نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برسی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ۔۔۔۔۔۔ اسباق اور انتقام۔۔۔رؤف لُنڈ

پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کم و بیش تیس لاکھ سروں کی فصل کراچی کی سڑکوں پر لہلا رھی تھی ۔ ان لاکھوں بے کسوں نے اپنا آپ یوں منوایا کہ ان کے کراچی پہنچنے سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر لوگ امڈ آئیں گے

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آنے کا ارادہ کیا۔ فیصلہ ہوا اور پھر تیاریاں ہونے لگیں۔ تیاری کرنے والوں میں محض محترمہ بینظیر بھٹو نہیں تھی۔ بلکہ یہ تیاری تین طرفہ تھی۔ محترمہ ، محترمہ کی پاکستان میں آمد کو دیکھنے والی اندرونی و بیرونی قوتیں اور پاکستان کے کٹے پھٹے لباس ، ننگے پاؤں، بھوکے پیٹ والے حالات کے مارے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔

ساری دنیا اور ساری دنیا کے تجزیہ نگاروں کی نظریں اس آمد کے دو کرداروں محترمہ بینظیر بھٹو اور ملکی و بیرونی فیصلہ ساز مقتدر قوتوں پر مرکوز تھیں۔ تب آسماں کو آنکھ دکھانے والے خاک نشیں کسی کو اور کسی بھی فریق کو نظر نہیں آ رھے تھے اور نہ ان کو کوئی خاطر میں لا رہا تھا۔۔۔

اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔ کیونکہ یہ آبلہ پا ، گریباں چاک اور خاک نشیں ہمیشہ نظروں سے اوجھل ھی رہتے ہیں اور صرف اس وقت نظر آتے ہیں جب یہ اپنے ہاتھوں سارے سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ سو ان خاک نشینوں نے اپنا آپ دکھانے اور منوانے کی ٹھان لی ۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کم و بیش تیس لاکھ سروں کی فصل کراچی کی سڑکوں پر لہلا رھی تھی ۔ ان لاکھوں بے کسوں نے اپنا آپ یوں منوایا کہ ان کے کراچی پہنچنے سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر لوگ امڈ آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان لاکھوں بے بسوں کی آمد بارے تب سے لے کر اب تک تجزیئے ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن یہاں جن دو شخصیات کے تجزئیے کا تذکرہ مطلوب ھے ان میں ایک وہ جس کا عوام اور عوامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا اور ایک وہ جس نے زندگی بھر عوام اور عوامی سیاست کیلئے لکھا بھی اور جدوجہد بھی کی۔۔۔۔۔۔۔

ان میں ایک ہیں دائیں بازو کے عطاءالحق قاسمی۔ جس نے محترمہ کے استقبال پر آنے والوں کے بارے لکھا کہ ” مجھے آج ان لوگوں سے کوئی غرض نہیں کہ جو محترمہ کے دائیں بائیں کھڑے تھے یا آگے پیچھے لگزری گاڑیوں میں موجود تھے۔

میری نظر میں وہ لوگ اور ان کا وہ غصہ اھم ھے جو سڑک پر اپنے مطالبات کے حق میں اور جاگیرداری ، سرمایہ داری، امریکی سامراج اور ان کے دلالوں کے خلاف نعرہ بازی کر رھے تھے اور جو امریکی پرچم جلانے والوں کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا "۔۔۔

دوسرا تجزیہ ھے بائیں بازو کے عظیم دانشور، شاعر اور کالم نگار جناب منو بھائی کا۔ منو بھائی نے محترمہ کے استقبال کے بعد کے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ” کراچی میں تیس لاکھ کا یہ ہجوم بینظیر بھٹو کو دیکھنے نہیں آیا تھا۔ کیونکہ محترمہ بینظیر بھٹو کو وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ٹی وی چینلوں پر بہت بہتر طور پر دیکھ سکتے تھے۔ یہ لوگ محترمہ کو اپنا آپ ، اپنے حالات دکھانے اور اپنے ارادے دکھانے آئے تھے”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس پھر بقول عظیم انقلابی استاد اور مارکسسٹ تجزیہ نگار کامریڈ لال خان ، ” اپنے حالات سے نالاں ان خاک نشینوں کے کچھ کر گزرنے کے اسی عزم اور اظہار نے ایک طرف محترمہ بینظیر بھٹو کے ذہن میں ہلچل برپا کردی اور دوسری طرف سامراج اور سامراج کے سب دلالوں کو خوفزدہ کردیا”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس طور استحصال کو جاری و ساری رکھنے کی خباثت کے رکھوالے سب خبیثوں اور ان کی دلالی و گماشتگی کرنے والوں نے عوام کے ہاتھوں سب کچھ چھن جانے کے خوف سے محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل کردیا۔۔۔۔

کون تھے وہ لاکھوں بے بس اور بے کس خاک بسر چاک گریباں ؟ اور کب قتل ہوئی بینظیر۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ابھی کل ھی کی بات ھے محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ میں ، آپ ، ھم ، ھمارے بزرگ والدین ، ھمارے محنت کش بھائی بند ، بے روزگار نوجوان، بیماری کی ذلت سے دوچار ، غربت کے ہاتھوں خوار، راہ چلتی گولیوں کا شکار، اس طبقاتی نظام کی اذیت اور دکھوں کے ہاتھوں برباد و بےخانماں تھے۔۔۔۔

اور وقت کا پہیہ الٹا گھمانے والوں کی چال دیکھئیے کہ آج بھی ھم وھی ، ھمارے حالات بھی وھی اور ھماری امنگوں ، خوابوں ، آدرشوں اور جذبوں کے قاتل جاگیردار ، سرمایہ دار، سامراج اور سامراجی دلال بھی وھی ۔۔۔۔۔

آج کے دن ضرورت ھے سامراج اور اس کے گماشتوں کو پہچاننے کی ، ان کی پھیلائی ہوئی دانش کے ہاتھوں اپنے کسی نقصان پر رونے دھونے کی نہیں۔ اب ضرورت ھے اپنے قاتلوں خواہ یہ قاتل افراد ہوں یا ان افراد کا سرپرست طبقاتی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی۔

اب ضرورت ھے اپنے ہر دکھ اور ہر ذلت کے بدلہ لینے کی۔ جو صرف اور صرف طبقاتی جنگ اور اس کی حتمی فتح غیرطبقاتی سوشلسٹ سماج سے ھی ممکن ھے۔ باقی ہر راستہ ایک نئے دکھ، ایک نئے زخم، ایک نئے قتل، ایک نئی بربادی ، ایک نئی اذیت اور ایک نئی ذلت کی گہرائی میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔

اس طبقاتی نظام اور اس نظام کے سب گماشتوں کے ہاتھوں اپنے سارے دکھوں، سارے زخموں اور ساری ذلتوں کی قسم ہمیں اپنے بے بس ہو کر رہنے کی توہین سے بچنے ، اپنے اور اپنے طبقے کی عظمت منوانے کے راستے کے انتخاب اور جدوجہد کا عزم کرنا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچے جذبوں کی قسم جیت محنت کش طبقے کا مقدر ھے۔

یہ بھی پڑھیے:

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

About The Author