نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

براڈ شیٹ جھوٹ اور لالچ ۔۔۔نصرت جاوید

لاہور کی گلیوں میں اس حوالے سے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے فیملی کے لئے تیارہوئے اخبار میں دہرایا نہیں جاسکتا۔ جو محاورہ ہے اس کے دو کردار ہیں-لالچی اور جھوٹا-اور دعویٰ ہے کہ لالچی ہمیشہ جھوٹے کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتاہے ۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور کی گلیوں میں اس حوالے سے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے فیملی کے لئے تیارہوئے اخبار میں دہرایا نہیں جاسکتا۔ جو محاورہ ہے اس کے دو کردار ہیں-لالچی اور جھوٹا-اور دعویٰ ہے کہ لالچی ہمیشہ جھوٹے کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتاہے ۔

ان دنوں ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں جس غیرملکی کمپنی کے چرچے ہیں اس کا سربراہ یا CEOایرانی نژادہے ۔ ایران سے ہم نے محبوب کو محبوب پکارنے کے بجائے ’’گل‘‘کہنا سیکھا ہے ۔ سچ کو برملا بیان نہ کیا جاسکے تو ’’استعاروں‘‘ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ظالم وجابر شہنشاہوں کے ہوتے ہوئے استعارے محکوموںکی زبان بن گئے۔ دورِحاضر میں بھی کسی ایرانی کی گفتگو سنتے ہوئے لہٰذاانتہائی چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ وہ سادہ زبان میں اپنامدعابیان کرنے کا جبلی طورپر عادی نہیں ہوتا۔ تاریخی تناظر میں اس رویے کی وجوہات سے بخوبی آگاہ ہوں۔استعاروں میں ہوئی گفتگو کو بلاتعصب سراہتا ہوں۔

بہرحال براڈ شیٹ نامی جوکمپنی ہے وہ بذات خود ’’آف شور‘‘رجسٹرڈ ہوئی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے ’’چور اورلٹیرے‘‘اپنی حکومتوں سے جورقوم چھپا کر غیرملکی بینکوں میں Parkیا جمع کراتے ہیں وہ اس کا سراغ لگا سکتی ہے۔ ’’حرام کی کمائی‘‘سے لندن جیسے شہروں میں خریدی جائیدادوںکی نشان دہی بھی کرسکتی ہے۔

اکتوبر1999ء میں نوازحکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد جنرل مشرف نے وطن عزیز میں ’’صاف ستھری جمہوریت‘‘متعارف کروانے کا وعدہ کیا تھا ۔ اس ضمن میں ایک سات نکاتی ایجنڈا تیارہوا۔ کرپشن کا خاتمہ مذکورہ ایجنڈے کا آئٹم نمبر ون تھا۔ اس کی تکمیل کیلئے قومی احتساب بیوروکا ادارہ تشکیل دیاگیا۔ نیب کے نام سے مشہور ہوئے اس ادارے کے سربراہ جنرل امجد تعینات ہوئے۔ وہ بہت ہی اصول پسند اور سخت گیر شمار ہوتے تھے ۔جنرل صاحب نے اپنی معاونت کیلئے فوج سے ریٹائر ہوئے دو افراد کو اپنا طاقت ور ترین مصاحب بنالیا۔ اتفاق یہ ہوا کہ ان میں سے ایک میرے بہت ہی بے تکلف دوست تھے۔قلمی ناموں سے انگریزی زبان میں جارحانہ کالم لکھتے ہوئے بد عنوانی کی کہانیاں بیان کرتے ۔ شاعرانہ طبیعت کے حامل ہوتے ہوئے بھی لیکن ان کی شدید خواہش رہی کہ بدعنوانوں کو بازار میں لگے کھمبوں پراُلٹا لٹکا کر ’’عبرت کا نشان‘‘بنایاجائے۔ ان کے ایک ’’نرم گو‘‘ساتھی بھی ایسی ہی سوچ کے حامل تھے۔ وہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل تعینات ہوئے ۔

چند ہی لوگوں کویاد رہاہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے الزام میں فوجی افسران کے ایک گروہ کیخلاف اٹک قلعہ میں مقدمہ چلایاگیا تھا۔فوجی عدالت کے سربراہ جنرل ضیاء الحق تھے۔ انہوں نے مذکورہ گروہ کو قابل تعزیرٹھہراکر سخت سزائیں سنائیں۔ نیب کے جن افسران کا ذکرہواہے وہ بھی اس گروہ میں شامل تھے۔

ملک میں ’’انقلاب‘‘برپا کرنے کی لہٰذاان دونوں افرادمیں خواہش بہت دیرینہ تھی۔ جنرل امجد صاحب نے انہیں احتساب کا فریضہ سونپا تو گویا ایک خواب کی تعبیرممکن ہوتی نظر آئی۔ ’’بد عنوان افراد‘‘کی ایک فہرست پہلے سے تیارہوچکی تھی۔ ان میں سے چند کو احتساب بیورو قائم ہوتے ہی گرفتار کرلیاگیا۔گرفتاری کے دوران انہیں وہ حقوق بھی میسر نہیں تھے جو جنیوا کنونشن جنگی قیدیوں کو فراہم کرتا تھا۔ حقوق سے محروم کئے’’بدعنوانوں ‘‘کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے قانون یہ بھی تیار ہواکہ جس شخص پر نیب بدعنوانی کا الزام لگائے اس کا ’’ثبوت‘‘فراہم کرنا گرفتار کرنے والے کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ ملزم ہی کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی۔ عدل و انصاف کے تاریخی اور عالمی معیار کوحقارت سے نظر انداز کرتایہ قانون بھی ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘بازیاب کرنے میں بالآخر ناکام رہا۔لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جنرل امجد صاحب کے نیب سنبھالتے ہی جن مشہور سیاست دانوں کی پہلی کھیپ گرفتارہوئی تھی بعد ازاں جنرل مشرف کی سرپرستی میں’’بحال‘‘ ہوئی ’’جمہوری حکومت‘‘میں اعلی عہدوں پر فائز رہی۔

اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے یادرکھنا ہوگا کہ بدعنوانوں کو عبرت کا نشان بنانے کی تڑپ ایک حوالے سے ’’انقلابیوں‘‘کا ’’لالچ‘‘ہے۔وہ بے چین وبے تاب رہتے ہیں کہ کوئی ’’جیمزبانڈ ‘‘بد عنوان پاکستانیوں کی غیرممالک میں چھپائی رقوم اور وہاں خریدی جائیدادوں کا سراغ لگائے۔بے قرارتلاش کے اس لمحے میں براڈ شیٹ نامی کمپنی 2000ء کا آغاز ہوتے ہی نمودار ہوئی۔ ’’لالچی‘‘کو اس نے سنہرے خواب دکھائے۔نیب سے اس کمپنی نے پاکستانیوں کی غیرملکوں میں چھپائی رقوم اور سراغ لگانے کا تحریری معاہدہ کرلیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد مگرحکومت پاکستان کو احساس ہوا کہ ’’مزا نہیں آیا‘‘۔مذکورہ کمپنی سے معاہدہ منسوخ کردیاگیا۔کمپنی اس فیصلے کے خلاف عدالت میں چلی گئی ۔ آج سے چند روز قبل اس نے بالآخر’’تاوان‘‘کی صورت ہم سے 28ملین ڈالر کی خطیررقم بھی وصول کرلی۔سکہ رائج الوقت کے مطابق یہ غالباً 700کروڑ پاکستانی روپے کے برابر ہیں۔میرے اور آپ کے دیئے ٹیکسوں سے یہ رقم ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا…‘‘کی مانند ہے۔

وطن عزیز میں اگر ریاستی اداروں سے حساب طلب کرنے کی حقیقی خواہش واقعتا موجود ہوتی تو ہمارا میڈیاا اور اراکین پارلیمان یکسو ہوکر دہائی مچاناشروع کرتے۔ مطالبہ ہوتا کہ وہ کون تھا جس کے ’’انقلابی لالچ‘‘کے باعث حکومت پاکستان میرے اور آپ کے دیئے ٹیکسوں سے ایک دونمبر دِکھتی غیرملکی کمپنی کو700کروڑ روپے کی خطیررقم دینے کو مجبورہوئی۔

ہم سے بھاری بھرکم رقم اینٹھ لینے کے بعد مگر اس کمپنی کا سربراہ لندن سے ایک پاکستانی کے چلائے یوٹیوب چینل پر نمودار ہوگیا۔ انتہائی فراخ دلی سے وصول کردہ رقم لوٹانے کو وہ آمادہ نظر آیا۔یہ ’’آمادگی‘‘یقینا بے سبب نہیں تھی۔اپنے انٹرویو کے دوران وہ اشاروںکنایوں میں اصرار کرتا رہاکہ بد عنوان پاکستانیوں کی جانب سے چھپائے ’’اربوں روپے‘‘اب بھی اس کے علم میں ہیں ۔خواہش بڑی واضح تھی کہ اس کی ’’سراغ رساں‘‘صلاحیتوں سے ایک بارپھر رجوع کیاجائے۔ عمران صاحب کی نیک نیت کو اس شخص نے قصیدہ خوانوں کی طرح سراہا۔اسے بخوبی علم تھا کہ ہمارے وزیراعظم ان دنوں نوازشریف کی سزایافتہ ہونے کے باوجود لندن موجودگی کی بابت بہت رنجیدہ ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں واضح طور پر گول مول انداز میں غیبت بھری کہانیاں سناتے ہوئے اس نے درحقیقت عمران خان صاحب کا دل موہ لینے کی مزیدکوشش کی۔

نوازشریف کے بارے میں استعاروں میں جو داستان موصوف نے بیان کی عمران حکومت کے ترجمانوں نے ہمارے’’آزاد‘‘میڈیا کو اسے بلند آہنگ انداز میں دہرانے کو قائل کیا۔بدھ کی صبح اُٹھا تو وہ ٹویٹ بھی دیکھ لئے جن کے ذریعے وزیراعظم صاحب نے ’’براڈ شیٹ ‘‘نامی کمپنی کے ’’انکشافات‘‘کا خیرمقدم کیا ہے۔میرادل یہ ٹویٹ پڑھتے ہی  گھبراگیا۔ دل سے فوراً دُعا نکلی کہ مذکورہ کمپنی کو ایک بار پھر پاکستانیوں کی’’حرام کمائی‘‘سے غیرملکوں میں چھپائی دولت اور جائیدادوں کا’’سراغ‘‘لگانے کیلئے Hireنہ کرلیاجائے۔ عمران خان صاحب تک میری رسائی کی کوئی صورت نہیں ۔سچی بات ہے میرے دل میں بھی اس حوالے سے خواہش ہرگز موجود نہیں۔ ملاقات ہوجاتی تو فقط عرض کرتا کہ’’طوطیا من موتیا‘‘ واضح طور پر دونمبر دِکھتی کمپنی کے سربراہ کی چکنی چپڑی باتوں کو نظر انداز کریں۔بد عنوانوں کو عبرت کانشان بنانے کی خواہش میرے دل میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔لالچی اور جھوٹے کے رشتے کو بیان کرتا پنجابی محاورہ تاہم یاد رکھنا ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author