عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مکالمہ آپ نے بہت سنا ہو گا کہ اب ہمارے یہاں بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے، نہ منٹو سے افسانہ نگار، نہ فیض سے شاعر، نہ چغتائی سے مصور، نہ روشن آرا بیگم جیسی گائیکائیں؛ اب وہ بات نہیں، وہ چیز نہیں۔
اس شکوے کے پیچھے چھپے الم سے ہم نگاہیں چرا کر ماضی کو پوجتے رہتے ہیں، حال کو کوستے رہتے ہیں اور مستقبل سے نالاں رہتے ہیں۔
ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ بڑے لوگ کیوں تھے، ان کے فنون کو عروج کیوں ملا، ان کی پذیرائی کیوں ہوئی، ان کو شہرت ِدوام کیوں نصیب ہوئی۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح ہر دور کے اپنے ہیرو اور ولن ہوتے ہیں اسی طرح ہر دور کی شناخت اس کے آرٹسٹ ہوتے ہیں۔
فن کار معاشرے سے جنم لیتا ہے، معاشرے کو جنم نہیں دیتا۔ جن فن کاروں کا میں نے اول الذکر کیا یہ اس وجہ سے معروف اور محترم تھے کہ ان کے زمانے میں ان کے فن کو پرکھنے والے لوگ موجود تھے، ان کو داد دینے والے دل زندہ تھے، لوگ ان کے فن کے لیے ذوق رکھتے تھے اور ان فن کاروں کا احترام کرتے تھے۔
اب ایسا نہیں ہے۔ اس کے کم از کم تین معنی ضرور ہیں: ایک تو یہ کہ اب بھی ہمارے ہاں اس پائے کے فن کار موجود ہوں گے جو اپنے اپنے فن کے میدان میں جادوگر کہلا سکتے ہیں مگر اب ہم ان کو پرکھنا نہیں جانتے، اب ہم ان کے فن کو عزت نہیں دیتے، ہم میں ایسے فنون کو داد دینے کی صلاحیت مفقود ہو گئی ہے۔
وہ دور قریب آ رہا ہے
جب داد ہنر نہ مل سکے گی
-اطہر نفیس
ہم اس دور کے بڑے لوگوں کو اتنے چھوٹے طریقے سے ڈیل کرتے ہیں کہ یہ بڑے ہو ہی نہیں پاتے۔ ہم ان کا تمسخر اڑاتے ہیں، ان کی تضحیک کرتے ہیں، ان کی توہین کر کے خود کو تسکین دیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک میں، کسی دور میں کوئی بڑا شاعر پیدا ہی نہ ہو۔ شاعر معاشرے پر اترتا ضرور ہے لیکن بعض بد قمست معاشرے ان کی پرکھ سے محروم ہوتے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دور میں اچھے گلوکار نہ ہوں، اچھا گلا خدا کی نعمت ہے، خوش گلو لوگ ہر قوم میں پائے جاتے ہیں لیکن اگر آپ ان کے ہنر پر ’میراثی‘ کی جگت لگائیں گے تو یہ نوخیز پودے خود بخود مر جائیں گے، انہیں پنپنے کے لیے جو پذیرائی کی آکسیجن میسر نہیں ہو گی تو یہ جڑ نہیں پکڑ سکیں گے، خود ہی تلخی ایام سے مٹ جائیں گے۔
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زمانے کے ساتھ فنون اپنا رخ بدلتے ہیں، اپنی ہیت تبدیل کرتے ہیں۔ جیسے پینٹنگ کے ساتھ ساتھ گرافک ڈیزائننگ کی شکل ہمارے سامنے آ گئی ہے، یہ نہیں کہ گرافک ڈیزائننگ کسی طرح پینٹگ کے ہم پلہ ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم گرافک ڈایزائننگ کو فن ماننے سے بھاگتے ہیں، جس کی وجہ سے نئی نسل کے سارے گرافک ڈیزائنرز کی ان جانے میں حق تلفی ہوتی ہے۔
اسی طرح جو فن کار پہلے نظم لکھتا تھا اب شاید یوٹیوب پر گانے گاتا ہو، اس کی اس نئی جہت کو سمجھنے میں ہمیں دقت ہوتی ہے اور ہم اس کے فن کا خراج نہیں ادا کر سکتے۔ جو پہلے کہانیاں لکھا کرتے تھے شاید اس دور میں انسٹاگرام پر کچھ کمال کا کام کر رہے ہوں مگر ہم اپنے زمانے کے آئیڈیل ذہن میں رکھے انہیں اس دور کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ناتمام کوشش سے خود بھی مایوس ہوتے ہیں، دوسروں کو بھی مایوس کرتے ہیں۔ یہی معاملہ تمام نئے فنون کی نئی جہتوں کا ہے۔ ہم اس نسل کے مقابل نہیں آ پاتے اور ان کے مستقبل سے بہت جلد مایوس ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں معاش کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا کے اکثر بڑے فن کاروں نے مفلوک الحالی میں آنکھ کھولی اور افلاس میں ہی اپنے فن کو عروج دیا۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا میں جب یہ فن کار عروج پا لیتے ہیں تو زمانہ ان کے معاش کی فکر کرتا ہے، ان کو معاشی آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ادب اور کلاسیکی موسیقی میں معاملہ الگ ہے۔
ہمارے کتنے ہی ادیب معروف ہوئے مگر غربت سے دامن نہیں چھڑا سکے، کتنے کلاسیکل گلوکار کسمپرسی میں مر گئے۔ ہم نے ان کی یاد میں جشن تو ضرور منائے مگر ان کی زندگی میں انہیں خوشحال کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کی۔
کلاسیکل فنون کی پذیرائی ہمیشہ حکومت ِوقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پہلے زمانے میں بادشاہ کے دربار میں فن کار خلعتِ فاخرہ پاتے تھے وہ اس لیے کہ کلاسیکل فن کار عامی نہیں ہوتے، وہ اپنا ایک خاص حلقہ ذوق رکھتے ہیں، ان کے چاہنے والے دانش مند انٹلیکچول کہلاتے ہیں، وہی ان کی پذیرائی کر سکتے ہیں، حکومتیں ان کی دیکھ ریکھ پر مامور ہوتی ہیں، ان کے اسلوب اور معاش کی نگہبانی کرتی ہیں، ان کے فن کی حفاظت کرتی ہیں۔
ایک نکتہ اس معاملے میں یہ بھی ہے کہ فن کا معیار اگر تنزلی کا شکار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ فن کار اچھا فن پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وجہ یہ ہے کہ وہ ایک تنزل شدہ معاشرے کے عکاس بن جاتے ہیں، اس گرواٹ کی ترجمانی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستانی فلمیں ایک زمانے میں بہت معروف ہوتی تھیں، ہر معیار پر پورا اترتی تھیں، ستر کی دہائی میں پاکستان کی فلم ’آئینہ‘ سب سے زیادہ ہفتے سکرین پر رہنے والی فلم تھی۔
اس کے بعد دور تبدیل ہوا، مولا جٹ جیسی وحشی فلم نے ’آئینہ‘ کا ریکارڈ توڑا اور اس پر طرہ یہ کہ مولا جٹ کا ریکارڈ ’شیر خان‘ جیسی فلم نے توڑا جس کے شروع سے آخر تک قتل، لڑائی، مارکٹائی اور خون کے سوا کچھ نہیں تھا۔
اس مثال سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اس زمانے کے بعد ہمارے معاشرے میں کیا کیا قبیح تبدیلیاں آئیں، جن کے اثر سے فلمساز اور فلم بین دونوں متاثر ہوئے ہیں۔
اب اگر آپ کو ہماری موسیقی میں ہنگام، شاعری میں بے وزنی، کہانی میں صرف علامت اور مصوری میں کچے رنگ نظر آتے ہیں تو خدارا ان فن کاروں کو دوش نہ دیجیے۔
اس بات کو سمجھیے کہ یہ فن کار اس زمانے کے عکاس ہیں جس میں ہنگام ہے، خوف ہے، ناانصافی ہے، بے ترتیبی ہے، ظلم ہے، دہشت ہے، بربریت ہے، بے توقیری ہے، نرم جذبوں کا فقدان ہے، محبت کرنا کمزوری ہے، دھوکہ دینا ہوشیاری ہے۔ ایسے میں فن کے اعلیٰ نمونے کہیں کسی کے دل میں ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر