وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھاآآآ۔۔۔ تو یہ بات تھی۔ بائیس کروڑ جہلا دو روز تک اسی مغالطے میں رہے کہ وزیرِاعظم نے اپنے خطاب میں منجمد سردی کے چھ روز سات راتوں میں دس لاشوں کو لے کر دھرنا دینے والے ضدی مجمے کو دراصل بلیک میلر کہا ہے۔ مگر وزیرِ اعظم نے اپنے بلیک میلنگ فیم بیان کے دو روز بعد کوئٹہ پہنچ کر وضاحت کر دی کہ انھوں نے سوگواروں کو نہیں دراصل پی ڈی ایم کو بلیک میلر کہا تھا۔
وزیرِ اعظم نے یہ وضاحت پورے چھتیس گھنٹے سینے میں رکھی۔ یہ راز اپنے کسی وزیرِ مشیر معتمد پر بھی نہیں کھولا کہ بدتمیز ٹی وی چینلز کو سمجھائیں کہ بلیک میلر سے ان کی مراد دراصل حزبِ اختلاف سے تھی ہزارہ دھرنا نشینوں سے نہیں۔
اس وضاحت کی روشنی میں اب ہم سب کا قومی فریضہ ہے کہ ان کے آٹھ جنوری کے بیان کو اس طرح پڑھا، سنا اور دیکھا جائے:
’ان کی ( پی ڈی ایم ) ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ جب پرائم منسٹر آئے گا تو ہم لاشوں کو دفنائیں گے۔ میں نے ان کو میسیج پہنچایا ہے کہ دیکھیں جب آپ کی سب ڈیمانڈز بھی مان لی ہیں تو یہ ڈیمانڈ کرنا کہ ہم دفنائیں گے نہیں جب تک پرائم منسٹر نہ آئے۔ کسی بھی ملک کے پرائم منسٹر کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے کیونکہ یہ جو ملک کا پرائم منسٹر ہوتا ہے پھر ہر کوئی بلیک میل کرے گا۔‘
’سب سے پہلے تو یہ ڈاکوؤں کا ٹولہ( پی ڈی ایم ) ہے کہ جی ہمارے سارے کرپشن کے کسیز معاف کرو نہیں تو ہم گورنمنٹ گرا دیں گے۔ یہ بھی تو بلیک میلنگ چل رہی ہے ڈھائی سال سے اور آج میں اس پلیٹ فارم سے کہہ رہا ہوں کہ اگر آج آپ ( پی ڈی ایم ) دفناتے ہیں تو آج ہی میں کوئٹہ چلا جاتا ہوں لواحقین کو ملنے۔‘
حکومت کے تمام اطلاعاتی و غیر اطلاعاتی ترجمان، وزیر مشیر پورے چھ دن وزیرِاعظم کے کوئٹہ نہ جانے کا سبب ممکنہ سکیورٹی خطرات بتاتے رہے مگر وزیرِ اعظم کو شائد ان میں سے کسی نے بھی ان سکیورٹی خطرات سے آگاہ نہ کیا ورنہ وزیرِاعظم اپنے بلیک میلنگ فیم خطاب میں کاہے کو یہ وعدہ کرتے کہ ’اگر آپ آج دفناتے ہیں تو آج ہی میں کوئٹہ جاؤں گا لواحقین سے ملنے کے لئے۔‘
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وزیرِ اعظم کوئٹہ گئے۔ سکیورٹی اتنی مثالی تھی کہ کسی نجی چینل اور صحافی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا گیا۔ منتخب ہزارہ متاثرین کو سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی میں وزیرِ اعظم سے ملوایا گیا تاکہ وزیرِ اعظم ان سے تعزیت کر سکیں۔
سرکاری تصاویر جاری ہوئیں۔ سرکاری ٹی وی نے اس تعزیتی ملاقات کی ریکارڈنگ تب چلائی جب وزیرِاعظم کوئٹہ سے روانہ ہو گئے اور پھر یہی ویڈیو نجی ٹی وی چینلز نے آپس میں بانٹ لی۔
حالانکہ وزیرِ اعظم چاہتے تو اسی مثالی سکیورٹی کے جلو میں قبرستان سوگواروں سے خالی کروا کے فاتحہ پڑھنے بھی جا سکتے تھے۔ ان کی اس بے خوفی اور مرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کی تصویر ان کے پرستاروں کے لیے ایک دفاعی ڈھال بھی بن سکتی تھی مگر بادشاہ تو بادشاہ ہے۔
’میں نے اس سے یہ کہا،
یہ جو دس کروڑ (اب بائیس کروڑ) ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں۔
بے شعور لوگ ہیں،
زندگی کا روگ ہیں۔
اور تیرے پاس ہے ان کے درد کی دوا۔
تو خدا کا نور ہے،
عقل ہے شعور ہے۔
قوم تیرے ساتھ ہے،
تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے۔
تو ہے مہرِ صبحِ نو،
تیرے بعد رات ہے۔
بولتے جو چند ہیں،
سب یہ شرپسند ہیں،
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا۔
جن کو تھا زباں پے ناز،
چپ ہیں وہ زباں دراز۔
چین ہے سماج میں،
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں۔
اپنے خرچ پر ہیں قید لوگ تیرے راج میں۔
آدمی ہے وہ بڑا،
در پے جو رہے پڑا۔
جو پناہ مانگ لے،
اس کی بخش دے خطا۔
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر،
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے۔
جاگتی ہے افسری
قوم محوِ خواب ہے۔
یہ تیرا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں،
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا۔
دس کروڑ یہ گدھے
کیا بنیں گے حکمراں؟
تو یقیں ہے یہ گماں
اپنی تو دعا ہے یہ،
صدر تُو رہے سدا۔
میں نے اس سے یہ کہا۔‘
گو یہ نظم حبیب جالب نے 55 برس قبل کہی تھی۔ کم بخت پرانی اور باسی ہو کے ہی نہیں دے رہی۔
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر