نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل 2016 میں پانامہ دستاویزات کے نام پر جو ’’حقائق‘‘ آشکار ہوئے ان میں 400 کے لگ بھگ پاکستانیوں کے نام موجود تھے۔ نظر بظاہر وہ حکومت سے اپنی حقیقی آمدنی چھپاتے رہے۔ ٹیکس چوری کے ذریعے جمع رقوم کو انہوں نے بیرون ملک منتقل کیا۔ ان رقوم سے ’’آف شور ‘‘ کمپنیاں کھولیں اور ان کے ذریعے منافع کماتے مزید دھندوں میں مصروف ہوگئے۔ ان دستاویزات میں نواز شریف کا براہِ راست نام نہیں لیا گیا تھا۔ ان کے خاندان کی ملکیت شمار ہوتے لندن کے چند قیمتی فلیٹس کا ذکر تھا جو مبینہ طورپر ’’آف شور‘‘ ذرائع سے خریدے گئے تھے۔ ان ذرائع کو تفصیل سے بیان کرنے سابق وزیر اعظم کوسپریم کورٹ نے طلب کیا۔ وہ اطمینان بخش جواب نہ دے پائے تو ریاستی اداروں پر مشتمل ایک JIT بنی۔ اس نے اقامہ کا سراغ لگایا اور ’’سسیلین مافیا‘‘ کے ’’گاڈ فادر‘‘ قرار پائے نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے فارغ کردئیے گئے۔ خود کو ’’صادق اور امین‘‘ ثابت نہ کر پانے کی وجہ سے وہ کسی بھی منتخب ادارے کی رکنیت کے لئے تاحیات نااہل بھی ٹھہرا دئیے گئے۔ ان کے خلاف تاریخی سرعت سے ہوئی کارروائی کے بعد امید بندھی تھی کہ پانامہ دستاویزات میں موجود دیگر ناموں کے خلاف بھی ایسی ہی پیش رفت ہوگی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔
اس برس کا آغاز ہوتے ہی ’’براڈشیٹ‘‘ کمپنی کے حوالے سے ایک سنسنی خیز سکینڈل منظر عام پر آچکا ہے۔ اس کی بدولت لندن میں مقیم ایک ایرانی نژاد ’’جیمز بانڈ‘‘ ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھاچھو گیا۔ اس کے پاس سنانے کو بے تحاشہ چسکے دار کہانیاں موجود ہیں جو ہمارے چند نامور سیاست دانوں کو ’’حرام کھانے‘‘ کی علت میں مبتلا دکھاتی ہیں۔ ان کہانیوں نے ہمارے دلوں میں سیاست دانوں کے خلاف دہائیوں سے موجود نفرت کو مزید بھڑکایا۔ ایرانی نژاد ’’جیمز بانڈ‘‘ جوشِ خطابت میں تاہم غیب بھری کہانیاں سناتے ہوئے ’’کسی اور ‘‘ جانب بھی مڑگیا۔ اس نے جہاں کا رُخ کیا اس جانب پرواز سے ہمارے کئی مستند اور عوام میں بے تحاشہ مقبول حق گو اینکر خواتین وحضرات کے پر جلتے ہیں۔ ایرانی نژاد ’’جیمز بانڈ‘‘ لہٰذا بتدریج ہماری ٹی وی سکرینوں سے غائب ہونا شروع ہوگیا۔
اس کی سنائی کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تاہم یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ برطانیہ کی ایک عدالت کے روبرو مقدمہ لڑتے ہوئے اس نے حکومتِ پاکستان سے 28 ملین ڈالر کی خطیر رقم بطور ’’تاوان‘‘ وصول کرلی ہے۔ یہ رقم میرے اور آپ کے دئیے ٹیکسوں سے ادا ہوئی۔ ’’سب پہ بالادست ‘‘ شمار ہوتی پارلیمان میں موجود ’’ہمارے نمائندے‘‘ اس کی بابت مگر فکر مند نظر نہیں آرہے۔ ازخود نوٹس لینے کا اختیار بھی ہماری عدالتوں نے ان دنوں تقریباََ معطل کر رکھا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ’’قومی خزانے‘‘ کے بارے میں ہم واقعتا فکر مند ہیں تو کونسا ادارہ ہم بدنصیبوں کی تسلی کے لئے اس امر کا سراغ لگائے گا کہ ’’براڈ شیٹ‘‘ نامی کمپنی کی ’’صلاحیتوں‘‘ کو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف بروئے کار لانے کا فیصلہ کسی ریاستی ’’نابغہ‘‘ نے کیا تھا۔ مذکورہ کمپنی سے جو معاہدہ ہوا اسے وزارتِ قانون نے باریک بینی سے Vet کیا تھا یا نہیں۔ نظر بظاہر اس حوالے سے کوئی تردد ہی نہیں ہوا۔ اس کوتاہی کا حساب کون دے گا۔ یہ سوال مگر ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں زیر بحث ہی نہیں۔
براڈ شیٹ کے تناظر میں اجتماعی بے اعتنائی آپ کو مزید پریشان کرسکتی ہے اگر آپ یہ بھی یاد کرنے کی زحمت اٹھائیں کہ سینکڑوں کے قریب سرکاری افسروں اور ماضی کے وزراء کو نیب نے کئی مہینوں سے حراست میں ڈال رکھا ہے۔ میڈیا ٹرائل کی بدولت ہوئی ذلت و رسوائی سمیت جیل میں کئی ماہ گزارنے کے بعد کئی نمایاں افراد کو بالآخر ضمانتوں پر رہائی ملی۔ اعلیٰ عدالتوں نے ا نہیں ضمانتوں پر رہا کرتے ہوئے اپنے فیصلوں میں ان دنوں جاری احتسابی عمل پر بھی سنگین سوالات اٹھائے۔
نیب کے عقوبت خانوں میں ڈالے افراد پر عموماََ ’’قومی خزانے کو نقصان‘‘ پہنچانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ چند افراد کا ’’طرز زندگی‘‘ ان کی جانب سے ٹیکس حکام کو بتائے ’’ذرائع آمدنی‘‘ سے بظاہر Match نہیں کرتا۔ قومی خزانے کو تاہم براڈ شیٹ نامی کمپنی نے جو ’’نقصان‘‘ پہنچایا ہے اس کاحساب لینے کی تڑپ کہیں بھی موجود نظر نہیں آرہی۔
الیکشن کمیشن کے روبرو دریں اثناء گزشتہ چھ برس سے عمران خان صاحب کی بنائی تحریک انصاف کے خلاف ’’فارن فنڈنگ‘‘ نامی کیس تقریباََ رینگتے ہوئے چل رہا ہے۔ معاملہ نبٹانے میں پانامہ کیس جیسی کوئی عجلت نہیں دکھائی گئی۔ اپوزیشن کے شور و غوغا کے باعث بالآخر اس کیس میں تھوڑی ’’ہل جل‘‘ نظر آئی تو اتوار کے روز وزیر اطلاات جناب شبلی فراز فیصل آباد سے منتخب ہوئے ایک رکن اسمبلی فرخ حبیب سمیت ایک پریس کانفرنس میں نمودار ہوگئے۔ ان دونوں کی بدولت مجھ جیسے کم علم کو دریافت یہ ہوا کہ ’’مشکوک‘‘ فارن فنڈنگ تو درحقیقت نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کھاتوں میں آتی رہی ہے۔ ان دو جماعتوں کے ساتھ لہٰذا ’’لینے کو دینے‘‘ والی گڑبڑ ہوچکی ہے۔
معاملے کو ایک اور نگاہ سے دیکھیں تو گماں یہ بھی ہوتا ہے کہ ’’فارن فنڈنگ‘‘ کے حوالے ے ہماری تینوں بڑی جماعتوں -تحریک انصاف،مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی- کے ساتھ ’’ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘‘ جیسا قصہ ہو چکا ہے۔ ان کے خلاف اس ضمن میں لگائے الزام ثابت ہوگئے تو یہ تینوں بڑی جماعتیں ’’کالعدم‘‘‘ بھی قرار پاسکتی ہیں۔ فرض کیا ایسا ہوگیا تو موجودہ پارلیمان میں ان کی ٹکٹوں پر منتخب ہوئے تمام اراکین اپنی نشستوں سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسا ہوگیا تو اتنی کثیر تعداد میں خالی ہوئیں نشستوں کو پُرکرنے کے لئے ضمنی انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نہیں رہے گا۔ نئے انتخابات کروانا لازمی ہوجائے گا۔ ان میں شرکت کا اہل ثابت ہونے کے لئے ’’نئی‘‘ سیاسی جماعتیں تشکیل دینا ہوں گی۔ مؤثر انداز میں یہ عمل نہ ہوا تو شاید آئندہ انتخابات 1985 کے برس کی طرح بنیادی طور پر ’’غیر جماعتی‘‘ نظر ا ٓئیں گے۔
اپنی صحافتی عمر کا تمام تر حصہ سیاسی رپورٹنگ کی نذر کردینے کی وجہ سے اگرچہ میں پُراعتماد ہوں کہ میڈیا میں ’’فارن فنڈنگ‘‘ کے حوالے سے لگائی تمام تر رونق بالآخر ’’ٹھس‘‘ ہی ثابت ہوگی۔ ہماری ہر نوع کی حکمران اشرافیہ جبلی طور پر ’’استحکام‘‘ کی گرویدہ ہے۔ نام نہاد ’’سسٹم‘‘ کو زلزلوں کی زد میں نہیں آنے دیتی۔ ’’سسٹم‘‘ برقرار رکھتے ہوئے ہی ہماری اشرافیہ خواہ وہ حکومت میں بیٹھی ہو یا اپوزیشن میں اپنے جثے کے مطابق اقتدار و اختیار میں اپنا حصہ وصول کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ ’’سسٹم‘‘ کی ’’انقلابی‘‘ اکھاڑ پچھاڑ بالآخر ان کے اجتماعی مفاد ہی کو زک پہنچاتی ہے۔ ہم بحیثیت قوم لہٰذا ’’اسی تنخواہ‘‘ میں گزارہ کرتے رہیں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر