شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جملہ پنجابی+مہاجر انقلابی دانشوروں اور صحافیوں کا دماغی توازن ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتا جائے گا اور زرداری صاحب کے خلاف مغلیظات اور اول فول بکنے میں ایک دوسرے کے مقابلے پر اتر آئیں گے جس کی اس مرد حر نے نہ تو ماضی میں پرواہ کی اور نہ اب کرے گا۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک نواز شریف کی چند ماہ کی جیل تو جمہوریت کی بالادستی کے لئے تھی اور زرداری صاحب کرپشن کی وجہ سے تیرہ چودہ سال جیل میں رہے۔ یہ نام نہاد انقلابی دانشور ہمیشہ پیپلز پارٹی کی مخالفت دشمنی کی حد تک کرتے چلے آ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی سیاست ان کی مرضی کے مطابق کرے اور آخر میں ن لیگ کسی طور برسر اقتدار آ جائے۔
ان کی انقلابی دیانت درانہ دانش کے مطابق سزا یافتہ نواز شریف بغیر کسی ڈیل کے جیل سے رہا ہو کر لندن چلا گیا اور اس کی سزا یافتہ بیٹی بھی بغیر کسی ڈیل کے نہ صرف رہا کی گئی بلکہ اسے پورے ملک سیاسی سرگرمیوں کی اجازت بھی دی گئی اور حکومت کے اس عمل کے پیچھے ان انقلابی دانشوروں کی سوشل میڈیائی پوسٹوں کا خوف کارفرما تھا۔
جمہوریت کی بحالی اور مضبوطی کے لئے پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنوں نے جانیں دی ہیں لیکن ان کی کارکردگی اور قربانی ان سوشل میڈیائی انقلابیوں کے نزدیک ان کی پوسٹوں کے مقابلے میں زیرو ہے۔
اس وقت پاکستان میں جمہوریت کا سگا پیپلز پارٹی سے بڑھ کر کوئی جماعت اور آصف زرداری سے بڑھ کر کوئی فرد نہیں ہے لہذا پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ جمہوریت کی بالادستی اور مضبوطی کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے اور کب کیا قدم اٹھانا ہے۔
بی بی کی شہادت کے بعد نواز شریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا لیکن یہ پیپلز پارٹی جس نے کہا تھا کہ الیکشن وقت پر ہوں گے زرداری فیملی نے اپنے ذاتی دکھ اور پیپلز پارٹی نے اپنی محبوب رہنما کے سوگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف جمہوریت کی بالادستی اور مضبوطی کے لئے الیکشن کو ترجیح دی۔
آج بھی جو جیل میں جانے سے نہیں گھبراتا وہ پاکستان میں بیٹھا ہے اور گھبراتا ہے وہ لندن میں بیٹھا ہے لہذا نام نہاد سوشل میڈیائی انقلابیوں سے گزارش ہے کہ اپنی بکواس بند رکھیں ورنہ مرد حر نے اس کی پرواہ نہ ماضی میں کی نہ اب کرے گا۔
اسے ریاستی جبر ڈرا اور جھکا نہیں سکا تو کنویں کے مینڈکوں کی ٹراں ٹراں اس کا کیا بگاڑ لے گی باقی یہ فیصلہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت نے کرنا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کی مضبوطی اور بالادستی کے لئے کب کونسا سیاسی قدم اٹھانا ہے
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟