عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے بولتی تصویریں آئی ہیں کہانی، کردار اور شخصیات کو پرکھنے کا محدب عدسہ ہر کسی کے ہاتھ آ گیا ہے۔ تین متحرک کردار، تین متحرک سائے اور تین، تیرہ کا جھگڑا۔
بڑے گھر میں تین بڑوں کی ملاقات، بات کیا ہوئی نہیں معلوم، تاہم اس کے بعد کے واقعات، جیل میں اہم ملاقات، ایم کیو ایم کے اظہار اور باپ پارٹی کے اعتراضات، سب حال سُنا رہے ہیں۔
کردار گونگے ہو بھی جائیں تو تصویریں بول دیتی ہیں۔ زمانہ بلا کی نظر رکھتا ہے، چہرے مہرے، چال ڈھال اور رنگت بتا دیتی ہے کہ کہانی کیا ہے۔
تین بمقابلہ تین سنہ 2021 میں داخل ہو گیا ہے۔ گھڑیاں ہندسے بدل رہی ہیں، کیلنڈر سال بدل رہے ہیں، ستارے چال اور حالات حال بدل رہے ہیں۔
بڑے گھر کے زائچے کا حال سیاسی جوتشی لگائیں گے لیکن آصف زرداری نئے طریقوں اور نئے زاویوں سے موجودہ سیاسی پیش گوئی کر بیٹھے ہیں۔
ایک طرف مولانا اور مسلم لیگ (ن) استعفوں کا دباؤ بڑھانے کی جلدی میں ہیں تو دوسری جانب آصف زرداری اپنے روایتی اطمینان کو ہتھیار بنانے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یہ تو ماننا ہی ہو گا کہ پرویز مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی آصف زرداری کا ایک اہم کارنامہ ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ایوان صدر میں براجمان تھے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آ چکی تھیں۔ اسمبلیوں کے منتخب ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔
پھر جیسے تیسے اجلاس طلب کیا گیا، وزیراعظم کا انتخاب ہوا اور پھر صدر مملکت کے انتخاب کی باری تھی۔ اُس وقت بھی جنرل مشرف کے پیچھے ادارہ کھڑا تھا مگر ایوان اقتدار میں صدارتی مواخذے کی بازگشت سُنائی دی جانے لگی، اور یہی وہ دن تھے جب ادارے کی جانب سے دباؤ آیا اور جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے رخصت ہونا پڑا۔
پیپلز پارٹی آج بھی طعنہ زنی کی شکار ہے کہ کیوں جنرل مشرف کو سلامی دے کر رخصت کیا گیا تاہم شاید کہیں یہ یقین دہانی تھی کہ ’عزت سے رخصتی‘ ہو تاکہ بھرم رہ جائے۔
یہ تو ماننا ہی ہو گا کہ پرویز مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی آصف زرداری کا ایک اہم کارنامہ ہے
اب جناب زرداری صاحب حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایک بار پھر سمجھا رہے ہیں کہ عمران خان بڑا مسئلہ نہیں، صرف طریقہ کار بدلنا ہو گا، یعنی جیل بھرو تحریک جس کا عندیہ ایک بار مولانا بھی دے چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی گیم میں ’اِن‘ رہتے ہوئے پانسہ پلٹنا چاہتی ہے، مسلم لیگ (ن) گیم سے آؤٹ ہونا نہیں چاہتی اور مولانا گیم سرے سے کھیلنے کے ہی مخالف ہیں، پھر ایسے میں کھیل کون جیتے گا اور بازی کس ہاتھ آئے گی؟
پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر مکمل طور پر صاف میدان اسٹیبلیشمنٹ اور کپتان کے ہاتھ میں دینے کی مخالف تو ہے ہی تاہم استعفوں کا آخری آپشن کھیل کا پانسہ کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے۔
پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک کو اب اگلے مرحلے میں کیسے داخل ہونا ہے؟ آصف زرداری جیل بھرنے کی حکمت عملی سے تحریک کو اگلے مرحلے میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اُدھر مولانا فضل الرحمن نے چیلنج کر دیا ہے کہ اُن کے خلاف الزامات یا گرفتاری جمیعت پر حملہ تصور ہو گا۔ مولانا غفور حیدری نے اپنے دھرنوں کا رخ جی ایچ کیو کی جانب موڑنے کا کہہ کر واضح پیغام بھی دے دیا ہے اور یوں ہر طرف صرف تصادم ہی تصادم دکھائی دے رہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی عوامی طاقت احتجاجی تحریک کا اہم حصہ ہے۔ لانگ مارچ میں یہ کردار مزید واضح ہو کر سامنے آئے گا مگر اب تک کے تمام جلسوں میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جوشیلی سیاسی شرکت نے آنے والے دنوں میں سرگرم شمولیت کی جھلک ضرور دکھائی ہے۔
اگر لانگ مارچ کا آغاز سندھ سے ہوا تو حکمرانوں کو اندازہ ہو جائے گا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ کے جیالے پنجاب میں کس حجم کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔
جلسے ہوں یا ریلیاں، جیل بھرو تحریک ہو یا لانگ مارچ، اپوزیشن کے ہاتھ ہر ہتھیار طاقتور حلقوں کے لیے اہم چیلنج ہے۔ وزیرِ اعظم کے حالیہ بیانات کہ اپوزیشن فوج کو تختہ الٹنے پر اُکسا رہی ہے، اُس دباؤ کا واضح اشارہ ہے جو حالات کی سنگینی بتا رہے ہیں۔
سال کے آخری لمحات میں گھڑیال کی تینوں سوئیاں ہندسوں کو پیچھے دھکیلنا بھی چاہیں تو بھی ممکن نہیں۔ ایسے میں اختیاراتی مثلث کی ٹکراؤ کی پالیسی نظام کو خطرات سے دو چار کر سکتی ہے۔
خدا کرے کہ سال نو سب کے لیے بہتری کی نوید لائے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر