رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے خبر آئی کہ امریکہ کے نو منتخب صدر کو کورونا کا ٹیکہ لگے گا۔ خبر ہم نے بھی سنی اور دل ہی دل میں کہا کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ ہم بھلا کس شمار میں۔ ذرا دیر بعد ہمارے علاقے کے ڈاکٹر کا فون آیا۔ ہم خوش ہوئے کہ ٹیکہ لگوانے کی ہدایت کرے گا مگر وہ بولا: ٹیکہ لگواؤ گے؟
ہم یہ سوچ کر حیران ہوئے کہ وہ ہم سے اجازت مانگ رہا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ برطانیہ میں آباد ہمارے ہم وطن بڑی تعداد میں ٹیکہ لگوانے سے انکار کر رہے ہیں اور اکثر اپنے انکار کا سبب بھی بتا رہے ہیں: ارے صاحب اس میں بھی کوئی سازش ہے۔ ہم چونکہ اس (اردو زبان میں داخل ہونے والے نئے لفظ) بیانیہ کے عادی ہو چکے ہیں، ڈاکٹر کو یہ نوید سنائی کہ ہم تو کب سے تمہارے فون کا انتظار کر رہے ہیں، اب بتاؤ ٹیکہ لگوانے کہاں آئیں۔
معلوم ہوا کہ ملک میں جتنے لوگوں کی عمریں اسّی برس سے اوپر ہو چکی ہیں، سب سے پہلے ان کو ٹیکہ لگایا جائے گا۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ پیر کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے آ سکتے ہو؟۔ ہماری آمادگی کی بات سنتے ہی اُس نے کہا کہ تمہارے موبائل فون میں ساری تفصیل بھیجی جارہی ہے۔
تب پتا چلا کہ مقامی چرچ کے بڑے ہال کو ویکسین سنٹر بنا دیا گیا ہے اور وہاں علاقے کے سارے بزرگوں کے آرام و آسائش کی تمام سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں۔ چرچ ہمارے گھر سے اتنا قریب بھی نہیں اور اتنا دور بھی نہیں۔ ہم نہا دھو کر، تیار ہو کر، چہرے پر تازہ دم نقاب باندھ کر پہنچے جہاں نرسوں نے خیر مقدم کیا اور انتظار گاہ میں بٹھا دیا۔ کوئی دس منٹ کے بعد ہمارا بلاوا آگیا اور ہمیں استقبالیہ تک لے جایا گیا۔
اندر جاکر دیکھا، بہت بڑے ہال کو اچھے خاصے اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ٹیکہ لگانے والی نرسیں الگ الگ بیٹھی تھیں اور باقی عملہ ذرا گھبرائے ہوئے بزرگوں کی رہ نمائی کرنے میں مصروف تھا۔ استقبالیہ پر غضب ہوا۔
وہاں بیٹھی ہوئی خاتون نے، جن کے منہ پر اچھا بھلا ڈھاٹا بندھا ہوا تھا، ہم سے کچھ پوچھا۔ اِس ماسک کے ہر چیز چھاننے کی اتنی غضب کی صلاحیت تھی کہ ہم اُن کی بات بالکل نہیں سمجھ پائے اور پہلی بار اندیشہ ہوا کہ شاید ہماری قوتِ سماعت جواب دے گئی اور ہمیں پتٓا بھی نہ چلا۔ بڑی مشکل سے پتا چلا کہ خاتون ہماری تاریخ پیدائش پوچھ رہی ہیں۔
یہاں شفاخانوں میں مریض کی پہلی شناخت اُس کی ولادت کی تاریخ سے ہوتی ہے۔ ہم پہچان لئے گئے تو کسی نے ہمارا ہاتھ تھام کے اُس نرس کے پاس پہنچا دیا جو ایک ٹرے میں انجکشن کی سوئیاں آراستہ کئے بیٹھی تھی۔ اُس وقت ہم نے کورونا کی ویکسین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور خیال آیا کہ جس ویکسین کی تیاری میں دس برس لگتے ہیں، سائنس دانوں نے اُسے چند ماہ میں تیار کرکے جو کار نامہ انجام دیا ہے وہ ہمارے سامنے ایک چھوٹی سے شیشی میں پڑی تھی۔
نرس بہت ہی شفقت کے ساتھ پیش آئی اور اُس نے پوچھا کہ انجکشن کون سے بازو میں لگوانا چاہو گے۔ حیرت ہوئی، یہ لوگ ہر چیز کی اجازت مانگ رہے تھے۔ اکثر لوگ سوئی بائیں بازو میں لگواتے ہیں۔ ہم نے دائیں بازو کی آستین الٹ دی تو اس نے پوچھا کہ دایاں بازو کیوں؟ ہم نے کہا کہ ہم بائیں بازو پر سوتے ہیں کیونکہ دائیں کروٹ سونے سے ہماری ناک بند ہو جاتی ہے۔ یہ شاید اس کے لئے انکشاف تھا۔ بہت خوش ہوئی۔
سنئے اُس کے بعد کیا ہوا۔ بس جتنی دیر میں پلک جھپکتی ہے، اتنی دیر میں ایک چاندی سے بھی زیادہ چمک دار سوئی ہمارے بازو میں داخل ہوئی اور لمحہ بھر میں واپس نکل آئی۔
آستین اپنی جگہ لوٹ آئی اور نرس نے ہمیں ایک با تصویر کتابچہ دیتے ہوئے کہا کہ سامنے پڑی ہوئی کرسی پر تمہیں بیس منٹ بیٹھنا ہوگا، جب تک تم یہ کتابچہ پڑھو۔ وہ کتابچہ کیا تھا، ڈراؤنا خواب تھا۔ اُس میں لکھا تھا کہ کورونا کا ٹیکہ لگنے کے بعد کیسا کیسا رد عمل ہو سکتا ہے۔
صاحب اُس میں ہلاکت کے سوا ہر امکان درج تھا۔ اور ہلاکت کا بھی یہ ہے، یہ وہاں بیٹھ کر ہم نے دیکھا، بڑی سی اسکرین کھڑی کرکے اُس کی آڑ میں اسپتال کا ویسا ہی بستر لگا دیا گیا تھا جس پر آپریشن کیا جاتا ہے۔ اور وہیں آکسیجن کے ٹینک اور طرح طرح کے آلات یوں تیار رکھے تھے کہ یک لخت کوئی سانحہ ہو جائے تو ہنگامی کارروائی کے بعد کہیں اور بھاگنے کی ضرورت نہ ہو۔
اِس دوران ایک ایک بزرگ ٹیکہ لگوا کر آتے رہے۔ ایک نرس نے ہم سے مزاج پُرسی کی اور بڑے تپاک سے پوچھا کہ میں تمہاری تصویر اُتار لوں؟۔ ہم نے کہا کہ ہم تو ماسک پوش ہیں، وہ تصویر کس کام کی جس میں ہماری ملین ڈالر مسکراہٹ نظر نہ آئے۔
خاتون اِس جواب سے محظوظ ہوئیں۔ بیس منٹ پورے ہوتے ہی ایک اور نرس نے آکر ہم سے کہا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ ہم نے اُس سے کہا کہ سب کو چھوڑ کر ہماری ہی تصویر کیوں بنائی گئی۔ اُس نے کہا کہ جو مریض انجکشن کے بعد چونچال نظر آتے ہیں ہم اُن کی اجازت سے اُن کی تصویر اتار لیتے ہیں۔
عمارت میں داخلے کا راستہ الگ تھا اور باہر جانے کی راہ جدا۔ ہم اپنی چونچالی پر سرخ رو ہوتے ہوئے باہر نکلے اور خیر سے گھر پہنچے۔ شام کو ٹی وی پر دیکھا، امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کو اسی کورونا کا ٹیکہ لگایا جارہا ہے۔
ٹیکہ لگانے والی ویسی ہی نرس تھی، ویسی ہی شیشی میں وہی دوا، ویسی ہی چمک دار سوئی اور نقاب میں چھپی ہوئی ویسی ہی مسکراہٹ تھی۔ دنیا کے اتنے بڑے لیڈر کو آستین الٹ کر ٹیکہ لگواتے دیکھا تو ہم نے دعا کی کہ خدایا، یہ نیا عالمی رہنما شکست کھانے والے سابق صدر کی طرح دنیا کو اپنی حماقتوں کا ٹیکہ نہ لگائے۔
یہ بھی پڑھیے:
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر