نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چلی کے کان کن اور ہمارے مقامی چاہ کن۔۔۔ وجاہت مسعود

اسکول کی سطح پر اساتذہ کی کمزور ذہنی استعداد، تعلیمی سہولتوں کے فقدان اور نصاب میں من گھڑت بیانات کی مجرمانہ تلقین نے ایسا نسخہ تیار کیا ہے کہ دس بارہ برس کی یہ تعلیمی مشق بے معنی ہے۔دسمبر 1976کی ایک سرد رات ذوالفقار علی بھٹو نے مری میں اعلیٰ عسکری قیادت سے ایک تاریخی ملاقات کی۔ اُن کے دائیں ہاتھ جنرل ضیاء الحق اور بائیں ہاتھ میجر جنرل اختر عبدالرحمٰن بیٹھے تھے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قریب چالیس برس اپنے ملک کی تاریخ اور سیاست کی خاک چھاننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری قوم کی بیشتر مشکلات کی وجہ ہماری اجتماعی سیاسی ناخواندگی ہے۔ تدریسی اعتبار سے ناخواندہ غریبوں پر الزام دھرنا قطعاً ناواجب ہے۔ اس ملک کے دس کروڑ شہری دانستہ ان پڑھ رکھے گئے ہیں۔ رسمی تعلیم سے یہ محرومی ان کی مستقل غربت، محکومی اور لاچارگی کو یقینی بناتی ہے۔ کل 27فیصد آبادی میٹرک پاس ہے۔

اسکول کی سطح پر اساتذہ کی کمزور ذہنی استعداد، تعلیمی سہولتوں کے فقدان اور نصاب میں من گھڑت بیانات کی مجرمانہ تلقین نے ایسا نسخہ تیار کیا ہے کہ دس بارہ برس کی یہ تعلیمی مشق بے معنی ہے۔

اسکول میں نیم خواندہ اساتذہ کے ہاتھوں جسمانی تشدد، ناپختہ تمدنی خیالات اور ناتراشیدہ شخصی رویوں کی ترشول پر مصلوب طالب علم میٹرک پاس بھی کر لے تو اس کے لئے روزگار کا کوئی امکان ہے اور نہ معاشرے میں مفید کردار ادا کرنے کا موقع۔ پندرہ کروڑ مطلق ناخواندہ اور نیم خواندہ افراد کا یہ لشکر ٹیلی وژن پر ہر شام دھاڑتے تجزیہ کاروں کے رحم و کرم پر ہے۔ طرہ یہ کہ حقیقی بحران تو کالج سے شروع ہوتا ہے۔

18سے 24 برس تک کی دو کروڑ آبادی میں سے کالج تک رسائی پانے والوں کی کل تعداد تیس لاکھ ہے گویا متعلقہ عمر کے بمشکل 15فیصد بچے کالج کی تعلیم پا رہے ہیں۔ اور تعلیم بھی ایسی کہ سماجی علوم میں تنقیدی درک پیدا ہوتا ہے اور نہ سائنسی فکر مرتب ہوتی ہے۔

میرے مشاہدے میں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اساتذہ کی اکثریت کا معیار ایسا ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں، ہم اپنی اعلیٰ درس گاہوں میں قوم کا قبرستان تیار کر رہے ہیں۔ یہ کیسی تعلیم ہے جو ہمیں بیرونی دنیا میں اپنے ہم عصر طالب علموں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بناتی۔ جس بچے میں ذہانت کی کرن پھوٹتی ہے، وہ لشٹم پشٹم یہ ملک چھوڑ جاتا ہے۔ اس لئے کہ ملک کا معاشی، انتظامی اور سیاسی نظام اعلیٰ ذہانت کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ یہاں سے سیاسی نوعیت کی بحث شروع ہوتی ہے۔

مغرب اور مشرق کی ان گنت اقوام عشروں پہلے سو فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کر چکیں۔ آپ نے اپنے ملک میں تعلیم بالغاں کا لفظ آخری بار کب سنا تھا؟ گزشتہ چالیس برس میں ملکی آبادی آٹھ کروڑ سے 23 کروڑ کو جا پہنچی۔ آپ نے اپنے ارد گرد کتنے نئے سرکاری پرائمری اسکول تعمیر ہوتے دیکھے؟

نجی اسکول بیوپار ہیں اور دستورکی شق 25 الف میں دی گئی ضمانت کے مکلف نہیں ہو سکتے۔ خواندگی نہیں تو معیاری تعلیم کا سوال کیسے اٹھایا جائے؟ 1972 سے تعلیمی بجٹ بتدریج کم ہوا ہے۔ 2009 ء میں اعلان ہوا کہ 2015ء تک تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے 7 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ یہ شرح آج بھی 2.3 فیصد ہے۔

کسی سیاسی جماعت یا نام نہاد مقتدرہ کی ترجیح تعلیم نہیں۔ اس لئے کہ تعلیم بنیادی طور پر سیاسی سوال ہے۔ تعلیم قومی ترجیح بن جائے تو اقتدار کا موجودہ ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ اس ڈھانچے کے چار ستون ہیں۔ (1 ) بارسوخ خانوادے جن کی سیاست محض اپنے مقامی مفادات کا تحفظ ہے۔ یہ کسی اصولی یا دستوری سیاست سے تعلق نہیں رکھتے۔

ذات پات، قبیلے، عقیدے اور تھانے کی بنیاد پر انتخابی سیاست کرتے ہیں اور غیرجمہوری قوتوں کے آزمودہ ساتھی ہیں۔ ( 2 ) نچلی سطح پر مجرمانہ پس منظر رکھنے والے عناصر جو اپنے دھندے کے لئے انتظامیہ اور ریاستی اداروں کے دست نگر ہیں۔ ( 3 ) ریاستی اور آئینی اداروں کا نادیدہ گٹھ جوڑ جس میں بڑے کاروباری حلقے، مذہبی عناصر اور قلم فروش میڈیا مستقل حلیف ہیں۔ ( 4 ) قومی یا علاقائی سطح کی سیاسی جماعتیں اقتدار کے لئے دیگر تین دھڑوں کی محتاج ہیں۔

اس بساط پر سیاسی شعور رکھنے والا کارکن یا رہنما کمزور ترین بلکہ ناپسندیدہ کڑی ہے۔ اجتماعی ذمہ داری کے احساس سے مملو سیاسی شعور ہی جمہوری استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے اور معیاری تعلیم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ ہماری سیاسی ناخواندگی ہی کا کرشمہ ہے کہ ہم پالیسی کی بجائے نعرے، اعداد و شمار کی بجائے وعدے اور دلیل کی بجائے گالی کو سیاسی عمل سمجھتے ہیں اور پھر دھوکا دہی کا ماتم کرتے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والا ایک غیر منتخب مشیر ہزارہ غم زدگان سے پوچھتا ہے کہ وزیر اعظم کے آنے سے آپ کو کیا ملے گا؟ وزیر اعظم کی اپنے شہریوں کے دکھ میں شرکت اس عمرانی معاہدے کی توثیق ہوتی جس کی روشنی میں شہریوں نے ریاست کو اپنے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہے۔

5 اگست 2010 ء کو چلی کے ایک دور افتادہ علاقے Copiapóمیں تانبے کی کان میں 33کان کن سطح زمین سے 700 میٹر نیچے اور کان کے دہانے سے 5 میل اندر دب گئے۔ علاقہ ایسا کڈھب تھا کہ بازیابی بہت مشکل تھی۔ لیکن فوری طور پر تین اطراف سے سرنگیں کھودی جانے لگیں۔

چلی کا ارب پتی وزیراعظم سباسٹیئن پنیرا خود موقع پر موجود تھا۔ 70دن کی مشقت کے بعد 50میل لمبی سرنگ کھود کر خصوصی ٹیوب کے ذریعے سب کان کن زندہ سلامت نکال لئے گئے۔ ہر کان کن کو سطح زمین تک لانے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد ٹیلی ویژن پر یہ کرشمہ دیکھ رہے تھے۔

شفٹ کا لیڈر سب سے آخر میں باہر آیا اور اپنے وزیر اعظم سے ہاتھ ملا کرکہا، میں اپنی امانت میں دئیے گئے سب کان کن بچا لایا ہوں۔ جذباتی وزیراعظم نے جواب دیا، ’آج سے ہمارا ملک چلی تبدیل ہو گیا ہے‘۔ چلی میں کان کنوں کو حادثہ پیش آیا تھا۔ مچھ میں کان کن قتل کئے گئے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ساری توجہ لواحقین کے دھرنے پر ہے، کسی نے وقوعے کی تحقیقات، قاتلوں کی نشاندہی یا گرفتاری کا سوال نہیں اٹھایا۔ وزیر اعظم کے کوئٹہ نہ جانے کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ وزیراعظم قوم کے خلاف ریاست کا جرم جانتے ہیں۔ یہ کان کن اور چاہ کن کا فرق ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

About The Author