دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاکر شجاع آبادی کی سالگرہ۔۔۔ظہور دھریجہ

انہوں نے کہا کہ ادب و ثقافت کی ترقی کیلئے کام ہونا چاہئے ۔حکومتوں کی اس طرف توجہ کم ہے ۔ سرائیکی وسیب کے شاعروں ، ادیبوں کو بہت شکایات ہیں ، اس کا ازالہ بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے سرائیکی لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاکر شجاع آ بادی کی سالگرہ بارے بات کرنے سے پہلے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور آیا ہوا ہوں ۔ لاہور میں بارش ہو رہی ہے اور موسم خوش گوار ہے مگر بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ سے دل اُداس ہے ۔ جس طرح ہزارہ برداری کے غریب مزدوروں کو اغواء کے بعد قتل کیا گیا اس طرح کے واقعات سرائیکی مزدوروں کے ساتھ بھی بلوچستان میں پیش آئے ، لواحقین کو انصاف اور دہشت گردوں سزا نہ ملنے کے باعث دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہو رہے ،
سانحہ مچھ کے لواحقین نے میت دفنانے سے انکار کیا ہے اورمیتیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں ۔ حکومت بلوچستان اور وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کی بات مظاہرین نے نہیں مانی وہ شدید سردی کے باوجود چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ دھرنا دئیے ہوئے ہیں ۔ اُن مظاہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے علاوہ ہم کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں ۔ وزیراعظم کو فوری طور پر بلوچستان پہنچ کر غمزدہ افراد کے آنسو پونچھنے چاہئیں اور دہشت گردوں کو گرفتار کر کے عبرت ناک سزا کی یقین دہانی کرانی چاہئے۔
آج صبح ڈی جی پلاک محترمہ صغریٰ صدف کے ہاں بیٹھا تھا کہ اُن کے موبائل پر ملک کے معروف کالم نگار رئو ف طاہر کی وفات کی خبر آئی بہت افسوس اور صدمہ ہوا ہے اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے ۔ اپنے آفس روزنامہ 92حاضری ہوئی ، گروپ ایڈیٹر جناب ارشاد احمد عارف کے ہاں ملک معروف کالم نگارہارون لر رشید سے ملاقات ہوئی ، اُن کو پڑھتے تھے، سننے کا موقع پہلی مرتبہ ملا اُن کا تعلق ہمارے رحیم یار خان سے ہے گفتگو کے دوران اُن کی اس بات نے متاثر کیا کہ حکومت لوگوں کو ملتان بہاولپور کے مخصمے میں ڈالنے کے بجائے صوبے کا فیصلہ کرے۔
31دسمبر معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کی سالگرہ کا دن ہے ، شاکر شجاع آبادی ان دنوں سخت علیل ہیں ، ان کے ایک عقیدت مند رانا محمد شمع جن کے گھر کی زبان پنجابی ہے ، نے پچھلے دنوں اپنی رہائش گاہ واقع شجاع آباد میں سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔
شاکر شجاع آبادی کی کچھ عرصہ پہلے آواز معمولی سمجھ آتی تھی مگر اب سامعین کو ابلاغ نہیں ہوتا ، اس کے باوجود وہ بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے صاحبزادے نوید شاکر شجاع آبادی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔
شاکر شجاع آبادی کی تقریب کے موقع پر ٹیلیفون کے ذریعے سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر انور نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی طرف سے سالگرہ کی مبارکباد دی اور کہا کہ وزیراعلیٰ نے جناب شاکر شجاع آبادی کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے اور شاکر شجاع آبادی کے بیٹے کی ملازمت کے ساتھ ساتھ ان کے علاج کیلئے بھی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ شاکر شجاع آبادی پاکستان کا اثاثہ ہیں ، حکومت اس سے غافل نہیں ، راجہ جہانگیر انور نے یہ بھی کہا کہ کورونا پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی ہدایت پر پورے صوبے میں ادبی و ثقافتی تقریبات شروع ہو جائیں گی اور ہم سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے بھرپور اقدامات کریں گے ۔
شاکر شجاع آبادی نے اپنی سالگرہ کے موقع پر کہا کہ صحت ہزار نعمت ہے ، اگر صحت ٹھیک نہ ہو اور دل خوش نہ ہو تو آپ کو چمن بھی ویرانہ لگتا ہے اور اگر صحت ٹھیک ہو ، خوشی ہو تو آپ کو ویرانہ بھی چمن نظر ااتا ہے اور صحرا میں بھی پھول نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عجب موقع ہے کہ میری سالگرہ ہے اور سرائیکی فوک سنگر ثوبیہ ملک میرے لئے سالگرہ کے گیت لے کر آئی ہیں ، الفاظ کے مالا کی صورت میں گجرے سجا کر آئے ہیں مگر شاکر شجاع آبادی نے اپنا درد بھرا قطعہ سنایا ،
اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے درد مجھے سوغات کی شکل میں ملے اور دوستوں میں اکیلا ہوں ، بڑھاپا تو بڑھاپا رہا جوانی بھی بڑھاپے کی طرح گزر گئی : حیاتی ڈتے درد ڈیپے دے وانگوں تے سنگت وی گزری کلہیپے دے وانگوں بڈھیپا تاں آخر بڈھیپا ہے شاکر جوانی وی گزری بڈھیپے دے وانگوں اپنا کلام سنانے کے ساتھ ساتھ شاکر شجاع آبادی نے گفتگو بھی کی۔شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ میں بہت علیل ہوں دوستوں کی محبت ہے کہ انہوں نے میری سالگرہ پر تقریب کا اہتمام کیا ، میری خواہش ہے کہ سرائیکی صوبے کا خواب میری آنکھوں کے سامنے شرمندہ تعبیر ہو کہ یہ آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کیلئے ضروری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ادب و ثقافت کی ترقی کیلئے کام ہونا چاہئے ۔حکومتوں کی اس طرف توجہ کم ہے ۔ سرائیکی وسیب کے شاعروں ، ادیبوں کو بہت شکایات ہیں ، اس کا ازالہ بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے سرائیکی لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔
شاکر شجاع آبادی نے اس موقع پر یہ بھی شکوہ کیا کہ جو حال وسیب کا ہے ‘ وہی میرا ہے ، شہباز شریف دور میں میرے ساتھ بھی بہت وعدے ہوئے کہ بیرون ملک علاج کرایا جائے گا ، تمہارے بچوں کو سرکاری ملازمت ملے گی اور گھر کے اخراجات کیلئے ہر ماہ وظیفہ ملتا رہے گا ۔ نہ بیرون ملک علاج ہوا اور نہ بچوں کو ملازمت ملی ، البتہ حکومت پنجاب کی طرف سے چند ماہ تک 25 ہزار روپے ماہانہ چیک آتا رہا ،
عرصہ ہوا وہ بھی بند ہے ۔ کہنے کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا تعلق وسیب سے ہے اور پچھلے دنوں وزیراعلیٰ کے نمائندے بھی آئے اور مجھ سے میری کیفیت کے بارے میں پوچھتے رہے میں نے ان کو اپنی کیفیت اپنے اشعار کی صورت میں بتائی ، شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ میرے یہ اشعار میری ذاتی کیفیت کے ساتھ ساتھ میرے وسیب کے حالات کے بھی ترجمان ہیں : بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندن کوئی خوشی ٹھکرا پتہ لگ ویندے

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

About The Author