سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت پنجاب نے ملتان کی صدیوں پرانی مذہبی و ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پس منظر میں شہر کی تاریخی عمارات اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے محکمہ آثار قدیمہ نے کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کمشنر ملتان ڈویژن جاویداختر محمود کا کہنا ہے کہ اولیائے کرام کی دھرتی کو روشنیوں کا شہر بنانے کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ صدیوں پرانی عمارات کا طرز تعمیر سیاحوں کے لئے خصوصی دلچسپی کاباعث ہے۔ تاریخی عمارات اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے محکمہ آثار قدمہ کردار ادا کرے۔ تاریخی مقامات کی بحالی میں عوامی رائے کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے ملتان جیسے قدیم ترین شہر کی مذہبی و ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے فیصلے کو دیرآید درست آید ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایسا شہر جو دنیا بھر کے شہروں میںاپنی ایک جداگانہ شناخت اور انفرادیت رکھتا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے تھی۔
میں ہمیشہ انہی سطور کے ذریعے اپنی تحریروں میں ملتان کی جغرافیائی، ثقافتی اور مذہبی حیثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں اور آج مجھے اس بات پر خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ارباب اختیار کو دیر سے ہی سہی مگر سمجھ تو آئی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس خطے کوجس بیش بہا خزانے سے نوازا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک نجانے کتنی مرتبہ حملہ آوروں نے اس پر اٹیک کیا لیکن ملتان کی مٹی کا خمیر ہی کچھ ایسا ہے کہ بڑے سے بڑا حملہ آور اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔
اگرچہ آج میرے شہر میں جدیدیت کی بھی کچھ مثالیں نظر آتی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اپنی قدامت کے حوالے سے یہ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔
زمانے کی جدت اس کا رنگ ڈھنگ بدلنے میں آج بھی ناکام و نامراد رہی ہے یہاں کی زبان، کلچر اور لوگ آج بھی اس خطے کی اصل اساس اور پہچان ہیں۔ میرے ملتان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ زمین کی گردش کے حوالے سے ماہرین نے ملتان کو پاکستان کا دارالخلافہ بنانے کی تجویز پیش کی کہ یہاں کی زمین میں زلزلوں کے آنے کے امکانات بہت کم ہیں
یہی نہیں بلکہ جغرافیائی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین تو ملتان کو پاکستان کا سنٹر قرار دیتے ہوئے اسے دارالخلافہ بنانے کی اہمیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ تاہم یہ ایک عملی بحث ہے جس پرسب کو اپنی بات کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
تاہم جہاں تک ملتان کی صدیوں پرانی مذہبی اورثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کا تعلق ہے تو کمشنر ملتان کو چاہیے کہ وہ پہلی فرصت میں اس خطے کے زرخیز دماغوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں جو انہیں اس شہر کی اصل تاریخ سے آگاہ کریں۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اس کمیٹی میں سیاستدانوں کو شامل نہ کیا جائے کیونکہ وہ اسے اپنے مفادات کے لئے ہمیشہ کی طرح اب بھی کوششیں کریں گے۔ ملتان جسے ایک دور میں 7 دروازوں کا شہر کہا جاتا تھا اگر اس کے دروازوں کی مرمت اور تعمیروآرائش پر ذرا سی توجہ دی جائے تو اس شہر کو سیاحوں کے لئے پرکشش بنایا جاسکتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اندرون شہر کی صدیوں پرانی عمارات کو بھی محفوظ بناکر انہیں آثار قدیمہ ڈیکلیئر کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہی بہترہو کہ اندرون شہر موجود لوگوں کو ایک مناسب رہائش کے لئے جگہ فراہم کی جائے اور بازاروں کو ایک علیحدہ جگہ پر منتقل کرکے آثار قدیمہ ڈکلیئر کردیاجائے تو اس شہر کو ایک معاشی حب کے طورپر شہرت دلوائی جاسکتی ہے۔
اس ضمن میں اطالوی حکومت کے حوالے سے کوئی پروگرام بھی غالباً جاری ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیاہے کہ ہمارے ہاں شہروں کی بہتری اور بیوٹی فکیشن کے حوالے سے شروع کئے جانے والے پروگراموں کے لئے ملنے والے فنڈز کی ہمیشہ بندربانٹ کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی ان فنڈزکو صحیح طور پر استعمال کیا گیا ہو۔
سرائیکی خطے کا ایک جداگانہ اور منفرد کلچر ہے اگر اس کے کلچر کو صحیح طرح سے پروموٹ کیاجائے تو کوئی شک نہیں کہ یہاں کی تہذیب و ثقافت دنیا کی بڑی بڑی مارکیٹوں کو مسخر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ بلیوپاٹری ہو یا تعمیرات کے ڈیزائن، شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار موجودہیں۔ ارباب اختیار کی ذرا سی توجہ اس شہر کو وطن عزیز کاکمائو پوت بناسکتی ہےمگرایسی سنجیدگی اپنے مفادات کا طواف کرنے والے کدھر سے لائیں؟
اب جبکہ حکومت پنجاب نے اس شہر پر تھوڑی بہت توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو پہلی فرصت میں اس خطے کے دانش وروں جن میں ڈاکٹر نخبہ لنگاہ، رانا محبوب اختر، رفعت عباس، ظہور دھریجہ، حیدر جاوید سید سمیت دیگر پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور ان سے ملتان کی مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے نہ صرف Presentation لی جائیں بلکہ اس حوالے سےتجاویز لے کر ان کی روشنی میں آگے بڑھا جائے۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اگر حکومت اس شہر اور اس خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سنجیدہ ہے تومیں یہی دعویٰ کرسکتی ہوں کہ میرا شہر وطن عزیز کے لئے سونے کی چڑیا ثابت ہوسکتا ہےلیکن اس کے لئے ریسرچ کی ضرورت ہے۔
اپنی تاریخی اور جغرافیائی منفرد شناخت کے حوالے سے میرے شہر کی ہر ہرگلی، ہر ہر کوچہ اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے ضرورت بس اس کو پروموٹ کرنے کی ہے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے ملتان کی صدیوں پرانی مذہبی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنا درحقیقت ہماری قومی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت ہی ہم عسکریت پسندی اور انتہا پسندی جیسی برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔
میرا شہر صوفیاء کا شہر ہے جو تصوف اور بزرگان دین کے حوالے سے مشہور ہے اس لئے اگر بی زیڈ یو میں قائم سرائیکی ایریا ریسرچ سنٹر کے پلیٹ فارم سے انٹرنیشنل یونیورسٹی سے رابطہ کیاجائے تو بڑے نامی گرامی ریسرچرز اوراستاد اس علاقے کو اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سرائیکی ایریا ریسرچ سنٹر کے پلیٹ فارم سے نہ صرف زرعی بلکہ کپڑوں کی امپورٹ ایکسپورٹ بھی بڑھائی جاسکتی ہیں لیکن اس کے لئے ایک جامع روڈ میپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
اگر میں یہاں مذہبی ٹورازم کی بات کروں تو ہندوئوں کے بھگوان پرہلاد کا بھی مندر قلعہ کہنہ قاسم باغ پر موجودہے۔جسے مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے کرتارپور راہداری کی طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مذہبی سیاحت کے فروغ بارے وزیراعظم عمران خان بھی کئی مرتبہ بات کرچکے ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو ملتان کراچی کے مقابلے میں زرمبادلہ کماکر دینے والا شہر بن سکتا ہےلیکن اس کے لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بہتر ہوگا کہ کمشنر ملتان اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے دانشوروں کی وزیراعلیٰ پنجاب سے پہلی فرصت میں ملاقات کا بندوبست کروائیں اور اگر ضروری ہو تو وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کا انتظام کیا جانا چاہیے۔
سرائیکی خطے کے عوام ارباب اختیار سے کوئی بھیک نہیں بلکہ اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جو مغربی جمہوریت کے دلدادہ ہیں، انہیں 7دہائیوں سے مسائل کی شکار عوام کی مجبوریوں اور تکالیف کا ادراک کرتے ہوئے ازالہ کرنا چاہیے۔
سرائیکی خطہ ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اس لئے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ خود اس خطے کے دانشورطبقے کے ساتھ میٹنگ کریں اور اس علاقے کی محرومیوں، شناخت اور مسائل کے حوالے سے Pulse حاصل کریں جس کے بعد امید ہے کہ وہ ایک بہتر فیصلے کرنے میں کافی آسانی محسوس کریں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ