پانچ وفاقی وزراء کی مشترکہ پریس کانفرنس کا عمومی تاثر یہی ہے کہ بات اختیار کی حد کی سے آگے نکل گئی ہے۔البتہ یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ سیاست میں مذہبی جذبات کو بھڑکانا کسی بھی طور درست نہیں
لیکن یہی نکتہ تحریک انصاف کو2017ء اوربع ازاں2018ء کے عام انتخابات میں بھی مد نظر رکھنا چاہیئے تھا
اب اس کے مخالفین خصوصاً مولانا فضل الرحمن وہی ہتھیار ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں
ہماری دانست میں مذہبی جذبات کو کل بھڑکانا درست تھا نہ آج درست ہے۔
ہماری بد قسمتی یہی ہے۔بھٹو کے خلاف قومی اتحاد نے جو تحریک چلائی تھی وہ انتخابی دھاندلی کی شکایات پر تھی پی این اے نے33نکاتی چارٹرآف ڈیمانڈ میں سیاسی اصلاحات اور کچھ دستوری مطالبات کیئے تھے لیکن جونہی تحریک چلی جے یو آئی کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی نے اسے تحریک نظام مصطفیٰۖ کا نام دے دیا۔
تازہ تازہ مڈل کلاس میں شامل ہوئے طبقات اور کاروباری حلقے بھرتی جوق درجوق جنت کمانے کے لئے اس تحریک میں شامل ہوگئے۔
پی این اے چونکہ یو ڈی ایف کا نیا نام تھا اس لئے ہمارے وہ ترقی پسند دوست جو یو ڈی ایف کے سیاسی اتحاد سے ہوتے ہوئے پی این اے تک پہنچے تھے وہ بھی نظام مصطفیٰۖ کے لئے پرجوش دکھائی دیئے۔
اس تحریک میں مذہبی شیرینی شامل کرنے سے فائدہ یہ ہوا کہ چاروں مسلم مسالک کے دینی مراکز اور مساجد تحریک کے دفاتر میں تبدیل ہوگئے۔
تحریک چلی اور پھر جنرل ضیاء نے ایک دن بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔نظام مصطفیٰۖ تو نافذ نہ ہوا مارشل لاء آگیا۔ماضی کا یہ حوالہ اس لئے بھی ضروری سمجھا کہ سیاسی عمل کے فریقوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیئے کہ مذہبی جذبات بھٹرکانے کا نتیجہ11سالہ فوجی آمریت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
ہم اور آپ پانچ وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس میں کی گئی بہت ساری باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں البتہ ایک بات درست ہے وہ یہ کہ سیاست میں مذہبی ایشوز کو ہتھیار بنانے سے اجتناب لازم ہے
حیران کن بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے تاسیسی اجلاس میں میزبان پیپلزپارٹی نے دوٹوک انداز میں واضح کردیا تھا کہ یہ سیاسی اتحاد ہے مذہبی ایشوز پر نہیں۔
قبل ازیں ایک اے پی سی کے اعلامیہ میں بھی پیپلزپارٹی نے دو مذہبی مطالبات شامل کرنے کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
سو اب یہ سوال پیپلزپارٹی سے پوچھا جانا چاہیئے کہ پی ڈی ایم کی تین مذہبی جماعتیں جے یو آئی،جے یو پی اور جمیعت اہلحدیث سیاسی جلسوں میں مذہبی نعروں اور حساس مذہبی ایشوز پر سخت موقف اپنا کر کیا تاثر دینا چاہتی ہیں؟۔
نون لیگ کا خمیردائیں بازو کی قدامت پسند سیاست یا سادہ لفظوں میں یہ کہ اینٹی بھٹو سیاست سے اٹھنا تھا گو آج میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی سنٹرل لبرل فہم کا مظاہرہ کررہے ہیں پھر بھی نون لیگ پر واجب ہے کہ وہ اتحادی مذہبی جماعتوں کو اس امر پر آمادہ کرے پی ڈی ایم کے جلسوں میں مذہبی کارڈز کھیلنے سے اجتناب کیاجائے۔
بہر طور چونکہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے تاسیسی اجلاس کی میزبان جماعت تھی اس لئے اس کی قیادت کو اپنی پوزیشن واضح کرناہوگی۔
مولانا فضل الرحمن اور دوسرے مذہبی رہنما بعض حساس مذہبی ایشوز کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ان کا مئوقف ہے کہ حکومت ختم نبوتۖ کے قوانین میں ترمیم کرنے پر صلاح مشورے کر رہی ہے یا یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہے۔
دستیاب معلومات کی روشنی میں یہ دونوں باتیں سیاست کا بازار گرم کرنے کے لئے ہیں حقیقت سے ان کا دور دورتک کوئی تعلق نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نون لیگ کے ساتھ بعض سیاسی اور مذہبی قوتوں نے مذہبی ایشوز پر سیاست کر کے جو کیا وہ غلط تھا سو آج بھی اگر کوئی موجودہ حکومت سے اپنے سیاسی اختلافات کا”ساڑ”مذہبی جذبات بھڑکاکر نکالنے پرآمادہ ہے تو یہ بھی غلط ہوگا۔
حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی اور نصف درجن کے قریب سکینڈل پی ڈی ایم کی سیاست کا رزق ہی نہیں بلکہ ایندھن بھی بن سکتے ہیں۔
یہی حقیقت کے قریب بات بھی ہے اس طور عوام کے مذہبی جذبات کوبھڑکانے سے سیاسی عمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ثانیاً یہ کہ پی ڈی ایم کو اس امر کا بھی نوٹس لینا ہوگا کہ اتحاد میں شامل مذہبی جماعتوں کے کارکنان سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر حکومت کے خلاف اپنی مہم میں تین الزامات لگا رہے ہیں اولاً قادیانی نوازی کا ثانیاً ختم نبوتؐ کے قوانین میں امریکہ کے کہنے پر ردوبدل اور ثالثاً عمران خان کے ننھیالی پس منظر کے حوالے سے
یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تینوں الزامات محض نفرت اور عدم برداشت سے عبارت ہیں۔
ساعت بھر کے لئے رک کر اس امر پر غور کیجئے کہ اس جھوٹے پروپیگنڈے سے عدم برداشت میں اضافہ ہوگا اور خاکم بدہن اس کی وجہ سے کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟۔
مکرر عرض ہے سیاسی عمل میں مذہی ایشوز کو رزق بنانے کے ہم ماضی میں بھاری نقصان اٹھا چکے۔جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دور اقتدار تحریک نظام مصطفیٰؐ کی عمارت پر ہی قائم ہوا۔
انہوں نے اسلامی نظام کی بات کی لیکن پھر ایسے تمام اقدامات کیئے جن سے مسلم سماجی وحدت کو نقصان پہنچا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ پھر کسی ضیاء الحق کی آمد کا خطرہ ہے البتہ یہ ضرور عرض کریں گے کہ مذہب کو سیاست اور نظام ہر دو سے الگ ہی رہنے دیا جائے تو بہتر رہے گا۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناپر پی ڈی ایم کی قیادت سے بار دیگر یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ موجودہ حکومت سے سیاسی اور پالیسیوں کے حوالے سے اختلافات کو میدان سیاست اور پارلیمان میں طے کیجئے ایسی کسی بات سے گریز کیا جانا چاہیئے جس سے معاشرے میں مزید تقسیم پیدا ہو اور مذہبی جذبات بھڑکیں
حرف آخر یہ ہے کہ پانچ وفاقی وزراء نے اپوزیشن کے خلاف تو زمین وآسمان یکجا کر دیئے کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ اپنے دور میں سامنے آنے والے سکینڈلز کے حوالے سے بھی بتا دیتے کہ کھربوں روپے لوٹنے والوں کے خلاف ان کی حکومت نے کیا کارروائی اور یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ احتساب کا عمل بلاامتیاز آگے نہیں بڑھ پایا اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو انتقام کے لئے اقتدار سونپا گیا ہے؟۔
Daily Swail-Native News Narrative
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر