نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالبؔ نے کئی دہائیاں قبل دریافت کرلیا تھا کہ دل کی بات لبوں پر لانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ’’سلاطینِ وقت‘‘ کے ’’فرشتے‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ غلاموں کے دلوں میں اُبلتی خواہشات کو ’’دام شنیدن ‘‘بچھاتے ہوئے ہر صورت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی ’’باغیانہ‘‘ باتوں کو رپورٹ کرتی جو ’’تحریر‘‘ ہوتی ہے اسے لکھتے وقت ’’ہمارا‘‘ کوئی آدمی وضاحتیں دینے کو موجود نہیں ہوتا۔ بہتر یہی ہے کہ ’’عالم تقریر‘‘ میں اپنا ’’مدعا‘‘ چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
PDM میں شامل ہوئی ہر اپوزیشن جماعت کو بخوبی علم ہے کہ عمران حکومت کو گھر بھیجنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف کو ہمارے پڑھے لکھے اور ’’صاف ستھری‘‘ سیاست کے گرویدہ افراد کی بہت بڑی تعداد قوم کو سیدھی راہ دکھانے کو تعینات ریاست کے کئی ستونوں کے ساتھ باہم مل کر برسوں کی محنت کے طفیل برسراقتدار لائی ہے اسے اقتدار سے محروم کرنے کے لئے جو توانائی اور تڑپ درکار ہے فی الوقت بھرپور انداز میں میسر نہیں۔
مایوس ہوکر گھر بیٹھ جانے کو بھی دل مگر مائل نہیں ہوتا۔ سیاست کی بساط پر ’’بادشاہ‘‘ کو گھیرنے کے لئے ایک کے بعد دوسری چال چلنا لازمی ہے۔ اس کی بدولت شاید ’’وہ صبح‘‘ کبھی طلوع ہو ہی جائے جس کا ’’وعدہ‘‘ نجانے کس نے کس سے کر رکھا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر مجھ جیسے بدنصیب قلم گھسیٹ مگر رزق کمانے کی مجبوری میں مذکورہ بالا حقائق دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اپنی تحریر کے لئے Likes اور Share حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست کے طویل المدت، پیچیدہ اور اعصاب شکن کھیل کو T-20 کی صورت پیش کیا جائے۔
اسی خواہش کے باعث تاثر یہ پھیلایا گیا کہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کے PDM میں یکجا ہوجانے کے بعد عمران حکومت کے لئے صبح گیا یا شام گیا والا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ ایک بیان کے ذ ریعے لیکن گزشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری اُمید بھری رونق کے رنگ میں بھنگ ڈالتے نظر آئے۔ ان کاخیال تھا کہ شہر شہر گھوم کر جلسوں کے انعقاد میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد والا آپشن استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کردی جائے۔ بلاول بھٹو زرداری کے مشورے نے عمران حکومت کے دوکائیاں وزیروں کے دل شاد کردئیے۔
ان کے اطمینان نے تاہم ’’انقلاب‘‘ کے منتظر تبصرہ نگاروں کو ناراض کردیا۔ وہ اپنے مداحوں کو یاد دلانا شروع ہوگئے کہ پیپلز پارٹی عرصہ ہوا ’’انقلابی‘‘ جماعت نہیں رہی۔ ’’اصولی سیاست‘‘ کو تج کر سندھ تک محدود ہوگئی۔ اب وہاں صوبائی حکومت میں تیسری باری سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ اقتدار و اختیار کی بندربانٹ سے جو حصہ اس نے اپنے جثے کے بل بوتے پر وصول کیا ہے اسے بچانے کو وہ عمران حکوت کی “B-Team” بننے کو بھی رضا مند ہو جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کو اب اسے بھلاکر کوئی نئی گیم سوچنا ہوگی۔ یہ دونوں جماعتیں اگرچہ فی الوقت پیپلز پارٹی سے جدا ہونے کو آ مادہ نظر نہیں آرہیں۔
1989 کے ستمبر میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے میں اس کے بارے میں پیش رفت کے مراحل کو تمام فریقین کے قریب رہتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف مذکورہ تحریک کی پشت پناہی سے انکار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے۔ اسے کامیاب بنانے کے لئے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے توانا وزیر اعلیٰ نواز شریف صاحب نے دن رات ایک کردئیے۔
بالآخر جب اس تحریک پر گنتی ہوئی تو محترمہ کی حکومت نہ صرف بچ گئی بلکہ اس نے اپوزیشن جماعت کے چھ سے زیادہ افراد بھی اپنی حمایت میں ’’توڑ‘‘ لئے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں باقاعدہ پیش ہوجائے تو اس پر حتمی گنتی سے قبل وفاقی حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دستیاب ہوتی ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت کے تمام تر وسائل وزیر اعظم کو بچانے پر مرکوز کردئیے جاتے ہیں۔
’’خریدو‘‘ یا ’’دھمکائو‘‘ (Buy or Bully) کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کو بالآخر بچالیا جاتا ہے۔ نظر بظاہر عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت والی ’’تاریخ‘‘ ہی دہرائی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں کو عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے ویسے بھی سو بار سوچنا چاہیے۔ ہماری پارلیمان کے ایوانِ بالا میں اپوزیشن جماعتوں کو 64 اراکین کی حمایت کی وجہ سے بھاری بھر کم اکثریت میسر ہے۔ ’’ٹھوس اعداد‘‘ پر مشتمل حقیقت پر اعتماد کرتے ہوئے ان جماعتوں نے سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک اعتماد پیش کردی۔ ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کی ’’برکت‘‘ سے صادق سنجرانی مگر اسے ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ’’خفیہ رائے شماری‘‘ والی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔ قومی اسمبلی کے اراکین کو اپنی نشستوں سے اُٹھ کر تحریک کے حامیوں اور مخالفین کے لئے مختص لابیوں میں جاکر وہاں موجود رجسٹر پر دستخط بھی کرنا ہوتے ہیں۔ ہمارے آئین میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ اگر وزیر اعظم کے انتخاب یا اس کے خلاف پیش ہوئی تحریک اعتماد کے دوران کسی رکن قومی اسمبلی نے اپنی جماعت کی قیادت کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیا تو وہ اپنی نشست سے محروم ہوجائے گا۔ اس شق کے ہوتے ہوئے تحریک انصا ف کی ٹکٹ پر منتخب ہوا ایک رکن اسمبلی بھی عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنے کی جرأت دکھا نہیں سکتا۔
مجھے کامل یقین ہے کہ جن امور کی جانب میں توجہ دلا رہا ہوں ان کا آصف علی زرداری کو مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھنے سے ہرگز قاصر ہوں کہ ان کی جانب سے وزیر اعظم کے لئے تحریک عدم اعتماد کو کیوں اُکسایا جا رہا ہے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے غالبؔ کے بیان کردہ ’’دام شنیدن‘‘ بچھانے کی کوشش کی۔ اس عمل نے یاد دلایا کہ ہماری ’’دونمبری‘‘ جمہوریت میں ’’ٹھوس اعدادوشمار پر مشتمل حقائق اکثر دھوکا ہی دیتے پائے گئے۔
صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے دوران ایسا ہی ہوا تھا۔ ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘کے ہوتے ہوئے نواز شریف بھی اکتوبر 1999 میں اپنی حکومت نہیں بچاپائے تھے۔ ایسے واقعات سے پیغام ملا کہ وزیر اعظم کی قسمت کے فیصلے پارلیمان میں نہیں بلکہ ’’’کہیں اور‘‘ ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آصف علی زرداری کو گماں ہوکہ ’’وہاں‘‘ موڈ بدل رہا ہے۔ سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر موڈ وہاں واقعتا بدل رہا ہے تو اس کی خبر محض پیپلز تک ہی کیوں پہنچی۔
مولانا بھی اس ضمن میں کافی ’’باخبر‘‘ تصور ہوتے رہے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے شہبازشریف اور خواجہ آصف صاحب جیسے رہ نمائوں کے ’’رابطے‘‘ تو 1990 کی دہائی سے بہت مشہور ہیں۔ وہ دونوں مگر اب جیل میں ہیں۔ آصف علی زرداری کے پاس موجود ’’گیدڑ سنگھی‘‘ بھی کہیں بیک فائر نہ کر جائے۔
فی الوقت تحریک عدم اعتماد کی تجویز نے البتہ PDM کے باہمی ’’نفاق‘‘ کو اجاگر کرنے کیلئے مجھ جیسے قلم گھسیٹوں کو ٹھوس مواد فراہم کردیا ہے۔ ہم اس کی بنیاد پر دیہاڑیاں لگارہے ہیں۔ میں نے بھی آج کا کالم لکھ کراسی بنیاد پر اپنی دیہاڑی لگادی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر