نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مخالفت یا نفرت۔۔۔سہیل وڑائچ

جمہوری سیاست کا اصول ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں اختلاف رائے تو رکھیں گی مگر مذہبی فرقوں، انتہاء پسندوں، فاشسٹوں اور متشدد گروہوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کریں گی۔

سہیل وڑائچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جمہوری سیاست کا اصول ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں اختلاف رائے تو رکھیں گی مگر مذہبی فرقوں، انتہاء پسندوں، فاشسٹوں اور متشدد گروہوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کریں گی۔

امریکہ میں صدر ٹرمپ کے حامی جس حد تک چلے گئے ہیں وہ سیاسی اختلاف نہیں بلکہ نفرت پر مبنی راستہ ہے یہی وجہ ہے کہ کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی کو امریکہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا گیا۔ طے شدہ اصولوں کے مطابق لیڈر دبائو سے نہیں بلکہ دلیل سے لوگوں کو قائل کرتا ہے۔ وہ خوف و تحریص نہیں بلکہ اپنے بیانیے سے دلوں کو مسخر کرتا ہے۔

آمریت، فاشزم اور زور زبردستی کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا مطلب زندگی یا موت ہوتا ہے جبکہ جمہوریت ایک شائستہ کھیل ہے جس میں فتح اور شکست کھیل کا حصہ ہے۔

فاتح کھلاڑی، ہارے ہوئے کو ساتھ لے کر چلتا ہے‘ اس کی عزت کرتا ہے اور ہارا ہوا کھلاڑی جیتنے والے کو آگے بڑھ کر خود مبارکباد دیتا اور اس کے گلے میں ہار پہناتا ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور دوسرے جمہوری ممالک میں صدیوں سے یہی ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ماضی کی روایات سے یکسرانحراف کرتے ہوئے الیکشن میں ہار کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔

مخالفت کو نفرت میں بدل دیا ہے۔ انتقالِ اقتدار کے سنجیدہ عمل کو ہلڑ بازی میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان سارے واقعات میں ہمارے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

پاکستان میں جمہوریت اگر معمول کے مطابق چلے تو سیاسی جماعتوں کے اختلاف کا اظہار اسمبلی کے فلور پر ہوتا ہے۔ معاشی پالیسی اور خارجہ پالیسی پر مباحث ہوتے ہیں اور ایوان کے اندر دلائل سے ایک دوسرے کی گوشمالی کی جاتی ہے تاہم جب اسمبلیوں میں ڈائیلاگ ناکام ہو جائے، مخالفت، مفاہمت میں نہ بدلے ایوان اور اسمبلی کی ورکنگ کام نہ کرے تو پھر معاملات اسمبلی کے فلور تک محدود نہیں رہتے بلکہ اختلاف، نفرت کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور معاملات سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں طے ہوتے ہیں۔

اِسے خان صاحب کی خوش قسمتی سمجھیں یا پی ڈی ایم کی بدقسمتی کہ اپوزیشن کی تحریک اسمبلی سے نکل کر گلیوں، بازاروں اور میدانوں میں تو آ گئی مگر اس کا رنگ اسمبلی کے فلور والا ہی رہا۔

عمران خان کے خلاف مہم میں مخالفت موجود تھی مگرنفرت موجود نہیں تھی۔ بدقسمتی سے احتجاجی تحریک تبھی چلتی ہے جب اس میں نفرت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہو۔

قومی اتحاد نے بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی تو اس میں نفرت اور غصہ تھا۔ اسے خان صاحب کی خوش قسمتی پر ہی محمول کرنا چاہئے کہ پی ڈی ایم خان صاحب کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے میں ناکام رہی۔

بھٹو کے خلاف تحریک کو مذہبی رنگ دیا گیا۔ یوں بھٹو کو سرعام کوہالہ کے پل پر پھانسی چڑھانے کے سرعام دعوے کر کے ان کے خلاف نفرت کو بڑھایا گیا۔ نواز شریف کے خلاف تحریک انصاف کی مہم میں پہلے تو بار بار نواز شریف کو کرپٹ کہا گیا، جھوٹے سچے اعدادوشمار کو پیش کر کے کہا گیا کہ نواز شریف عوام کا پیسہ لوٹ کر کھا گیا۔

سیاسی معاشی الزامات کے بعد آخر میں مذہبی الزامات لگا کر اس نفرت کو اور بھی بڑھاوا دیا گیا۔ حکومتوں کے خلاف تحریک چلانی ہو تو صرف مخالفت کی بناء پر ایسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔

بھٹو اور نواز شریف دونوں کے خلاف سیاسی اور مذہبی کارڈ استعمال کر کے انہیں نفرت کا ہدف بنایا گیا‘ جذبات کو اس حد تک بھڑکایا گیا کہ تحریک انصاف کے کچھ جذباتی حامی لندن میں نواز شریف کے گھر پارک لین پر حملہ آور ہو گئے۔ اس سے پہلے عمران خان کے دھرنے کے خاتمے پر پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملے کے واقعات بھی رونما ہو چکے تھے۔

یہ بالکل اسی طرح کی نفرت تھی جو اب ٹرمپ کے حامیوں کی پُر تشدد کارروائیوں میں نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف اب تک جتنی بھی تحریک چلی ہے اس میں وہ نفرت نظر نہیں آئی۔ نہ ہی کرپشن کا کوئی بڑا سکینڈل طشت ازبام ہو سکا اور نہ عمران خان کے خلاف ذاتی طور پر کوئی ٹارگٹڈ مہم شروع ہو سکی۔

جمہوریت کو اگر شائستہ کھیل کی طرح کھیلا جائے تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنا اختلاف رائے پارلیمان کے اندر رکھنا چاہئے۔ اگر اختلاف رائے سڑکوں اور بازاروں میں آ جائے اور پھر اسے نفرت کا تڑکا بھی لگ جائے تو تشدد کی لہر ابھرنا شروع ہو جاتی ہے۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی احتجاجی تحریک میں نفرت در آئے وہاں تشدد کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔چاہے وہ 1977ء کی قومی اتحاد کی تحریک ہو، تحریک انصاف کا پی ٹی وی پر حملہ ہو یا گزشتہ روز صدر ٹرمپ کے حامیوں کا کیپٹل ہل پر گھیرائو جلائو ہو۔

پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا‘ انہیں اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی رہی نہ وہ حکومت کو گرا سکے، نہ اجتماعی استعفے دے سکے اور نہ سینیٹ کا الیکشن رکوا سکے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پی ڈی ایم کی تحریک مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ خوفناک اورخطرناک ہو۔

قومی اتحاد کی تحریک بھی پہلے مرحلے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی کئی مرحلوں کے بعد اسے کامیابی ملی تھی، عمران خان بھی 126دن کے دھرنے کے باوجود حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے بلکہ مایوس و نامراد ہو کر گھر لوٹے تھے۔ مگر وہ پھر سے اٹھتے اور نیا مرحلہ شروع کرتے رہے، پی ڈی ایم بھی ظاہر ہے ایسا ہی کرے گی۔

وزیراعظم کی پانچ سالہ مدت میں سے آدھی مکمل ہونے کو ہے‘ ان کا اڑھائی سالہ دورِ عروج گزر گیا اب اڑھائی سالہ دورِ زوال آ رہا ہے، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپوزیشن کو پارلیمان کے اندر کی سیاست میں لائیں، ان سے مذاکرات کا ایسا دور شروع کریں جس سے ضروری قانون سازی ممکن ہو سکے۔

دوسری طرف پی ڈی ایم بھی اپنی حکمت عملی از سر نو ترتیب دے اگر وہ واقعی حکومت کو گرانے میں سنجیدہ ہے تو عمران خان کے خلاف ایک چارج شیٹ سامنے لائے اور ساتھ ہی ایک چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کرے، اسے چاہئے کہ حکومت سے اسے جو بھی شکایات ہیں اور جو بھی اس کے مطالبات ہیں ان کو تحریری طور پر سامنے لائے تاکہ اس کے اوپر سے یہ داغ تو ختم ہو کہ یہ صرف این آر او لینے کی تحریک چلا رہے ہیں۔

ریاست پاکستان کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ مفاہمت کی راہ ڈھونڈی جائے، گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی داغ بیل ڈالی جائے۔ حکومت تحریک کے دبائو میں بے دخل نہ ہو بلکہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز مل کر اگلے الیکشن کا طریق کار طے کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

شک اور سازش۔۔۔سہیل وڑائچ

عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ

فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ

تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ

About The Author