بار انہیں ’’توہینِ عدالت‘‘ کی ڈھال بھی میسر نہیں ہے۔ وہ ’’تفتیش‘‘ کے لئے قدم اٹھائیں گے تو ان کی ذات کے بارے میں کئی جھوٹی سچی کہانیاں منظر عام پر آنا شروع ہوجائیں گی۔ میڈیا میں رونق لگی رہے گی۔براڈ شیٹ کو جو خطیر رقم مل چکی ہے اس کا مگر ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔ ’’قومی خزانے کو نقصان‘‘پہنچانے والوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوپائے گا۔
آئین اور قانون اپنے تئیں ایک مخصوص اور پیچیدہ علم ہے۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ کو اس کی ککھ سمجھ نہیں۔ پارلیمانی رپورٹنگ میں 30 سے زیادہ برس گزارنے کے بعد مگر اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ جنرل امجد کی سربراہی میں نیب نے جو بھی کیا وہ ’’قابل مواخذہ‘‘ نہیں ہے۔ 2002 کے انتخابات کے بعد ایک LFO تیار ہوا تھا۔ اس کے ذریعے ’’عوام کی منتخب‘‘ پارلیمان سے استدعا ہوئی کہ وہ 1999 سے 2002 تک جنرل مشرف کے اقتدار کے دوران اٹھائے ’’تمام اقدامات‘‘ کو ’’آئینی تحفظ‘‘ فراہم کرے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) اس کے لئے تیار نہ ہوئیں۔ مولانا فضل الرحمن تاہم ان دنوں کی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف ہوا کرتے تھے۔ جماعت اسلامی بھی ان کی بنائی متحدہ مجلس عمل میں شامل تھی۔ اس اتحاد کے پارلیمان میں موجود نمائندوں نے ظفر اللہ جمالی کے ساتھ مل کر ’’آئینی تحفظ‘‘ فراہم کردیا۔ مذکورہ ’’آئینی تحفظ‘‘ طلب کرتے ہوئے وعدہ یہ بھی ہوا تھا کہ جنر ل مشرف فوج کی وردی میں ملک کے صدر نہیں رہیں گے۔ اپنے ابتدائی تین برس کے لئے ’’آئینی تحفظ‘‘ حاصل کرلینے کے باوجود مگر وہ 2007 کے اختتام تک پاک فوج کے سربراہ بھی رہے۔
یاد رہے کہ جنرل امجد کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی ان تین برسوں میں ہوئی تھی جن کے دوران لئے اقدامات کو ’’آئینی تحفظ‘‘ میسر ہے۔ اس کی بنیاد پر ان کا ’’مواخذہ‘‘ ممکن نہیں۔ یہ سہولت فاروق آدم خان صاحب کو میسر ہے جو ویسے بھی اس دُنیا میں نہیں رہے۔ جس ’’معاہدے‘‘ کی بنیاد پر گزشتہ برس کے اختتام پر براڈ شیٹ نے ہم سے پانچ ارب روپے کی خطیر رقم حاصل کی ہے اس پر ہوبہو دستخط کو مرحوم ہی نے مائل کیا تھا۔ وہ زندہ بھی ہوتے تو 2002 سے 2008 تک کام کرنے والی اسمبلی کا فراہم کردہ ’’آئینی تحفظ‘‘ انہیں ’’مواخذے‘‘ سے محفوظ رکھتا۔
عمران حکومت اور اپوزیشن واقعتا ’’براڈ شیٹ‘‘ کے ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانا چاہ رہی ہے تو اسے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ جو ’’آئینی تحفظ‘‘ 1999 سے 2002 تک کام کرنے والے قومی احتساب بیورو کو فراہم ہوا تھا آئینی ترمیم کے ذریعے ہی واپس لیا جاتا ہے۔ اس کے بغیر حساب کتاب کی گنجائش موجود نہیں۔ اب فقط کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ انہیں سن کر اپنا جی بہلاتے رہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر