نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو روز قبل عالمی میڈیا کو یاد آیا کہ مصر میں ’’عرب بہار‘‘ کی بدولت جو ’’انقلاب‘‘ آیا تھا اسے دس برس گزر گئے۔ اس ’’انقلاب‘‘ کی بہار ’’قاہرہ کے ’’التحریر سکوائر‘‘ میں نمودار ہوئی تھی۔ دائیں اور بائیں،لبرل اور قدامت پرست کی تفریق بھلاکر لاکھوں افراد وہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ بالآخر کئی دہائیوں سے فرعون وقت کی طرح اقتدار میں بیٹھے حسنی مبارک کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد مصر کی تاریخ میں پہلی بار صاف اور شفاف انتخابات ہوئے۔ اخوان المسلمین کے مرسی اس کی بدولت مصر کے صدر بنے۔ جمہوری نظام کو مگر استحکام نصیب نہ ہوا۔ نئے صدر کے خلاف بھی التحریر سکوائر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ان مظاہروں نے فوج کے لئے ایک بار پھر اقتدار سنبھالنے کی راہ نکالی۔ آج کا مصر شہری آزادیوں کے حوالے سے حسنی مبارک کے دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ آمریت زدہ نظر آ رہا ہے۔ معیشت بھی بُرے حالوں میں ہے۔ حالات میں بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی۔ ’’عرب بہار‘‘ ایک طویل خزاں میں بدل چکی ہے۔
جن دنوں مشرق وسطیٰ میں ’’بہار‘‘ کے چرچے تھے تو پاکستانی تبصرہ نگاروں کی اکثریت سینہ پھلاکر ہمارے ہاں 2007 میں چلی عدلیہ بحالی کی تحریک کے حوالے دیتی رہی۔ جنرل مشرف بنیادی طور پر اس کی وجہ سے کمزور ہوئے۔ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں لیکن ’’جمہوریت‘‘ کی جو قسم بحال ہوئی اسے ’’عوام کی طاقت‘‘ سے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے افتخار چودھری نے مستحکم ہونے نہیں دیا۔ ان کے ازخود نوٹسوں نے بتدریج عدلیہ کو بھی ہماری ریاست کے دیگر دائمی اداروں کی طرح پاکستان کے سیاسی نظام کی رہ نمائی یا اسے Guide کرنے کا حق و اختیار فراہم کردیا۔ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے ادوار میں یہ اختیار توانا تر ہوگیا۔
ہمارے ہاں اس موضوع کو مگر خالصتاََ عملی انداز میں زیر بحث لایا ہی نہیں جاتا۔ اس پر سنجیدہ غور ہمیں سمجھا سکتا ہے کہ علمی حلقوں میں جس Deep State یا ’’دریں دولت‘‘ کی گفتگو ہوتی ہے وہ پاکستان کے قیام کے تین برس بعد ہی اپنی طاقت دکھانا شروع ہوگئی تھی۔ عدلیہ نے اسے توانا تر بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جسٹس منیر نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ متعارف کروایا تھا۔ اس نے ہمیں جنرل ایوب ،جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے طویل ترین ادوار فراہم کئے ۔جسٹس منیر کے دور سے شروع ہوئی کہانی کو افتخار چودھری،ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے مزید جان دار بنادیا۔
ماضی کے ٹھوس تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھ جیسے پیدائشی شکی شخص کو اس گفتگو سے خوف آتا ہے جو لانگ مارچ یا دھرنوں کے ذریعے وطنِ عزیز میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ بحال کرنے کے خواب دکھارہی ہوتی ہے۔
اسی باعث عمران خان اور ان کے کزن کی جانب سے اگست 2014 میں اسلام آباد میں دئے دھرنے کی بابت تحفظات کا اظہار کرتا رہا۔ ان تحفظات کا مدلل جواب سننے کے بجائے ’’لفافہ‘‘ ہونے کے طعنے برداشت کئے۔ اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نما میرے رویے کو درگزر کرنے کو تیار نہیں ۔میں ان سے معافی کا طلب گار بھی نہیں ہوں۔
لانگ مارچ اور دھرنوں کے بارے میں میرے تحفظات آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ گزشتہ برس کے ستمبر میں اپوزیشن جماعتیں PDM میں یکجا ہوئیں تو یاد دلانے کو مجبور ہوگیا کہ ریلیاں اور جلسے شاید ہی کسی حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ اس کو گھر بھیجنے میں ناکام رہیں تو زیادہ سے زیادہ اسے ’’کمزور‘‘ بنا دیتے ہیں۔’’حقیقی جمہوریت‘‘ مگر اس کے نتیجے میں بحال نہیں ہوتی۔ حکمران اشرافیہ کا تسلط بلکہ نئی صورتیں اختیار کرتے ہوئے شدید تر ہوجاتا ہے۔
تاریخ سے رجوع کرنے کی عادت بحیثیت قوم ہم نے ا پنائی نہیں۔ اسی باعث جب سے PDM کا قیام عمل میں آیا ہے ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے بلند آہنگ خواہش مند اصرار کئے جارہے ہیں کہ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی بالآخر ’’دھوکا‘‘ دے جائے گی۔بلاول بھٹو زداری کے حالیہ بیان نے انہیں نظر بظاہر ’’درست‘‘ ثابت کردیا۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔
’’حرکت تیز تر‘‘ کے عادی معاشرے میں چند ہی لوگ یہ سوچنا گوارہ کرتے ہیں کہ اقتدار کا کھیل بہت سفاک ہوتا ہے۔ اس میں شامل فریق انتہائی خود غرض ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے PDM کے ساتھ رشتے کا ’’تجزیہ‘‘ کرتے ہوئے ہم ’’خود غرضی‘‘ والی حقیقت فراموش کردیتے ہیں۔ PDM کا مثال کے طور پر کلیدی بیانیہ یہ ہے کہ جولائی 2018 کے انتخابات ’’صاف اور شفاف‘‘ نہیں تھے۔ عوام کا مینڈیٹ بلکہ ان کے ذریعے ’’چرایا‘‘ گیا تھا۔
فی الوقت ہم اس بحث میں نہیں اُلجھتے کہ 2018 کے انتخابات واقعتا چرائے گئے تھے یا نہیں۔ پیپلز پارٹی کی نگاہ سے تاہم ان کا جائزہ لیں تو ’’برسرزمین‘‘ ایسا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں انتخابی معرکہ بنیادی طور پر دو سیاسی جماعتوں یعنی تحریک انصاف اور نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے مابین ہوا تھا۔ 2018کے انتخاب سے قبل نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں برطرف ہوکر تاحیات نااہل ہوچکے تھے۔ اپنی بیمار اہلیہ کو بستر مرگ کے حوالے کرنے کے بعد وہ لندن سے لاہور لوٹے تو مریم نواز صاحبہ سمیت گرفتار ہوگئے۔ دریں اثناء نام نہاد Electables کی مؤثر تعداد ’’جنوبی پنجاب صوبہ‘‘‘ اور دیگر بہانوں سے مسلم لیگ (نون) سے الگ ہونا شروع ہوگئی۔ مسلم لیگ (نون) کا اصل کمال مگر یہ ہے کہ بدترین حالات کے باوجود اس کا وسطی پنجاب میں ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار رہا۔ آج بھی وہ پوری توانائی سے موجود ہے۔ ڈھائی سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود تحریک انصاف مسلم لیگ (نون) کے اراکین قومی اور پنجاب اسمبلی میں سے ’’فارورڈ بلاک‘‘ برآمد نہیں کر پائی ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے سرکردہ رہ نمائوں کے لئے یقینا یہ کڑا وقت ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق نے طویل عرصہ احتساب کی جیلوں میں گزارہ ہے۔ شہباز شریف اپنے فرزند حمزہ سمیت احتساب کی زد میں ہیں۔ تازہ ترین نشانہ خواجہ آصف ہیں۔
مسلم لیگ (نون) کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو جولائی 2018 کے انتخابات میں ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سندھ کے بااثر وڈیروں پر مشتمل اتحاد -GDA- اس کے ووٹ بینک میں ’’نقب‘‘ نہیں لگا پایا۔ نام نہاد ’’شہری حلقوں‘‘ میں اس کا 1988 سے اصل شریک (MQM) بھی کمزور ہوگیا۔ کراچی میں جو Space اس کی وجہ سے خالی ہوئی وہ تحریک انصاف نے پُر کردی۔ طویل المدت تناظر میں تاہم پیپلز پارٹی اسے ’’حادثہ‘‘ ہی شمار کرتی ہے۔ اس کی خفگی کا سبب لیاری میں ہوا Upset تھا جہاں بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کی نشست جیت نہیں پائے۔ قومی اور سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر 2018 میں اگرچہ گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں زیادہ لوگ منتخب ہوئے ہیں۔ سندھ میں یہ جماعت 2008 سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ وہاں کی اسمبلی میں نظر آتی عددی حقیقت اس امر کو بھی یقینی بنارہی ہے کہ مارچ 2021 میں سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں میں وہ اپنے جثے سے بڑھ کر حصہ وصول کرلے گی۔ اس جماعت سے فقط خورشید شاہ صاحب ہی احتساب کی قید میں ہیں۔
ان ٹھوس حقائق کی موجودگی میں ’’خود غرضی‘‘ والا نقطہ نگاہ میں رکھیں تو ایک بھی مؤثر دلیل دریافت نہیں کی جاسکتی جو مجھ جیسے جھکی کو یہ سوچنے کو مجبور کردے کہ پیپلز پارٹی سندھ حکومت اور سینٹ میں اپنے ممکنہ حصہ کو قربان کرتے ہوئے لانگ مارچ کے ذریعے عمران حکومت کو گھر بھیج کر نئے انتخابات کی راہ بنانا چاہے گی۔ ’’تجزیہ نگاری‘‘ کی مشق میں جتے ہم قلم گھسیٹ مگر ’’حیران‘‘ ہونے کے ڈرامے رچاتے ہیں۔ ڈنگ ٹپائو کالم لکھنے کے لئے شاید ایسے ڈرامے رچانا ضروری بھی ہے۔ بنیادی حقائق کو مگر کب تک نظر انداز کرتے رہیں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر