سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نونی:شیر۔ شیر۔ نہیں چھوڑیں گے، ہٹا کے دم لیں گے، یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے چاہے یہ سب کو گرفتار کر لے۔ ہمارے مصالحتی لیڈر شہباز شریف اور خواجہ آصف اندر چلے گئے ہیں، چاہے باقی بھی گرفتار ہو جائیں مگر انصافیوں کی حکومت ختم کر کے رہیں گے۔
پیپلا:جیے بھٹو، جیے بےنظیر، سیاست تحمل کا نام ہے، قربانیوں اور شہادتیں دینے کا نام ہے۔ تبدیلی فوراً نہیں آتی، بڑی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تم اور ہم ایک کشتی میں ضرور ہیں مگر ہمارا تجربہ اور ہے، تمہارا تجربہ اور ہے۔ ہم نے کئی آمروں کو نکالا ہے، آپ نے لمبی مزاحمت کا تجربہ نہیں کیا۔
نونی:ایسی بات نہیں، ہم نے تحریکِ نجات چلائی، مشرف کے خلاف مزاحمت کی اور اب بھی مسلسل گرفتاریاں دے رہے ہیں۔ اب قربانیوں میں ہم پیپلز پارٹی سے پیچھے نہیں۔ ہم مصلحت سے کام نہیں لیتے۔ نواز شریف سرعام سلیکٹرز کے نام لیتا ہے۔ مریم نواز سب کو للکارتی ہے۔ بلاول مصلحت سے بات کرتا ہے، آپ استعفے ہوں یا لانگ مارچ۔۔۔ اُن کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں۔ ہماری لیڈر شپ تیار ہے جبکہ آپ تذبذب کا شکار ہیں۔
پیپلا:جسے آپ مصلحت اور تحفظات کہہ رہے ہیں، یہ سیاسی دانش ہے۔ یہی وہ تجربہ ہے جو ہم نے مزاحمت کی سیاست سے سیکھا ہے، اگر قربانیوں کی بات ہے تو پیپلز پارٹی پھانسیاں اور شہادتیں دینے میں سب سے آگے ہے۔ جیلیں اور کوڑے کھانے میں بھی پیپلز پارٹی کے کارکن سب سے آگے ہیں۔ بات فراست اور عقل کی ہے کہ کیا استعفے دے کر اسمبلیوں کا میدان حکومت کیلئے خالی کر دیا جائے؟ اسی طرح دھرنا دینا بھی جمہوری آداب کے خلاف ہے۔ لانگ مارچ تک ٹھیک ہے، دھرنا دے کر حکومت گرائی تو پھر ہم اور سلیکٹڈ میں کیا فرق رہ جائے گا۔
نونی:آر ہو یا پار، سیاست اِسی کو کہتے ہیں۔ ٹک ٹک کی سیاست سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، پورا زور لگانا چاہئے، استعفے منہ پر مارنے چاہئیں اور جا کر اسلام آباد بیٹھ جانا چاہئے، اِسی سے آر یا پار ہو گا۔
پیپلا:یاد رکھیں، بھٹو جیسے پاپولر لیڈر کو دو سال جیل میں رکھ کر پھانسی چڑھا دیا گیا۔ عوام ہاتھ ملتے رہ گئے لیکن کچھ کر نہ سکے۔ آصف زرداری دس بارہ سال جیل میں رہے، چھوٹی چھوٹی عدالتوں میں مقدمے لڑ کر اُس نے رہائی اور بریت حاصل کی۔ اِس سارے عمل سے سبق سیکھنا چاہئے، ہم نے سبق سیکھا ہے۔
نونی:مصلحت کی سیاست نے ہی آپ کو پنجاب سے آئوٹ کر دیا ہے۔ عوام ایسے لیڈر کو پسند کرتے ہیں جو واضح فیصلے کرے، دلیر ہو، بہادر ہو۔ مریم نواز دلیری اور بہادری سے بات کر رہی ہے، اِسی لئے وہ کرشماتی لیڈر بن گئی ہیں۔
پیپلا:پنجاب میں ہمارا ووٹ بینک ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی وجہ سے ختم ہوا، ہم نے تمہاری حکومت بچاتے بچاتے اپنا سیاسی نقصان کر لیا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے جمہوری اقدار کا ساتھ دیا اور جمہوریت بچائی۔ یاد کرو، اگر تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران پیپلز پارٹی، نواز شریف حکومت کا ساتھ نہ دیتی تو کیا آپ کی حکومت قائم رہ سکتی تھی؟
نونی:ہم نے بھی زرداری صاحب کے 5سال پورے کروائے تھے۔ اگر پنجاب حکومت ساتھ نہ دیتی تو وہ چل نہیں سکتے تھے۔ ہم نے بھی آپ کی سپورٹ کی جواباً آپ نے بھی کر دی۔
پیپلا:آپ شاید میمو گیٹ بھول گئے ہیں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ اُس وقت تک وہ اسٹیبلشمنٹ اور افتخار چوہدری کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کیخلاف آمادۂ جنگ ہو گئے تھے۔ آپ نونی ہمیشہ جذباتی ہو کر فیصلے کرتے ہیں۔
نونی:ہم نے اِس ملک کو بدلا ہے، موٹر ویز اور میٹروز بنائی ہیں، ہم نے اِس ملک پر دور رس اثرات چھوڑے ہیں۔ میمو گیٹ ہماری غلطی تھی مگر ہمیں گرانے میں آپ نے بھی تو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا تھا، آپ بھی کئی بار ہمارے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔
پیپلا:یاد کرو یہ اُس وقت ہوا جب نواز شریف نے زرداری سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی اور جنرل راحیل شریف کو سنٹرل ایشیا میں فون کر دیا تھا۔ ہمیں سب یاد ہے ذرا ذرا۔ اب اِن غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔
نونی:یہ تو مانیں کہ زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ زرداری صاحب نے دانستہ یا نادانستہ پی ڈی ایم کو نقصان پہنچایاہے۔ پیپلز پارٹی کے فیصلوں نے تحریک کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔
پیپلا:جذباتی فیصلوں کو عقل کا رنگ دینے میں کوئی برائی نہیں۔ زرداری صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ عقل کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں سلیکٹڈ کو دودھ سے مکھی کی طرح نکالو۔ خود استعفے دے کر سسٹم سے مت نکلو، اُسے سسٹم سے نکالو۔
نونی:ہمیں سمجھ نہیں آ رہی یہ آپ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ ایک طرف پی ڈی ایم کا فیصلہ ہے کہ استعفے دینے ہیں، دوسری طرف آپ لوگ ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، یہ کیا عجیب تضاد ہے؟
پیپلا:ہم 1985ءکے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے سسٹم سے نکلنے کا مزہ چکھ چکے ہیں، ہمیں اِس سے بڑا سیاسی نقصان ہوا، ہم دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرانا چاہتے۔
نونی:ہر دفعہ نتائج ایک سے نہیں نکلتے۔ اِس بار استعفے دینے سے سسٹم کی عمارت دھڑام سے نیچے گر جانی تھی۔ 1985میں مارشل لا تھا اب کوئی مارشل لاتھوڑا نافذ ہے۔ ویسے اقتدار سے اتنی محبت اچھی نہیں، کیا سندھ حکومت قربان کرنے سے ڈر لگتا ہے؟
پیپلا:حالات مارشل لا والے ہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ ہمیں سب کچھ گنوانے کی بجائے اُن کے اتحاد کو توڑنا چاہئے، سلیکٹڈ اور سلیکٹرز اگر متحد رہے تو اپوزیشن کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایسے مزاحمتی راستے کا انتخاب کرنا چاہئے جس سے اِن دونوں کے تضادات کھل کر سامنے آئیں۔
نونی:ہم دبائو ڈالیں گے، اجتماعی استعفے دیں گے تو یہ اتحاد خود بخود ٹوٹ جائے گا، اِس کا حل صرف اور صرف دبائو ہے۔
پیپلا:دبائو کیسے ڈالنا ہے اور کتنا ڈالنا ہے؟ اس کا خیال کرنا چاہئے۔
نونی:مصلحت چھوڑیں، نعرہ مستانہ لگائیں، سلیکٹڈ بھاگ جائے گا۔
پیپلا:عقل سے چلنا ہی بہترین حکمت عملی ہے، عجلت نہ کریں، ہم اپنی حکمت عملی سے اِسے لازماً گرا لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر