نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاڑکانہ جلسہ اور آڈیو ٹیپ ۔۔۔نصرت جاوید

یہ جماعت لاہور والے جلسے کی میزبان تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اس میں شریک نہ ہوتے تو اپوزیشن جماعتوں کے نوزائیدہ اتحاد کے بارے میں ’’اُڑنے بھی نہ پائے تھے…‘‘ والا تاثرفروغ پاتا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوڑھی گھوڑی کو لال لگام پہنادو تومضحکہ خیز دِکھنا شروع ہوجاتی ہے۔اسی باعث ’’صحافت‘‘ کی اس روش سے ہر صورت دور رہنے کاارادہ باندھے ہوئے ہوں جو ہمارے دھندے کو ’’جدید تر‘‘ اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق بنانے کی دعوے دار ہے۔فرض یہ بھی کرلیا گیا ہے کہ روایتی صحافت نے رپورٹروں کو سیٹھوں کا ’’غلام‘‘ اور لفافوں کا محتاج بنادیا ہے۔

وہ ’’حقائق‘‘ بیان کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یوٹیوب سے لہٰذا رجو ع کرو۔ وہاں اپنا چینل بنائو اور ’’حق کی آواز‘‘ بن جائو۔ وہ ’’خبر‘‘ جسے روایتی میڈیا منظر عام پر لانے کی جرأت ہی نہیں دِکھاسکتا آپ کی بدولت خلقِ خدا تک پہنچتی رہی تو بالآخر آپ کے چینل کو میسر ہوئے صارف (Subscriber)اور اسے نصیب ہوئی Likesاور Sharesکے طفیل آپ کو ڈالروں میں اتنی رقم ملنا شروع ہوجائے گی جو تنخواہ پر نجات سے آزادی دلوادے گی۔

یوٹیوب چینلوں کے ذریعے ہمارے ہاں ان دنوں عوام کو جو ’’حقائق‘‘ بتائے جارہے ہیں وہ حکمرانوں کے لئے کتنا ’’پریشان کن‘‘ ثابت ہورہے ہیں اس کا اندازہ مجھے ہفتے کی رات سونے سے قبل ہوا۔یوٹیوب پر حاوی ہوئے ’’حق گو‘‘ صحافیوں کی کثیر تعداد نے ایک ’’آڈیو ٹیپ‘‘ دریافت کرلی تھی۔اس کی بدولت کہانی یہ پھلائی گئی کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے وابستہ لاڑکانہ کے مقامی رہ نما پیپلز پارٹی کو چند سرکاری افسروں کے تبادلے کے لئے مجبور کررہے تھے۔

صوبائی حکومت نے پیش وپس سے کام لیا تو بھٹو خاندان کے لئے ’’مقدس‘‘ شمار ہوتی گڑھی خدابخش میں دھرنا دینے کی تڑی لگائی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری کو مذکورہ ’’بلیک میلنگ‘‘ کی اطلاع ملی تو چراغ پا ہوگئے۔ احتجاجاََ PDMکے لاہور والے جلسے میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے چند سرکردہ رہ نمائوں تک یہ اطلاع پہنچی تو پریشان ہوگئے ۔

یہ جماعت لاہور والے جلسے کی میزبان تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اس میں شریک نہ ہوتے تو اپوزیشن جماعتوں کے نوزائیدہ اتحاد کے بارے میں ’’اُڑنے بھی نہ پائے تھے…‘‘ والا تاثرفروغ پاتا۔

پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین کو بہت منت ترلوں کے بعد بالآخر لاہور آنے کو رضا مند کرلیاگیا۔ ان کی آمد کے باوجود اگر عمران حکومت کے ترجمانوں پر اعتبار کیا جائے تو لاہور والا جلسہ بُری طرح ناکام ہوگیا۔ابھی اس ’’ناکامی‘‘ کے زخم بھر نہیں پائے تھے کہ مولانا فضل الرحمن نے جواب آں غزل کے طورپر لاڑکانہ جانے سے انکار کردیا جہاں اتوار کے روزر پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیربھٹو کی برسی والی تقریب کو ’’PDMکا جلسہ‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ایک ’’آڈیو ٹیپ‘‘ نے گویا اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے خاتمے کو یقینی بنادیا ہے۔

مذکورہ آڈیوٹیپ کی دریافت سے قبل تصور یہ کیا جارہا تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے ضمن میں مبینہ طورپر لیت ولعل سے کام لینے والی پیپلز پارٹی PDMکے انتشار کو یقینی بنائے گی۔ وہ ہر صورت سندھ میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کو بے چین ہے۔سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی 52نشستوں میں سے اپنی عددی طاقت کے شاطرانہ استعمال کے ذریعے زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہ رہی ہے۔

PDMمیں شمولیت کی بنیاد پر آصف علی زرداری اپنے خلاف قائم ہوئے مقدمات کے حوالے سے بھی ’’مقتدرحلقوں‘‘ سے ریلیف کے خواہاں ہیں۔ ’’سجی‘‘ دکھاکر ’’کھبی‘‘ سے رعایتیں وصول کررہے ہیں۔PDMکی دیگر جماعتیں مگر اب ان کی چالاکی سے نالاں ہوئی نظر آرہی ہیں۔آڈیو ٹیپ کی ’’دریافت‘‘ کے بعد PDMکے ممکنہ خاتمے کا باعث اب مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو ٹھہرایا جائے گا ۔

آڈیو ٹیپ کی بنیاد پر جو کہانی بن گئی ہے وہ بہت چٹ پٹی اور مزے دار ہے۔ہمارے سیاستدانوں کی خود غرضی اور سازشی جبلت کو بے نقاب بھی کرتی ہے۔ایسے سیاستدانوں کے ’’اتحاد‘‘ سے عمران خان صاحب جیسے ایماندار حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔وہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ویسے بھی NROدینے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے۔ہفتے کے روز چکوال میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بلکہ NROکو وطن سے ’’غداری‘‘ کے مترادف بھی ٹھہرادیا ہے۔

جس ٹیپ کا ذکر ہورہا ہے وہ سندھ میں لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے جمعیت العلمائے اسلام کے ایک بہت ہی متحرک رہ نما کے Voice Messageپر مبنی ہے۔مولانا راشد سومرو اس رہ نما کا نام ہے۔نومبر کے درمیانی ہفتے میں ان کا لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ’’پھڈا‘‘ ہوا تھا۔ راشد سومرو ڈاکٹر خالد سومرو کے فرزند اور سیاسی جانشین ہیں۔

ان کے والد تاحیات JUIسے وابستہ رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست کے حصول کے لئے انتخاب بھی لڑتے رہے۔ آج سے چند سال قبل وہ سکھر میں ’’نامعلوم افراد‘‘ کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔ انہیں قتل کرنے والے افراد ابھی تک کیفرکردار کو نہیں پہنچے۔ چند مشتبہ افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف مگر ابھی تک کوئی ٹھوس فردجرم تیار نہیں ہوپائی ہے۔

ہر برس نومبر کے مہینے میں راشد اپنے والد کی یاد میں لاڑکانہ میں ’’شہید اسلام کانفرنس‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس برس کے نومبر کے اجلاس کے لئے انہوں نے لاڑکانہ شہر میں بینرز اور بل بورڈ وغیرہ آویزاں کئے تو مقامی انتظامیہ پر انہیں ’’پُراسرار‘‘ انداز میں ہٹانے کا الزام لگا۔ اس حوالے سے راشد سومرو کی لاڑکانہ کے ڈی سی سے تلخی بھی ہوگئی۔ڈی سی نے ’’وضاحت‘‘ کے لئے مولانا سے رابطہ کرنا چاہا۔

مولانا نے مگر اپنے سیکرٹری کے ذریعے اسے ’’مقامی‘‘ طورپر ہی مسئلہ کو حل کرنے کا مشورہ دیا۔مولانا کے دکھائے تامل کے بعد مذکورہ ڈی سی کی ’’مدد‘‘ کے لئے ایک اور ضلع کے افسر متحرک ہوئے۔انہوں نے صلح صفائی کے لئے راشد سومرو سے رابطہ کیا تو خالد سومرو کے فرزند نے گڑھی خدا بخش والی تڑی بھی لگادی۔

نومبر میں ہوئی اس گفتگو کے باوجود اس مہینے کے تیسرے ہفتے میں لاڑکانہ میں ’’شہید اسلام کانفرنس‘‘ منعقد ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن نے اس سے خطاب بھی کیا۔مقامی صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ کانفرنس میں ’’ریکارڈ ساز‘‘ اجتماع دیکھنے کو ملا۔ اس اجتماع کے باوجود 13دسمبر کا لاہور والا جلسہ بھی ہوگیا۔بلاول بھٹو زرداری بھی اس میں شریک ہوئے۔

راشد سومرو کا معاملہ وسیع تر تناظر میں لہٰذا ’’مقامی‘‘ ہی رہا۔ سیاسی مجبوریوں کے طفیل مولانا فضل الرحمن اس میں فریق بننے سے گریز کرتے ہیں۔وہ مگر اپنی ’’مقامی‘‘ قیادت کو ’’یتیم و بے آسرا‘‘ ہوا بھی نہیں دکھاسکتے۔ وہ اگر 27دسمبر کو لاڑکانہ والے جلسے میں شریک ہوتے تو اس جلسے کی توجہ محترمہ کی شہادت تک ہی محدود نہ رہتی۔ پیپلز پارٹی اور JUIکے مقامی کارکنوں کے مابین زیادہ سے زیادہ جھنڈے لہرانے اور شرکاء کی تعداد دکھانے کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے۔

آڈیوٹیپ کی ’’دریافت‘‘‘ کے بعد افلاطون اور ارسطو کی طرح مجھ جیسے جاہلوں کو یوٹیوب کے ذریعے سیاست کے اسرار ورموز سکھاتے ’’ذہن سازوں‘‘ سے دست بستہ عرض ہے کہ خدارا ہماری رہ نمائی فرماتے ہوئے اس حقیقت کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ ہرنوع کی سیاست بالآخر ’’مقامی‘‘ سیاست ہی ہوا کرتی ہے۔

1960کی دہائی سے لاڑکانہ یقینا بھٹو خاندان کا حتمی قلعہ ثابت ہورہا ہے۔ اس ’’قلعہ‘‘ کی بنیاد 1930میں ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو نے رکھنا شروع کی تھی۔ وہ ایک بہت ہی طاقت ور اور بااثر جاگیر دار تھے ۔ اسی باعث انگریزوں سے ’’سر‘‘کا خطاب بھی حاصل کیا۔ دل ان کا مگر روایتی وڈیروں کے مقابلے میں بہت نرم اور انسان دوست تھا۔ سندھ ان کے زمانے میں بمبئی کا حصہ شمار ہوتا تھا۔

سندھ کی تاریخی اور جداگانہ شناخت کو اجاگر کرنے کے لئے وہاں ایک تحریک چلی۔ سرشاہنوازبھٹو اس تحریک کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔1931میں لندن میں برصغیر پاک وہند میں ’’جمہوریت‘‘ متعارف کروانے کے ضمن میں جو گول میز کانفرنس ہوئی تھی وہاں سندھ کے مسلمانوں کی نمائندگی کا اعزاز سرشاہنواز بھٹو کو حاصل ہوا تھا۔ مذکورہ کانفرنس میں وہ سندھ کو بمبئی سے جدا کرنے کے مطالبے پر مصر رہے۔

بالآخر 1937میں سندھ کی جداگانہ شناخت برطانوی حکمرانوں نے تسلیم کرلی۔ ’’نئے صوبے‘‘ کی اسمبلی کے لئے اس برس انتخاب ہوئے۔ یہ امر یقینی نظر آرہا تھا کہ لاڑکانہ کی نمائندگی صوبائی اسمبلی میں سرشاہنواز بھٹو کو بآسانی میسر ہوجائے گی۔صوبائی اسمبلی کی نشست پر لیکن ٹھٹھہ میں پیدا ہوئے ایک نومسلم -شیخ عبدالمجید سندھی سرشاہنواز بھٹو کے مدِ مقابل کھڑے ہوگئے۔

مقامی طورپر ناقابل تسخیر شمار ہوتے ایک طاقتور ترین اور خاندانی جاگیردار کو انہوں نے شکست سے دو چار کیا۔اپنی شکست سے دلبرداشتہ ہوکر سرشاہنواز بھٹو بمبئی منتقل ہوگئے۔ وہاں سے انہیں جوناگڑھ کا نواب اپنی ریاست کا دیوان یا وزیر اعظم بناکر اپنے ہاں لے گیا۔

شیخ عبدالمجید سندھی بنیادی طورپر ایک لکھاری اور صحافی تھے۔ برطانوی عہد میں سندھ کے مقبول ترین اخبار ’’الوحید‘‘ کے مدیر رہے۔نظریاتی اعتبار سے وہ مولانا عبداللہ سندھی کے جذباتی پیروکار تھے اور یاد رہے کہ مولانا عبداللہ جمعیت العلمائے اسلام کے قدآور ترین اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔لاڑکانہ کی ’’مقامی‘‘ سیاست کے حوالے سے لہٰذا بھٹو خاندان اور جمعیت سے وابستہ افراد کی چپقلش بہت قدیم اور تاریخی ہے۔

راشد سومرو خود کو دورِ حاضر کے شیخ عبدالمجید سندھی ثابت کرنے کو بے تاب ہیں۔حال ہی میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے مقامی مخالفین پر مبنی اتحاد کو ہر نوعیت کی توانائی فراہم کی جو لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پیپلز پارٹی سے ضمنی الیکشن میں ’’چھین‘‘ لینے کا باعث ہوا۔تمام تر نیک خواہشات اور خلوص کے باوجود محضPDMکو ’’برقرار‘‘ رکھنے کی خاطر جمعیت اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت اپنی ’’تاریخ‘‘ بھلانے کو ہرگز تیار نہیں ہوگی۔

1930کے آغاز سے شروع ہوئی کہانی 2020میں بھی جاری رہی۔ حال ہی میں ’’دریافت‘‘ ہوئی آڈیو ٹیپ لاڑکانہ کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں قطعاََ فروعی ہے۔اسے ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طورپر نہ لیا جائے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author