اعزاز سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبارات اور پی ٹی وی سے پتا چلا کہ وزیراعظم نوازشریف نے سری لنکا سے پی آئی اے کی ایک پرواز کے ذریعے وطن واپس آنے والے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ‘طیارہ اغوا‘ کرنے کا حکم دیا، جس کی پاداش میں مشرف کے ساتھی جرنیل حرکت میں آئے اور یوں حکومت پر قبضہ کر لیا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک وزیراعظم اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہوا میں اڑتے کسی طیارے کو کیسے اغوا کر سکتا تھا؟ یا فوج کسی پیشگی تیاری کے بغیر ہی حرکت میں آ کرکس طرح حکومتی عمارات پر قبضہ اور وزیراعظم سمیت دیگر اہم شخصیات کو فوری گرفتار کر سکتی تھی؟ میرے اور شاید پوری قوم کے ذہن میں پیدا ہونے والے ان اور ان جیسے کئی سوالات کو اس وقت پاکستان کے سرکاری ٹی وی، ریڈیو خبرناموں، مقامی اخبارات کی شہ سرخیوں اور ایڈیٹوریل صفحات پر لکھے گئے بڑے بڑے صحافیوں کی تحریروں نے تھپکیاں دے کر سلا دیا۔
ہمیں بتایا گیا کہ دراصل نوازشریف نے سری لنکا سے آتے آرمی چیف جنرل مشرف کا طیارہ ایک سازش کے تحت دوسرے ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کی ہدایت دی تھی جو کہ اغوا تھا، اسی لیے نوازشریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کیس بنا اور وہ جیل بھیج دیے گئے۔ مجبوراﹰ مشرف جی کو اقتدار سنبھالنا پڑا۔ اس وقت پاکستانی میڈیا میں مشرف اور ان کی فوجی سرکارکو مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا۔
کچھ عرصے بعد جب میں نے بین الاقوامی اخبارات اور کتب پڑھنا شروع کیں تو ذہن پر چھائی دھند صاف ہونے لگی۔ بھلا ہو برطانوی صحافی اوون بینٹ جانز کا، جنہوں نے سن 2003ء میں ”پاکستان، ان این آئی آف سٹروم‘‘ نامی کتاب لکھ دی۔ ان دنوں کتاب کا چرچا سن کر کتاب پڑھنا شروع کی تو پاکستانی میڈیا کی طرف سے بنایا گیا مشرف کا بت پاش پاش ہو گیا۔ بینٹ جانز نے طیارے کے مسافروں کے انٹرویوز، طیارے کے کاک پٹ اور ایئر ٹریفک کنڑول کے درمیان ہونے والی گفتگو سمیت دیگر ثبوتوں سے واضح کیا کہ دراصل طیارہ نوازشریف نے نہیں مشرف نے ‘اغوا‘ کیا تھا۔ جو اس وقت اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ندیم تاج کے ہمراہ پستول سمیت کاک پٹ میں آئے اور دھونس سے طیارے کے کپتان کو ہدایات دیتے رہے۔
انہوں نے اس وقت تک طیارے کو نیچے اترنے کی اجازت نہ دی، جب تک کور کمانڈر کراچی لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی نے انہیں ایئر ٹریفک کنٹرول کے وائرلیس پر آ کر یہ نہ بتایا کہ فوج نے ایئرپورٹ کا سارا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ طیارے میں موجود مشرف زمین پر اترتے ہی کسی ممکنہ گرفتاری سے پریشان تھے۔ انہیں ایئرٹریفک کنٹرول سے طیارے میں بات کرنے والے جنرل عثمانی پر بھی شک گزرا کہ بندہ اصلی ہے یا نقلی۔ انہوں نے آخری اطمینان کے لیے اپنے افسر سے پوچھا بتاؤ میرے کتے کا نام کیا ہے؟ عثمانی نے مشرف کے پالتو کتے کا نام بتایا تو ہی پرویز مشرف نے طیارے کو ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت دی۔
جونز کی کتاب کے مندرجات اس وقت میرے ذہن پر کسی ہتھوڑے کی ضرب سے کم نہ تھے۔ دوسری طرف نوازشریف کو عدالت میں سازشی اور ہائی جیکر قرار دیا جا چکا تھا، وہ خود بھی ڈیل کر کے سعودی عرب جا چکے تھے۔ تاہم بے نظیر اور نوازشریف کے بارے میں کرپشن کی داستانیں پاکستانی میڈیا پر تواتر سے بھرپور انداز میں بیان کی جا رہی تھیں۔
یقین ٹوٹے تو نئے حقائق ماننا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے کتاب کے مندرجات کی اپنے تئیں تحقیقات کا آغاز کیا تو اس واقعے کے اکثر کرداروں نے برطانوی صحافی کی لکھی باتوں کی تصدیق کر دی ۔ سیاست اور جمہوریت کے اصولوں سے آشنائی تو تھی مگر پاکستانی میڈیا نے سب اصول دھندلا دیے تھے۔ دھند چھٹی تو مشرف اور ان کے ساتھیوں کا اقدام اور بھی گھناؤنا لگنے لگا۔ ایسا لگا کہ جیسے طیارہ نہیں پورا ’نظام ہائی جیک‘ ہو چکا تھا مگر کوئی سچ بولنے کو تیار ہی نہیں تھا۔
مشرف ٹیم کے حوالے سے میڈیا نے عوام کی آنکھوں میں، جو دھول جھونکی تھی، کم ازکم میں اس سے باہر آ چکا تھا۔ مگر میرے اردگرد پائے جانے والے اکثر لوگ 12 اکتوبر 1999 کو طیارے کے ’اصل ہائی جیکر‘ کی محبت کا شکار ہو چکے تھے۔ کوئی پرویز مشرف اور ان کے ساتھی فوجی جرنیلوں کے خلاف بات سننے کو تیار نہ تھا۔
وقت نے کروٹ بدلی، مشرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کے فیصلے سے عوام کی نظروں میں ایسے گرنا شروع ہوئے کہ صرف اقتدار سے ہی رخصت نہیں ہوئے بلکہ ایک وقت میں پاکستان سے جلا وطنی اختیارکرنا پڑی۔ واپس آئے تو گرفتار ہوئے، پھر جنرل راحیل شریف کی کوششوں سے واپس ”باعزت جلاوطنی‘‘ پر مجبور ہوئے۔
ایسا نہیں کہ مشرف کی اقتدارسے رخصتی سے ملک میں جاری ‘ہائی جیکنگ‘ ختم ہو گئی ہو۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتیں ترتیب کے ساتھ اقتدار میں آئیں تو پتا چلا کہ ملک میں ریاست کے چاروں ستون مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا ایک ایک کر کے کم و بیش ‘ہائی جیکنگ‘ کا شکار ہیں۔
اب خیال آتا ہے کہ مشرف کی رخصتی سے ‘ہائی جیکنگ‘ ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ‘اصل طاقتوروں‘ کی گرفت کمزور ہوئی تھی، جو آہستہ آہستہ دوبارہ مضبوط کر لی گئی۔ پاکستان کا مقامی میڈیا بدستور وہی روش اختیار کیے ہوئے ہے، جو کسی زمانے میں مشرف کے ابتدائی دور میں اس نے اپنائی تھی۔ میڈیا پر پابندیاں مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیا اداروں پر بھی پابندیاں لگ رہی ہیں۔ بی بی سی ہو یا جرمنی کا ڈی ڈبلیو، ہرکوئی کسی نہ کسی حوالے سے پابندی کا سامنا کر رہا ہے، مگر ردعمل صفر۔
ایک طبقہ تو ایسا بھی ہے، جو کسی مفاد یا خوف کے باعث ‘ہائی جیکروں‘ سے محبت کا بھی شکار ہے۔ علم نفسیات کی دنیا میں اپنے ایسی محبت کی کیفیت کو ‘سٹاک ہوم سینڈروم‘ کہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ واقعی یہ ایک بیماری ہے۔ جب بیماری تسلیم ہی نہ کی جائے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہوں یا بائیں بازو کی سیاسی قیادت تمام کے تمام ‘اصل طاقتوروں‘ کی حمایت چاہتے ہیں۔ وہ آئین کی بالادستی کے ذریعے ‘سٹاک ہوم سینڈروم‘ کے علاج کی بجائے محض اقتدار کی تھوڑی سی چُسکی لینے کے چکر میں ہیں، اصل مسئلہ ‘ہائی جیکروں‘ سے غیر مشروط محبت کا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید
خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید
پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر