کمرے میں تھوڑی دیر کے لیے سکوت چھا گیا.
حسن علی چائے کی چسکیاں لے رہا تھا.
اتنے طویل سفر نے حسن علی کو بھی ادھ منہ کر دیا تھا.خاوند چپ چاپ ہاتھ باندھے کھڑا تھا خاموشی کو توڑتے ہوئے حسن علی اس کی طرف مخاطب ہوا.آپ کا نام ؟وہ جھٹ سے بولا صاحب خاندو پورا نام خاوند بخش ہے
لیکن سب خاندو خاندو پکارتے ہیں.
حسن علی نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن میں تمھیں خاوند بخش پکاروں گا.
خاوند بخش ہچکچاتے ہوئے صاحب!آپ کا نام؟
میرا نام حسن علی ہے نوجوان نے کہا.
صاحب! میں آپ کے لیے گھر سے کھانا لاتا ہوں خاوند بخش نے کہا.
رہنے دیجیئے خاوند بخش آج کی رات کا کھانا میں اپنے ساتھ لایا ہوں بس اسے تھوڑا گرم کر لیں
باقی کل صبح دیکھتے ہیں کیا پروگرام بنتا ہے.
خاوند بخش نے کھانا گرم کیا، اچھا صاحب اب مجھے اجازت ہے گھر پہ کوئی نہیں ہے بھائی والے کسی رشتہ دار کی شادی پہ گئےہیں وہ کل صبح لوٹیں گے.
حسن علی نے کہا ٹھیک ہے آپ جائیں، کھانا کھانے کے بعد نیند نے حسن علی کو آن لیا.تھکن اتنی تھی سردی کی طویل رات کے درمیان میں آنکھ تک نہیں کھلی…
لیکن اس نے جو سردیوں کے موسم میں اپنے اٹھنے کا وقت مقرر کیا ہوا تھا یہاں بھی اس کی صبح چھ بجے آنکھ کھل گئی.گرم پانی کا انتظام تھا اس نے نہا دھو کر نام اللہ کا لیا اور اپنے کوارٹر سے نکل کر کالونی میں تھوڑی دیر کے لیے چہل قدمی کی اور سامنے دکان سے دودھ لیا کچن میں خود چائے بنائی اور چسکیاں لینے لگا
ناشتے کا کچھ خاص اہتمام نہیں تھا بس بریڈ سے گزارا کر لیا.ٹائم کی طرف دیکھا تو آٹھ بج چکے تھے اور نو بجے اسے دفتر پہنچنا تھا لیکن وہ اس سے بھی لا علم تھا کہ شہر میں دفتر کس جگہ واقع ہے.
اس نے پہلے دن روایتی لباس کے بجائے تھری پیس پہنا ایسا پہن کر نا جانے وہ کیا تاثر دینا چاہتے تھے
کیونکہ یہ روایتی لباس سے ہٹ کر تھا اور ایسے علاقے میں اسے پہننا کچھ نا مناسب سا تھا.
لیکن حسن علی تو اس علاقے کی رویات اور کلچر سے واقف نہ تھا اور پہلی بار یہاں آیا تھا.
کھڑی جیپ پر طائرانہ نظر ڈالی لیکن وہ چلنے کے قابل نہ تھی اور نظریں چرا رہی تھی۔
تیار ہو کر اس نے رکشا پکڑا اور رکشے والے کو آفس ایڈریس بتایا.خاوند بخش آفس میں پہلے سے ہی نئے صاحب کی خبر دے چکے تھے خاوند بخش نے گلاب کو بتایا (گلاب اسی آفس میں مالی تھا)یار گلابی!نیا صاحب گھبرو نوجوان ہے اور زیادہ پڑھا لکھابھی پہلے تو سارے بڈھے ہوتے تھے ہر بات پہ جھڑک دیتے تھے.ہمیں اب اتنی ڈانٹ ڈپٹ نہیں پڑے گی.کیونکہ وہ نو جوان ہے عمر رسیدہ لوگوں کا خیال کرے گا
خاوند بخش کل صاحب کے رویے سے کافی متاثر ہوا تھا..
ارے سکو تم نے صاحب کی آفس میں پڑی ٹیبل پر کپڑا مارا ہے خاوند بخش نے زور دار آواز سے سکندر کو خبر دار کیا جو اس آفس میں نائب قاصد ہے
اسی اثنا میں رکشا نمودار ہوا وہاں پہ کھڑے اسٹاف کے وہم وگمان بھی نہ تھا کہ صاحب گاڑی کے بجائے رکشے میں آئیں گے وہ تو اچھا ہوا خاوند بخش وہاں موجود تھا جھٹ سے پہچان لیا. باقی اسٹاف تو اسے دوائیاں بیچنے والا سمجھتے.
حسن علی نے رکشے والے کو پیسے دیئے اور آفس کی جانب بڑھا سپرنٹنڈنٹ صاحب توند نکالے ہاف بازوؤں والا سوئئٹر پہنے ساتھ میں کچھ کلرک لیے کھڑے تھے یہ سب نئے صاحب کے استقبال کے لیے موجود تھے.
.حسن علی نے انھیں آتے ہی سلام کیا اور گڈ مارننگ کہا سپرنٹنڈنٹ صاحب نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور رفتہ رفتہ سب ملتے گئے پھر حسن علی مسکرا کر بولے مجھے تعارف کرانے کی تو ضرورت نہیں یقیناً خاوند بخش نے میرے متعلق آپ کو بتایا ہو گا.
سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کیونکہ پہلی مرتبہ کسی نے خاندو کو خاوند بخش کہا تھا..
(جاری)
یہ بھی پڑھیے:
گریڈز کی تعلیم ۔۔۔ احمد علی کورار
ماہ ِ اکتوبر اور آبِ گم ۔۔۔ احمد علی کورار
”سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے“۔۔۔احمد علی کورار
مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ۔۔۔احمد علی کورار
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر