دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمرو عیار کی زنبیل۔۔۔ملک سراج احمد

اس بارزنبیل سے فارن فنڈنگ کیس اور براڈ شیٹ کا ایشو نکالا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ کتنے دن اس کے سہارے گذر سکتے ہیں کتنی دیر مزید شعبدہ بازی کی جاسکتی ہے۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچپن میں عمرو عیار کی کہانیاں پڑھتے تھے جس میں داستان ہوشربا کا ایک کردار عمروعیار ایک زنبیل اٹھاے پھرتا تھا۔جہاں بھی جب بھی اس کو ضرورت ہوتی ہے وہ زنبیل میں ہاتھ مارتا اور مطلوبہ شئے نکال لیتا تھا۔کم عمری میں بندہ نا سمجھ ہوتا ہے چیزوں کی حقیقت سے نا آشنا ہونے کے سبب جلد ہی ان سے متاثرہونا شروع کردیتا ہے۔اور اسی سبب عمرو عیار کی زنبیل بھی ان چیزوں میں شامل ہے جس سے میں اور اس کو پڑھنے والا کم وبیش ہر بچہ ہی متاثر ہوا۔تھوڑی سی عمر زیادہ ہوئی تو ایک جاسوسی ناول عمران سیریز نے گویا جکڑ لیا۔ان دنوں یہ ناول کرائے پر بھی ملتا تھا اس ناول نے ایک نشے کا کام کیا۔نئے ناول کا انتظار اس قدر شدت سے ہوتا تھا کہ الامان الحفیظ ۔کرائے پر بھی نیا ناول نایاب ہوتا تو یار دوستوں نے حل یہ نکالا کہ چندہ کرکے نیا ناول ہی خرید لیتے اور پھر باری باری سب پڑھتے اور سب سے زیادہ فائدے میں وہ رہتا جس کی پڑھنے کی باری آخر میں آتی اس طرح وہ ناول اس کے پاس ہی رہ جاتا۔
سکول کے بعد کالج میں پہنچے تو راجہ انور کے محبت بھرۓ خطوط پر مبنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن نے اپنے سحر میں لے لیا۔اتنا پڑھا کہ کتاب ہی ازبر ہوگئی اس کے بعد کچھ میچور ہوئے تو راجہ انور کی کتاب بڑی جیل سے چھوٹی جیل ہاتھ لگی ۔سوچنے کا انداز بدلا ۔پہلی بار گردوپیش پر نظر ڈالی اور چیزوں کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کیا اپنے معروض کو سمجھنے کی کوشش کی۔ عمرو عیار کی زنبیل کی شعبدہ بازی سے لے کر بڑی جیل سے چھوٹی جیل کی حقیقتوں تک رسائی کا سفر بھلے کئی سالوں پر محیط تھا مگر شاندار تھا۔ستم یہ کہ اس سب کے باوجود عمروعیار کی زنبیل کا جادو کم نہیں ہوا۔
تاہم اس زنبیل سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ سب جھوٹ ہے۔مگر یہ جھوٹ نہیں تھا بلکہ یہی تو سچ تھا کیونکہ عمرو عیار کی زنبیل تو آج بھی موجودہے ۔پاکستان کی سیاست کسی داستان ہوشربا سے کم تو نہیں ہے۔اس داستان کے عمروعیار کی زنبیل کی طرح اس میں سے بھی کب ، کس وقت اور کیا برامد ہوجائے کس کو خبر ہے۔پاکستانی سیاست کی اس داستان ہوشربا میں سیاست کرنے والے عمروعیارسے زیادہ ہوشیار ہیں۔اور آج کے ان عمرو عیاروں کے ہاتھوں میں جو زنبیل ہے اس میں اُن کی اپنی ضرورت کی ہر چیز تو کہیں بھی کسی بھی وقت برامد ہوسکتی ہے۔اس جادوئی زنبیل میں ہر مسلئے کا حل ہے، ہر یوٹرن کا جواز ہے ، ہر کی گئی کرپشن سے پاک دامنی کا سرٹیفکیٹ موجود ہے۔
یہاں کی سیاست پر زیادہ دور تک سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔قریب کے چند سال پر غور کرلیں۔پانامہ لیکس کے بعد ایک طوفان اٹھا اور اس کے بعد ملکی سیاست کاانداز ہی بدل گیا۔عوام نے اطمینان کاسانس لیا کہ چلو کرپٹ پھڑے گئے مگر زنبیل سے لوٹی گئی رقم کی بجائے اقامہ برامد ہوا۔نئے انتخابات ہوئے تو نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کے حامیوں کے مابین گویا جنگ چھڑ گئی۔بات نہیں بن رہی تھی اور بالآخر زنبیل سے نیا پاکستان نکالنا پڑا۔پل بھر میں نصیب بدلے اور صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے۔صد شکرکے چلو کچھ توبہتر ہوا۔مگر کچھ ہی مدت گذری تو محسوس ہوا کہ یہ تو وہی پرانے صبح وشام ہیں۔
مگر امیدیں جُڑی رہیں اور آس نہیں ٹوٹی۔سب کی نظریں زنبیل کی طرف تھیں کہ اس میں سے تمام مسائل کا حل نکلے گا۔کیونکہ پریشان حال انسان کسی بچے سے کم نہیں ہوتا وہ پریشانی میں حقائق سے نظریں چراتے ہوے جادوئی انداز میں مسائل کا حل چاہتا ہے۔ایسے میں زنبیل ہی واحد ایسی چیز ہے جہاں سے مسائل کا ممکنہ حل نکل سکتا ہے۔سیاست کے عمرو عیار نے زنبیل میں ہاتھ ڈالا اور جب ہاتھ باہر نکالا تو پہلا حل یہ کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا۔بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔اور تو اور زرعی ملک ہونے کے باوجود چینی اور آٹے کے نرخ بڑھ گئے۔
بادشاہ کے محل میں موجود ہر شخص کے کاندھے پر خالی زنبیل رکھی ہوئی ہے۔کچھ کی زنبیل تو چینی کی خرید وفروخت کے دوران ہی بھر گئ اور وہ اپنی زنبیل اٹھا کر چلتے بنے۔جبکہ باقی اس انتظار میں ہیں کہ کب موقع ملے کہ وہ اپنی زنبیل کو بھر سکیں۔اس دوران محل سے باہر بھوکی ننگی جنتا جمع ہونا شروع ہوگئی ہے۔بھوکے پیٹ جادو سے نہیں روٹی سے بھرے جاتے ہیں اور زنبیل سے اراکین اسمبلی کی مراعات میں اضافہ سمیت سب کچھ نکل رہا ہے مگر بھوکی عوام کے لیے روٹی نہیں نکل رہی۔سستی دوائی اور ارزاں نرخوں پر بجلی ، گیس اور پٹرول کی فراہمی کاحل نہیں نکل رہا۔
بادشاہ اور اس کے حواریوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دھوکہ اور فریب بھی بندہ اس وقت کھاتا ہے جب پیٹ بھرا ہو اور خالی پیٹ تو صرف روٹی ہی کھاسکتا ہے مزید دھوکہ اور فریب نہیں کھاسکتا۔مگر پھر بھی داستان ہوشربا کے بادشاہ کی ہمت قائم ہے اور ہر بارزنبیل سے کوئی نا کوئی نئی چیز نکال ہی لیتا ہے اور لوگ کچھ دیر کو روٹی کو بھول کر اس تماشے میں لگ جاتے ہیں۔اس بارزنبیل سے فارن فنڈنگ کیس اور براڈ شیٹ کا ایشو نکالا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ کتنے دن اس کے سہارے گذر سکتے ہیں کتنی دیر مزید شعبدہ بازی کی جاسکتی ہے۔
سندھ ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کی جیت اور الیکشن کمیشن کے باہر پی ڈی ایم کے مظاہرے کے درمیان زنبیل سے حریم شاہ اور مفتی قوی کا تنازعہ نکالا گیا ہے۔اس کی پس پردہ وجوہات جو بھی ہوں اب اگر زنبیل سے اس طرح کی چیزیں نکلنا شروع ہوگئی ہیں تو پھر لگتا ہے کہ داستان ہوشربا ختم ہونے کے قریب ہے اور اس کا مرکزی کردار عمروعیار اپنی زنبیل سمیت موجودہ کہانی سے نکلنے والا ہے۔مگر بے چاری عوام خاطر جمع رکھیں کہ اگلی کسی نئی کہانی میں عمروعیار کا کردار بھلے تبدیل ہوجائے مگر زنبیل یہی رہے گی۔اگر حقیقی تبدیلی چاہیے تو داستان ہوشربا کا داستان گو بدلو۔اور کچھ نہیں تو حسن کوزہ گر کو بلا کراٗس کی جہاں زادکے قصے ہی سن لو تاکہ اس گھسی پٹی عمروعیار کی کہانی سے تو جان چھوٹے۔
تحریر :ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author