محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔یہ کالم آپ سال کے پہلے دن پڑھیں گے۔ بارہ مہینے، باون ہفتے اور تین سو پینسٹھ دن نہایت تیز رفتاری سے گزر جاتے ہیں۔ وقت مٹھی میں قید نہیں رہ سکتا، پھسلتی ریت کی طرح سائیڈ سے نکل جاتا ہے، لیکن کبھی تو اسے چھونے کا موقعہ بھی نہیں مل پاتا۔ رفتار ہی کچھ ایسی تیز رہتی ہے کہ پلک جھپکتے میں رُت بدل گئی۔یہ کیلنڈر کی تبدیلی، نئے سال کی آمد، گزشتہ کی رخصت چند لمحوں کے لئے وقت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر پر نظر ڈالنے کا موقعہ ہی فراہم کر دیتی ہے۔پچھلے سال میں کیا ہوا،نئے میں کیا ہوگا، اس پر سوچنے، سمجھنے کی لمحاتی فرصت بھی غنیمت سمجھنی چاہیے۔
دسمبر کی گلابی شامیں جہاں اپنے اندر بلاخیز حسن سموئے ہیں، اداسی اور حزن کی کیفیت بھی ان کے ساتھ وارد ہوتی ہے۔سال کے آخری دن ویسے بھی اداس کر دیتے ہیں۔آج کل میری اہلیہ اپنے عزیزواقارب سے ملنے بہاولپور گئی ہوئی ہیں،بڑے بچے گھر پر ہیں، مگر چھوٹے عبداللہ کے نہ ہونے سے رونق اور ہنگامہ خیزی نہیں ۔عجیب کہولت سی طاری ہے۔رات کو دفتر سے تھک ہار کر گھرجانا اور اپنے بستر پر ڈھیر ہوجانا۔ارادہ تھا کہ بیوی کی عدم موجودی میں بیچلرز ویک منایا جائے گا۔باہر نکلنے کامن ہی نہیں کیا۔کتابیں البتہ پڑھ رہا ہوں، فلمیں اور نیٹ فلیکس کے سیزن دیکھے جا رہے ہیں۔
ہر سال انہی دنوں میں ایک کالم گزشتہ سال اور دوسرا نیو ائیر ریزولوشن یعنی نئے سال کے بارے میں اپنے آپ سے کئے گئے وعدوں اور کمٹمنٹس پر لکھتا ہوں۔پچھلے دنوں ایک دوست نے فیس بک پر ازراہ تفنن کمنٹ کیا کہ دسمبر کے آخری دن یہی ڈر ہوتا ہے کہ تم نے پھر گزرے سال کے محاسبے پر کالم لکھ مارنا ہے اور اگلے روز ان وعدوں پر لکھو گے ، جن پر کبھی عمل نہیں کر سکے ۔ طنز کاٹ دار تھا، مگر چونکہ بات سچ تھی، اس لئے شرمندگی ہوئی۔ سوچتا رہا کہ کیا یہ سب ایسے فضول اور بے کار ہے؟ ہم ہر سال یہ سب کچھ لکھنے کا کشٹ ایسے ہی اٹھاتے ہیں؟ ایک بے سود، لاحاصل کوشش؟
یا پھر اس کوشش کا کچھ فائدہ بھی ہے؟کالم لکھتے لکھتے فون اٹھا کر نظر ڈالی تو ہمارے پریس کلب کے بہت ریگولر، سینئر ساتھی اور صاحب علم لکھاری ازہر منیر کاٹیکسٹ میسج تھا، انہوں نے اپنا ہی شعربھیجا تھا، عمر ساری گزار کر ازہر / بات اتنی سمجھ میں آئی ہے/ کہ نیا سال جو بھی لاتا ہے/ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا
کچھ دیر تک سوچتا رہا کہ کیا واقعی یہی زندگی کا نچوڑ ہے ، ہر نیا سال اپنے جلو میں کچھ بھی نیا نہیں لاتا؟
وہ پرانا ، روٹین کا ہی سب کچھ دہرایا جاتا ہے، وہی روز وشب، وہی معمولات؟پھر اپنے اندر ہی سے جواب ملا کہ زندگی کو دیکھنے کا یہ ایک خاص زاویہ اور انداز تو ہوسکتا ہے، مگر سچ نہیں۔ انسان ہر لمحہ ، ہر گھڑی بہت کچھ نیا سیکھتا ہے، کوشش کرے تو اپنے اندر بہت تبدیلی لاسکتا ہے اور خوش قسمتی سے ہم جس دور میں زندہ ہیں، اس میں صرف خارجی تبدیلی ہی نہیں، بلکہ داخلی تبدیلی لانا، شخصیت کو گروم کرنا، نئے ذائقے ڈویلپ کرنا بہت آسان بلکہ تقریبا ً مفت ہوچکا ہے۔ جو کتابیں پہلے لوگ برسوں کی تلاش کے بعد بھی نہیں ڈھونڈ پاتے تھے، دوسرے ممالک کا سفر کرنا پڑتا تھا، اب ان میں سے بیشتر نیٹ پر مفت دستیاب ہیں۔ پڑھنے کا ذوق شوق ہونا چاہیے، مواد کی کوئی کمی نہیں۔ ہزاروں کتابیں چند گھنٹوں میں ڈاﺅن لوڈ کی جا سکتی ہیں، بے شمار آن لائن ویب سائٹس، پورٹل ہیں جوہر طرح کا علمی، فکری، ادبی مواد پیش کر دیتے ہیں۔یہی سب کچھ فلموں، ٹی وی ڈراموں، شارٹ موویز اور موسیقی وغیرہ کے حوالے سے ہے۔ یوٹیوب پر اتنا کچھ موجود ہے کہ باقی ماندہ زندگی کا ہر دن استعمال کیا جائے، تب بھی اس مواد کا ایک فی صد بھی نہیں دیکھ، سن سکتے۔اس لئے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نئے سال میں کچھ نیا نہیں ہوتا۔ آپ چاہیں تو ہر نئے سال میں بہت کچھ نیا شامل کر سکتے ہیں۔
اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کبھی ترک نہیں کرنی چاہیے۔ منفی تبصرے اور مایوس مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔ انہیں نظرانداز کر کے مثبت قوت کے ساتھ نئے سال کا آغاز کریں۔ اپنے آپ سے نئے عہد کریں۔کچھ چیزوں کو چھوڑنے، بعض کو زندگی میں شامل کرنے کا ارادہ۔ ممکن ہے سال کے آخر میں میں آپ بہت زیادہ کامیاب نہ ہوں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ ضرور بدل جائے گا۔ جہاں ناکامی ہوئی، اس کی وجوہات ہوں گی، انہیں ڈھونڈ کر ، اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اگلے سال مزید چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں۔ نئے وعدے، نیو ائیر ریزولوشن میرے نزدیک خواب دیکھنے سا کام ہے۔ کون بدبخت ہوگا جو خواب نہ دیکھنا چاہیے؟ کیا ناکامی کے ڈر سے ہم خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں؟ کامیاب ہو پائیں یا نہ ہوں، لیکن آگے کی طرف ہمیں بڑھنا تو چاہیے۔ قدم تو اٹھائیں۔ عین ممکن ہے کہ اس بار ڈیلیور کر جائیں، وہ فاصلہ طے ہوجائے جو کبھی نہیں ہوا۔
صاحبو، ہم نے تو اپنے لئے نیو ائیر ریزولوشن کی لسٹ ترتیب دے لی ہے۔ ان شااللہ نیا سال پچھلے سے بہت بہتر، زیادہ مفید ، دلچسپ اورزندگی سے بھرپور بنائیں گے۔ ویسے گزرا سال بھی میرے حساب سے برا نہیں رہا۔ یہ درست کہ وزن کم کرنے کا ٹارگٹ اس طرح پورا نہیں ہوسکا۔تھوڑی بہت کمی تو آئی ،مگر وہ اتنی نہیں کہ فرق ڈال سکے۔ البتہ میں اپنے کھانے پینے کے معمولات میں بہت بہتری لے آیا۔ میٹھا کھانا بہت کم کر دیا، مفید غذائیں شروع کر دیں۔ جو کا دلیہ، بران یا ملٹی گرین بریڈ معمول بن گئی۔ مجھے یاد نہیں کہ ایک آدھ بار مجبوری کے سوا سال بھر میں کبھی سفید ڈبل روٹی کھائی ہو۔ نان مجھے پسند تھے، اب انہیں تقریبا خیر باد کہہ دیا،گندم اور جو کی مکس روٹی استعمال کی جاتی ہے، ممکن نہ ہو پائے تو دیسی گندم کے سرخ آٹے کی روٹی استعمال کرتے ہیں۔سلاد جسے کبھی زمانہ جہالت میں ہم گھاس پتے کہہ دیتے تھے، اب پیالے بھر بھر کر کھاتے ہیں، زیادہ اچھا، خوشگوار، ہائی جینک محسوس کرتے ہیں۔یہ سال ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے کئی نئی باتیں سکھا گیا۔ یوٹیوب اور بعض دیگر ویب سائٹس پر بہت کچھ نیا دیکھا، سیکھا۔ٹیڈ ایکس لیکچرز سے لے کر یہ سلسلہ ویب انٹرویوز، شوز تک محیط ہے۔ ایک نئی دنیا ہے جس کا علم ہوا۔
فلموں سے پہلے بھی دلچسپی تھی، اپنی دانست میں بہت کچھ دیکھ رکھا تھا، اب اپنی بے خبری اور کم علمی کا اندازہ ہوا۔ ایک نوجوان فیس بک فرینڈ سے سیکھا کہ ڈائریکٹرز کو فالوکریں۔ یہ نکتہ سمجھ میں آگیا۔بعض نامور فلم ڈائریکٹرز کی مشہورفلمیں دیکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ ایسی اچھی فلمیں جن سے ہم تمام زندگی بے خبر بالی وڈ کے کوڑاکرکٹ پر وقت ضائع کرتے رہے۔مخصوص ڈائریکٹرز کی طرح اپنے بعض پسندیدہ اداکاروں کی فلمیں دیکھنا بھی شروع کیں۔ الپچینو کا اتنا بہت سا شاہکار کام ہے جس سے بے خبر تھے، لیونارڈوڈی کیپریو جس سے ہم ٹائی ٹینک کے ذریعے روشناس ہوئے ، اس کی نہایت عمدہ فلموں کی پوری فہرست ہے، ایک پر تو آسکر ایوارڈ مل گیا، تین چار ایسی ہیں جن میں ایوارڈ تو نہ ملا، مگراس کا کام کم اہم نہیں تھا۔ نئے سال کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا ہے۔ ایک طویل فہرست فلموں اور کتابوں کی تیار کی ہے، فارن لینگوئج فلموں کی طرف بھی اسی سال آیا، انکا اپنا ہی لطف اور ذائقہ ہے۔
پریس کلب کے الیکشن والے دن دیرینہ دوست صحافی غلام محی الدین نے بتایا کہ ٹالسٹائی کے مشہور ترین ناول وار اینڈ پیس پر ہالی وڈ کی طرح روسیوں نے بھی چار حصوں پرمحیط ساڑھے سات گھنٹوں کی ایک شاندارفلم سیریز بنا رکھی ہے۔ وار اینڈ پیس ناول جس نے نہیں پڑھا، وہ محروم رہا۔ اس شاہکار ناول کو آج کل تیسری بار پڑھنے کا آغاز کیا ہے۔ جنوری ہی میں ان شااللہ اس ناول پر بنی اسی روسی فلم سیریز دیکھنے کافیصلہ کیا ہے۔ ایک اچھی کتاب آدمی کے ذہنی سفر کو ایک قدم آگے لے جاتی ہے، کوالٹی فلم کا بھی یہی کام ہے۔ سوچنے کا پورا پیٹرن ہی بدل جاتا ہے۔ کبھی توآدمی چند گھنٹوں میں پہلے جیسا نہیں رہتا۔ یہاں کے بھولے بادشاہ یہ سمجھتے ہیں کہ سال میں کچھ نہیں ہوگا۔ یارو ایک سال میں تو آپ کیا سے کیا ہوسکتے ہیں۔ہمت کر کے پہلا قدم تو اٹھائیں۔ پہل کرنے کے لئے سال کے پہلے دن سے بہتر اور کیا ہوگا؟اور کچھ نہیں تو کاغذ قلم اٹھائیں یا کمپیوٹر آن کر کے صرف چند منٹ یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دیں۔، کچھ بہتر کرنے، آگے بڑھنے ،تبدیل کرنے کا سوچیں۔ آغاز ہوجائے تو پھر سفر کی ترتیب بھی بنا لیجئے گا۔ ہمارا کام ختم ہوا، مقصد صرف توجہ دلانا ، ترغیب دینا تھا۔عمل تو آپ ہی نے کرنا ہے،بسم اللہ کیجئے۔
(دو سال پہلے کی تحریر، ایک آدھ سطر ایڈٹ کرنے کے بعد اس نئے سال کے موقعہ پر بھی تروتازہ اور متعلق لگی، اس لئے یہ میموری شیئر کر دی )
یہ بھی پڑھیے:
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر