طویل مسافت کے بعد بالآخر حسن علی شہر پہنچ گیا گاڑی سے اترنے کے بعد وہ شہر کا مشاہدہ کرنے لگا اسے اجنبیت محسوس ہوئی ہر طرف غیر مانوس چہرے نظر آئے.
وہ دل ہی دل میں خیال کرنے لگا کہ کارِ سر کار نے کہاں سے کہاں لاکھڑا کیا ہے پھر یکدم خیال آیا خیر!فرض ہے نبھانا تو ہے .
وہ شہر میں اجنبی تھا جہاں اسے قیام کرنا تھا اسے اس جگہ کا بھی صحیح طرح سے معلوم نہ تھا لیکن اسے اتنا بتایا گیا تھا
کالونی گنج آباد میں ان کی رہائش گاہ ہے.
کالونی گنج آباد ایسی کالونی تھی جہاں تمام ڈسٹرکٹ آفیسرز کی رہائش گاہیں تھیں.
حسن علی کے آنے سے پہلے کوارٹر کے چپراسی کو بتایا گیا تھا کہ نئے صاحب آئیں گے ان کی اچھی طرح سے آؤ بھگت کی جائے.
چپراسی وہاں دوپہر سے نئے صاحب کا انتظار کر رہا تھا. خاوند بخش ادھیڑ عمر کا ہو چکا تھا اور اسے افسروں کی خدمت چاکری کرتے کرتے ایک عرصہ بیت چکا تھا وہ ان کی طبع سے بھی اچھی طرح واقف ہو چکا تھا.
حسن علی ٹیکسی میں بیٹھ کر گنج آباد کالونی پہنچتا ہے جہاں کالونی کے ابتدا میں اسے شاندار عمارت نظر آتی ہے جہاں ایک سائن بورڈ لگا ہوتا ہے جس پہ لکھا ہوتا ہے “رہائش گاہ ڈپٹی کمشنر “اس کے بعد ایک اور بڑی عمارت تھی جہاں پہ لکھا ہوا تھا “رہائش گاہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر”
راستے میں اور بھی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں گاڑی کشادہ روڈ پہ فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھی چلتے چلتے موڑ کاٹ کر ایک کونے میں رک گئی اور ڈرائیور نے کہا صاحب! آپ اپنی رہائش گاہ تک پہنچ گئے ہیں.
حسن علی نے اپنا بیگ اٹھایا اورڈرائیور کو کرایہ دیا. ڈرائیور چلتا بنا.سامنے خاوند بخش بھاگتا ہوا آیا سلام کیا اور کہنے لگا صاحب تھیلا مجھے دیں حسن علی نے بیگ اسے تھمایا اور گیٹ سے اندر داخل ہوا خاوند بخش کہنے لگا !
لیں صاحب آپ اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے صاحب! ہمیں چند دن پہلے پتہ چلا تھا کہ آپ کا اس ضلع میں تبادلہ ہوا ہے حسن علی خاوند کی باتوں پہ توجہ کم بلکہ عمارت کا جائزہ لینے لگا جو بہت بوسیدہ ہو چکی تھی اور چھت زمین بوس ہونے والی تھی. ایسا لگتا تھا کہ عمارت تخلیقِ پاکستان سے پہلے تعمیر کی گئی تھی دیواروں سے پلستر اکھڑ چکا تھا فرش بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا. ایک روم میں پرانی قالین بچھی ہوئی تھی جو لگ بھگ 90 کی دہائی میں خریدی گئی تھی.
یہ عمارت دو ہی کمروں پر مشتمل تھی باہر کی جانب واش روم اور کچن بھی بنے ہوئے تھے.
خاوند بخش نے کمروں اور صحن کی خوب صفائی کی تھی صحن میں کچھ سو کھے ہوئے پودے بھی تھے لگتا تھا وہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ گئے ہیں صحن میں ایک طرف پرانی سی جیپ بھی کھڑی تھی جونہی حسن علی جیپ کو دیکھنے لگا خاوند بخش بتانے لگے صاحب! یہ کب سے یہاں کھڑی ہے کوئی بھی افیسر اسے استعمال نہیں کرتا ہے کیونکہ سب افسر کے پاس اپنی گاڑیاں تھیں وہ اپنی گاڑی پہ آفس آتے جاتے تھے. ادھر ادھر جائزہ لینے کے بعد حسن علی کمرے میں داخل ہوا
صاحب!آپ بہت تھکے ہوئے ہیں میں آپ کے لیے چائے کا بندوبست کرتا ہوں خاوند بخش نے کہا.حسن علی نے اثبات میں سر ہلایا.خاوند کچن میں چائے بناتے وقت سوچنے لگا صاحب کتنے نوجوان ہیں اور خاوند بخش نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسا نوجوان افسر دیکھا تھا اس سے پہلے تو اس کی اتنی سروس میں سب ادھیڑ عمر یا تو بالکل بڈھےافسر آتے تھے اور محو حیرت ہوا یہ پہلا افسر ہے جس کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں ہے.تھوڑی دیر میں خاوند بخش چائے لیکر کمرے میں داخل ہوا اور چائے دے کر باادب ہو کر کھڑا ہو گیا..
(جاری)
یہ بھی پڑھیے:
گریڈز کی تعلیم ۔۔۔ احمد علی کورار
ماہ ِ اکتوبر اور آبِ گم ۔۔۔ احمد علی کورار
”سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے“۔۔۔احمد علی کورار
مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ۔۔۔احمد علی کورار
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر