گزشتہ ہفتے، بی بی سی کا پاکستان میں آج ٹی وی پر نشر کیا جانے والا پروگرام سیربین نشر ہونا بند ہوگیا۔ اس حوالے سے بی بی سی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیئے میں کہا گیا کہ پروگرام میں بے جا مداخلت کی وجہ سے آج ٹی وی سے فوری طور پر سیربین کے حوالے سے نشریاتی معاہدہ ختم کردیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ مداخلت پچھلے سال اکتوبر سے جاری تھی۔
معاملے پر بی بی سی میں ایک عرصہ تک خدمات سرانجام دینے والے صحافی طاہر عمران میاں نے نیا دور کے پروگرام میزبان علی وارثی سے گفتگو کرتے ہوئے روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا میڈیا حد سے زیادہ سینسرڈ ہوتا ہے ہم سب سوچ سمجھ کر لکھتے بولتے ہیں کہ ایک محکمہ ہم سے پریشان نہ ہو۔ سیربین کو سب سے پہلے ایکسپریس پر لانچ کیا گیا پھر آج ٹی وی۔ ہم نے بڑی بڑی سٹوریز سیربین پر بریک کیں اور یہ حقیقت ہے کہ سیربین ایک مشہور پروگرام تھا جس پر نشر ہونے والی خبریں پاکستان کا میڈیا اٹھاتا تھا۔ بی بی سی اردو پر تو پریشر ہے ہی ہے۔
آج نیوز پر سیربین کی وجہ سے جو پریشر تھا وہ پہلے بھی تھا۔ 2019 میں بھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا پھر مذاکرات ہوئے اور پھر سے پروگرام کو آن ائیر کیا گیا۔ اسکے فارمیٹ کو بھی تبدیل کیا گیا۔ سخت خبروں پر مشتمل ہونے کی بجائے اسے ایک نوجوان آڈینس کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔ پھر بھی بعض لوگوں کو وہ پسند نہیں تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں آپکو کنٹرول نہیں کرسکتا تو پھر میں چاہوں گا کہ آپ کا وجود ہی نہ رہے۔ کل مسئلہ یہی ہے۔ ہماری آن ائیر سپیس میں نوٹنکیوں کی جگہ ہے جو سرکس لگا کر بیٹھتے ہیں جنہوں نے روزانہ مداریوں کی طرح بندر آگے بیٹھایا ہوتا ہے اور ڈگڈگی بجا کر وہ تماشہ لگاتے ہیں سولنگی صاحب جسے بھونپو کہتے ہیں۔ لیکن جو اصل صحافت ہے اسکی کوئی جگہ نہیں۔
طاہر عمران میاں نے کہا کہ ابھی صحافتی تنظیم آر ایس ایف نے کہا کہ عاصمہ شیرازی کی وجہ سے آج ٹی وی پر دباو پر ہے۔ عاصمہ کا لکھنا اور بولنا وزیر اعظم، انکے مشیروں کو نہیں پسند کچھ اور لوگوں کو بھی یہ پسند نہیں ہے۔ انہوں نے آج ٹی وی کے مالکان کے بارے میں کہا کہ وہ وضع دار لوگ ہیں جو دباو کو برداشت کرتے ہیں اور اسے آگے نہیں ڈالتے۔ لیکن صورتحال یہاں آرہی ہے کہ پھر ایک ایسی سٹریمنگ سروس بن جائے گی جو اپنی مرضی کی بات کر رہے تھے۔انہوں نے 27 فروری 2019 کے حملے پر بی بی سی کی رپورٹنگ اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسی مناسبت سے بیانیئے کی قلابازیوں کا بھی ذکر کیا اور سوال کیا کہ اس وقت بی بی سی اور اصل صحافت کرنے والے نہ ہوتے تو کیا ریاست کی بات سمجھی جانی تھی؟ کیا کسی عالمی ادارے نے صابر شاکر کی بات پر یقین کرنا تھا۔
انہوں نے سیربین کے اختتام کو بہت بڑا نقصان قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ شاید یہ وقت کی بات ہے اور ٹی وی اب ختم ہوچکا ہے۔ پاکستانی ٹی وی اپنی موت مرچکا ہے۔ پوری دنیا میں ہی ایسا ہوچکا ہے۔ کون ہے جو ٹی وی آن کرکے ریمورٹ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتا ہے
۔ انہوں نے کہا کہ سو میرے نزدیک سیربین کو پرائم ٹائم پر لائیں اور یہ ایک بہترین شو ہے جسے ڈیجٹل پراڈکٹ کے طور پر پیش کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا اگلے پانچ سالوں میں ٹی وی جا چکا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک مریم اورنگ زیب نے کہا تھا کہ اگر حکومتی اشتہار ختم ہوجائیں تو میڈیا چینل دھڑام سے گر جائیں اور اس حکومت نے یہی کیا۔ اگر یہ حکومت رہی تو ٹی وی میڈیا کا زوال بہت تیزی سے ہوگا۔
بشکریہ نیا دور
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ