رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسا عجیب دن تھا۔ ساری دنیا دم سادھے ٹیلی وژن کے آگے بیٹھی تھی اور ہر ایک کے منہ پر یہی کلمہ تھا کہ خدا خیر کرے۔ہمیں یہ منظر بھی دیکھنا تھا کہ دنیا کے سب سے طاقت ور ملک میں یہ خوف تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والے دہشت گرد کہیں ملک کے دارالحکومت پر چڑھائی نہ کردیں۔
اس اندیشے کے پیش نظر جمہوریت اور آزادی کا نعرہ لگانے والے امریکہ کی پارلیمان یعنی کانگریس کی عمارت کو حملے سے بچانے کے لئے پورے علاقے کے ایک ایک چپے پر فوج کھڑی کردی گئی تھی۔
تقریب یہ تھی کہ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے جو بائیڈن اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے تھے ۔ اس تاریخی تقریب میں دنیا بھر کے مہمان مدعو تھے۔
اس موقع پر رخصت ہونے والے صدر کو الوداع کہا جانا تھا۔ مگر مسئلہ کچھ ایسا تھا گویا یہ امریکہ نہیں، نام نہاد تیسری دنیا کا کو ئی گرا پڑا ملک ہے جہاں الیکشن میں ناکام ہونے والے شخص نے کھڑے ہوکر اعلان کر دیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، مجھ سے میرا الیکشن چرالیا گیا ہے اور یہ کہ میں اس الیکشن اور اس کےنتیجے کو نہیں مانتا۔
پھر دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جس روز امریکی کانگریس نو منتخب صدر کی کامیابی کی باضابطہ تصدیق کرنے والی تھی، ناکام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی کارروائی روکنے کے لئے نہ صرف کانگریس کی عمارت پر مظاہرہ کیا بلکہ وہ عمارت پر چڑھ دوڑے اور ایوان پارلیمان پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے۔
یہ اعصاب کو جھنجھوڑنے والا منظر تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ نئے صدر جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریبات فوج کے سائے میں منائی گئیں۔ ہر چوتھے برس جس تقریب میں لاکھوں امریکی شہری جمع ہوتے ہیں ، اس بار اس میں شہریوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور جس میدان میں کھڑے ہوکر لوگ اس تقریب کا نظارہ کرتے تھے ، اس میں ہزاروں پرچم لہرا دئیے گئے جو تا حد نگاہ لہر ا لہرا کر جمہوریت کے سرخ رو ہونے کے منظر کی داد دے رہے تھے۔
اس تقریب کی شان یہ ہوتی ہے کہ رخصت ہونے والا صدر اپنی سرکاری قیام گاہ یعنی وہائٹ ہاؤس کو خالی کرتا ہے اور نئے صدر اس عمارت میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ رخصت ہونے والا صدر چلتے چلتے اپنی میز پر نئے صدر کے نام ایک پرچہ بھی چھوڑ جاتا ہے جس پر دو چار گُر لکھے ہوتے ہیں۔ اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ہارے ہوئے صدر ٹرمپ منہ پھلائے نہ صر ف گھر سے بلکہ شہر ہی سے چلے گئے تاکہ تقریب میں شرکت نہ کرنی پڑے۔یہ گویا ان کا پیغام تھا کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
شکر ہے کہ ان کے ایک اشارے پر سر دھڑکی بازی لگانے والے ان کے حامی باہر نہیں نکلے اور ان کے چار سال کے کارناموں پر نگا ہ رکھنے والی دنیا نے عرصے بعد سُکھ کا سانس لیتے ہوئے خس کم جہاں پاک کا زیرِ لب سہی، نعرہ ضرور لگایا ہوگا۔
یہاں دل چسپ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ نئے صدر نے کہہ دیا ہے کہ ان چار برسوں میں جتنے احمقانہ قدم اٹھائے گئے ہیں ان سب پر سیاہی پھیری جائے گی۔
مثلاً ٹرمپ نے صدر بنتے ہی مسلمان تارکین وطن کے امریکہ میں داخلے پر جو پابندی لگائی تھی، وہ منسوخ کی جائے گی۔یہ تو محض ایک مثال ہے، سر پھرے صدر نے اپنی گدی پر بیٹھتے ہی جو فرمان پر فرمان جاری کرنے شروع کر دئیے تھے، ان سب پر پوچا پھیرا جائے گا۔
کہنے والے یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ عالمی سیاست میں کتنی ہی دراڑیں پڑ گئی ہیں جنہیں بھرنا ہوگا اور یہ کہ دنیا صبر سے کام لے اور تبدیلی کی جلدی نہ مچائے کہ یہ کام اپنا وقت لے گا۔ بالکل یوں لگا کہ یہ تبصرہ تیسری دنیا کے کسی گرے پڑے ملک میں کیا جارہا ہے۔
یہ طے ہے کہ دنیا بدلے نہ بدلے امریکہ ضرور بدل رہا ہے۔خاص طور پر جب سے اس ملک نے سیاہ فام باراک اوباما کو اپنا صدر چنا ہے،اس کے مزاج او ر طرزِ عمل میں نمایاں تبدیلی آرہی ہے۔
تبدیلی کا یہ سلسلہ ان دنوں مزید نمایاں ہوا ہے کہ حلف برداری کی تقریب میں جس بات کی دھوم مچی تھی، وہ یہ تھی کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون ملک کی نائب صدر منتخب ہوئی ۔نئے صدر نے اپنی کابینہ کا اعلان بھی کیا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر ایسے وزیر چنے ہیں جنہوں نے صدر اوباما کے دور میں اچھی پالیسیاں وضع کی تھیں۔
صدر ٹرمپ نے دنیا کے ملکو ں سے تجارت کے نام پر جو لڑائیاں لڑیں، وہ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گی اور اسرائیل کو خوش کر نے کے لئے مشرقِ وسطی میں جو کارروائیاں کی ہیں ان کا بھی تیا پانچہ ہوگا۔
یہ سب کر کے امریکہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے رہا۔ دنیا کے بدلتے ہوئے طرز عمل میں وہ ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ دنیا بدل رہی ہے تو اس میں بڑا ہاتھ انسان پر نازل ہونے والی وبا کا بھی ہے جو کورونا کے نام سے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور جس نے امریکہ میں بڑی تباہی مچائی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی شکست میں بڑا ہاتھ کورونا کا بھی رہا جس کے بارے میں ٹرمپ نے شروع شروع میں لا پروائی کا مظاہر ہ کیا اور پھر امریکہ پر جوآفت ٹوٹی اس کے اثرات نہیں معلوم کب تک امریکہ کی نیندیں اڑاتے رہیں گے؟
میں پھر اپنی بات دہراتاہوں۔ دنیا بدل رہی ہے۔ وہ بھی کسی کے کچھ کرنے سے نہیں۔ انسانی تاریخ اپنا چکر بار بار پورا کرچکی ہے۔اس باربھی دائرہ مکمل ہورہا ہے۔یہ کہا ں جاکر رُکے گا۔ کوئی نہیں جانتا۔ سوال یہ ہے کہ رُکے گا بھی یا نہیں؟
یہ بھی پڑھیے:
جمہوریت تماشا بن گئی۔۔۔رضاعلی عابدی
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر