ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22دسمبر 2020ء کے خبریں میں محمود اچکزئی کے جواب میں خبریں کے مضمون نگار ازہر منیر کی تیسری اور آخری قسط شائع ہوئی ہے ، جس میں ’’ عذرِ گناہ بد تر از گناہ‘‘ کے مصداق یہ تسلیم کیا ہے کہ پنجابی انگریز فوج کا حصہ بنے اور انگریز فوج میں ملازمتیں حاصل کیں ۔ انہوں نے عذر یہ پیش کیا ہے کہ انگریز کے زیر قبضہ علاقوں میں سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے لوگوں نے بھی ملازمتیں حاصل کیں ۔
اس کے ساتھ دیکھنا یہ ہے کہ تناسب کیا ہے ؟ انگریز فوج میں پنجابیوں کی شمولیت کو دیکھتے ہیں تو حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ کہہ رہے ہیں کہ محمود اچکزئی حقائق کو مسخ کر کے کہہ رہے ہیں کہ پنجابیوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر انگریز کی حمایت کیا ہو سکتی ہے کہ پنجاب کے لوگ دھڑا دھڑ انگریز فوج کا حصہ بنے اور اس کا تسلسل بھی جاری رہا ۔
ازہر منیر نے کل کی قسط میں سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں پر الزام لگایا تھا ، ہم جاگیرداروں کے کل بھی مخالف تھے ، اور ان کے عمل کی آج بھی مذمت کرتے ہیں ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب کا عام آدمی انگریز دشمن تھا، ازہر منیر یہ بھول گئے کہ خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں کہا تھا کہ ’’ اپنی نگری آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے ‘‘ ۔
جہاں تک جاگیرداروں کا تعلق ہے وہ کل بھی تخت لاہور کے تھے اور آج بھی تخت لاہور کے حامی ہیں ۔ سرائیکی وسیب میں تخت لاہور کے ان حامیوں کو غدار ابن غدار ابن غدار کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔
ازہر منیر نے غلط لکھا کہ پنجابیوں کی بغاوت اور مزاحمت کی روائت ہزاروں برس سے چلی آ رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تخت لاہور نے ہمیشہ حملہ آوروں کیلئے سہولت کاروں کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ تخت لاہور کے درباری تاریخ نویس چل پھر کر تان رنجیت سنگھ پر توڑتے ہیں کہ رنجیت سنگھ بڑا بہادر تھا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رنجیت سنگھ خود انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور انگریزوں کی ایماء پر ہی سکھ لٹیرے گروہ مسلم اقتدار کے زوال کا باعث بنے ۔
دوسرا یہ کہ رنجیت سنگھ نے خلعت افغانستان کے بادشاہ سے حاصل کی ہوئی تھی ۔ تخت لاہور والے رنجیت سنگھ کو ہیرو قرار دیتے ہیں ، پہلے اس کو کردار کو تو دیکھیں کہ اس نے لاہور کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ لاہور کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ مسجدوں کاور اصطبل کس نے بنایا؟ مسجدوں سے اذان کی بندش کا حکم کس نے جاری کیا ۔ معاذ اللہ مساجد میں رکھے گئے قرآن مجید کے نسخوںکو آگ کس نے لگوائی ؟
لاہور میں ظلم ، بربریت کی انتہا کس نے کی ؟ ہزاروں مسلمانوں کا قتل کس نے کیا؟ پورے لاہور کو ہیرا منڈی میں کس نے تبدیل کیا ؟ شرم آنی چاہئے ایسے لوگوں کو جو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور مسلمانوں کے قاتل کو اپنا ہیرو بھی کہتے ہیں ۔ کوئی ایک خوبی رنجیت سنگھ کی گنوا دی جائے ، ہم اپنی بات یہیں پہ ختم کر دیں گے ۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انگریز پورے ہندوستان پر آہستہ آہستہ قبضہ کرتے جا رہے تھے ، کیا رنجیت سنگھ نے انگریزوں کو کہیں پر روکا ؟ اگر تخت لاہور کا حاکم انگریز دشمن تھاتو اسے انگریزوں سے مقابلے کیلئے آگے آنا چاہئے تھا۔ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد تخت لاہور کی پگ ان کے بیٹے کھڑک سنگھ کے پاس آئی انگریزوں نے تخت لاہور کو قبضے میں لے لیا ، سکھوں کی کوئی بہادری بتا دی جائے کہ انہوں نے انگریزوں کا کتنا مقابلہ کیا؟
البتہ ہم بتاتے ہیں کہ سرائیکی وسیب کے بہادروں نے حملہ آور رنجیت سنگھ کا مقابلہ کیااور اس قدر مقابلہ کیا کہ ملتان کی پوری سپاہ نے اپنے نواب مظفر خان کے ساتھ شہادت قبول کر لی مگر کافر سکھوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ۔
اس کے بعد بزدل اور بے غیرت سکھ فوج ملتان گھروں میں داخل ہوئی ، اسباب لوٹنے کے ساتھ انہوں نے مستورات کی عزت پر حملہ کرنا چاہا تو ملتان کی عصمت مآب مستورات نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں اور کنوئیں خواتین کی لاشوں سے بھر گئے ۔ اس کا نام غیرت ہوتی ہے ۔
بہادری ، ہمت اور غیرت اس طرح کا کوئی ایک واقعہ تو بتا دیں ، ہم مان لیں گے ، ازہر منیر جیسے درباری ، خوشامدی اور متعصب تاریخ نویسوں کو فرق محسوس کرنا چاہئے کہ رنجیت سنگھ نے حملہ آور کی حیثیت سے سلطنت ملتان پر چڑھائی کی اور نواب مظفر خان نے اپنی سلطنت اور اپنی ماں دھرتی کا دفاع کیا ۔
رنجیت سنگھ کافر تھا اور نواب مظفر خان مسلم فرمانروا ۔ اہل لاہور نے رنجیت سنگھ کا ہیرو کے طور پر مجسمہ بنایا ہے تو جس نے بھی پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ، اس کی روح تڑپ گئی اور پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے ، عجب بات ہے کہ پنجاب کی اشرافیہ جب دوسروں کو غدار قرار دیتی ہے تو دو قومی نظریہ ، اسلام ، پاکستان ، کلمہ لا الہ الا اللہ کا سہارا لیتی ہے اور جب وہ اپنے پنجابی شاؤنزم اور گریٹر پنجاب کے فلسفے پر عمل پیرا ہوتی ہے تو ان کو اپنا مسلمان ہونا بھی یاد نہیں رہتا، اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان تمام چیزوں کو ایک طرف رکھ دیتی ہے اور رنجیت سنگھ کے مجسمے کی پوجا شروع کر دی جاتی ہے ۔
یہ کیا رویہ ہے ؟ یہ کیسا مذاق ہے ؟ کیا اکیسویں صدی میں بھی لوگوں کو اسی طرح بیوقوف بنایا جاتا رہے گا؟ ازہر منیر دُلا بھٹی کو بھی پنجاب کا ہیرو قرار دے رہا ہے۔
حالانکہ پنڈی پھٹیاں کے آگے تک کے علاقے ملتان کا حصہ رہے ہیں ۔ اور ان کی زبان بھی سرائیکی ہے اور یہ وہی جھنگ کے علاقے میں بولی جانے والی میٹھی سرائیکی زبان ہے جسے پنجاب کے نام نہاد دانشور جانگلی قرار دیتے ہیں ۔ محمود اچکزئی نے لاہور میں کھڑے ہو کر بات کی ، اس وقت کوئی نہیں بولا ۔
بعد میں سب بول رہے ہیں اور بڑی کوشش کی گئی کہ محمود اچکزئی اپنے الفاظ واپس لے لیں ، لیکن محمود خان اچکزئی نے کہا کہ مجھ پر اعتراض کرنے سے پہلے تاریخ کا مطالعہ کر لیں اور آج کے کالم میں ازہر منیر نے محمود خان اچکزئی کی بات خود ثابت کر دی اور تسلیم کیا کہ افغانستان کے بادشاہ شاہ شجاع کے مدد طلب کرنے پر لاہور دربار اور انگریزوں نے مدد کی اور افغانستان کا تخت دوست محمد خان سے چھین کر شاہ شجاع کو واپس دلایا ۔
یہ بات تسلیم کرنے کے ساتھ ازہر منیر کی ساری کہانی اتنی عجیب و غریب ہے کہ ہنسی آتی ہے ، جب کسی لکھاری کے پاس جواب دینے کیلئے دلیل باقی نہ رہے تو وہ لیکن چونکہ چنانچہ کہنا شروع کر دیتا ہے، ازہر منیر کی ساری کہانی اسی ایک جملے کے گرد گھومتی ہے کہ ’’ عذرِ گناہ بد تر از گناہ ‘‘ ۔
وہ یہ بھی الزام دے رہے ہیں کہ افغانوں کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا ، وہ ڈاکو اور لٹیرے تھے اور وہ لوٹ مار کرتے تھے اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی طرح پستول نکال کر بھتے وصول کرتے تھے ۔ جب پنجاب کی بات آتی ہے تو ازہر منیر کہتا ہے کہ یہ چند آدمیوں کا ذاتی فعل تھا اور جب دوسروں پر اعتراض کرنا ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ فلاں قوم کا ذریعہ معاش ڈاکہ زنی اور لوٹ مار تھا اور وہ پستول نکال کر بھتہ وصول کرتے تھے ۔
جبکہ حقائق حقائق ہوتے ہیں اور حقائق کی بنیاد پر ہی مدلل جواب دیا جا سکتاہے اور اگر کسی کے پاس حقائق نہیں تو وہ حقائق کا سامنا کرے اور بہتر یہ ہے کہ قوم کے نمائندے کے طور پر سابق مظالم کی معافی مانگ لے اور اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں تو بہتر ہے خاموش رہے ۔
میں ازہر منیر کو سرائیکی قوم کی طرف سے چیلنج دیتا ہوں ، وہ کسی بھی جگہ کسی بھی مقام پر سرائیکی مقدمہ کے بارے میں مباحثہ یا مکالمہ کرے ، اگر ہم جھوٹے ہو جائیں تو ہمارے سر قلم کر دیئے جائیں ، اگر وہ جھوٹے ہوتے ہیں تو سرائیکی قوم کو ان کی مکمل حدود پر مشتمل صوبہ سرائیکستان دے دیا جائے ۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں:
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر