رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اساتذہ کا بنی گالہ کے سامنے احتجاج ۔۔۔۔ اساتذہ کی حمایت کے ساتھ ان سے پیار بھرا شکوہ بھی ، ان سے جائز توقع اور مطالبہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھم کہ جو اس طبقاتی نظام کو اس کی ہر خباثت سمیت جڑ سے اکھاڑ دینے کے حامی بھی ہیں اور کوشاں بھی اساتذہ کے اس احتجاج کے بھر پور حمایت کرتے ہیں مگر اپنے اساتذہ کے مکمل احترام اور محبت کیساتھ ایک شعر کی شکل میں شکوہ کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ شعر ھے کہ
مَیں اگر آج زد پہ ہوں تو خوش گماں نہ ھو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
ھمارے پیارے اساتذہ کرام جو سیکنڈری سکولز سے تعلق رکھتے ہیں اور ایڈہاک (عارضی) آرڈرز کے ہاتھوں عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ ملازمتوں کے مستقل کئے جانے کے مطالبے کیساتھ بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان کے درِ اقدس پہ یہ فریاد لے کے گئے ہیں کہ "ھمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں” ، ” ھمارے بزرگ والدین ہیں” اور "ھمارے بے سہارا بہن بھائی ہیں” ۔۔۔۔۔ ھمیں اپنی ملازمتوں پر مستقل کیا جائے۔
ھمارے یہ اساتذہ پولیس کے سخت ناکے توڑ کے ظلِ الہٰی عمران خان کے در اقدس پہ زنجیر ہلانے پہنچے ہیں ۔ اور اس وقت بھی آنسو گیس کی شیلنگ کی اذیت سہہ رھے ہیں۔ اس دوران ایسے سبھی راستے سیل کر دیئے گئے جن سے کسی بھی صورت کوئی احتجاجی آواز یا تشدد سہتی کوئی چیخ ” اپنے کتوں” کو غذا کھلاتے محبوب وزیراعظم کے کانوں تک پہنچ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے اساتذہ کرام ! ھم اس ریاستی وحشت کی مکمل مذمت کرتے ہیں۔ ھم آپ کے اس حق کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی ملازمتوں پر مستقل کردیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔ لیکن ! ہائے کتنا خوفناک ھے اس وقت آپ کو یہ "لیکن”کہنا۔۔۔۔۔؟ مگر کیا کریں جناب کہ (بحیثیت مجموعی) یہ آپ ھی ہیں جو تعلیمی ادارے کی ایک کلاس سے لے کر، ادارے کے برآمدے ، گیلری، میدان اور دروازے یہاں تک کہ بیرونی دیواروں تک کسی بھی طرح کے سیاسی اظہار پہ قدغن لگا دیتے ہیں۔
طلباء کی کلاس کی کسی بد نظمی، کسی امتحان کی بے قاعدگی ، کسی فیس کے اضافے، اپنے کسی استاد کے رویئے، کسی سمسٹر کے کسی پیپر کی ناروا مارکنگ سے لیکر اپنے والدین کے دکھوں ، اذیتوں اور مہنگائی وغیرہ کے خلاف احتجاج کرنے والے اپنے ھی بچوں کو سزائیں دیتے ہیں۔ انہیں اداروں سے نکالتے ہیں۔ ان کے معصوم مگر متحرک ذہنوں میں سیاست کے خلاف زہر اور استحصال کرنے والے اس نظام کی فیوض و برکات بھرتے رھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کتنا بد قسمتی ھے کہ آپ لکیر کے فقیر بن کر نسل در نسل بچوں کے ادراک کیساتھ ان کا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ کی اس دانست کے کبھی کبھی کچھ بچوں نے رو گردانی کی بھی تو آپ ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے انہیں باغی، نا فرمان ، گستاخ اور ناہنجار قرار دے دے کر ان کو مسلسل ضائع کرتے رھے۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ ایسا نہ کرتے، اگر ایسا نہ سوچتے، اگر اٹھتے بیٹھتے یہ ورد نہ کرتے کہ ” ھم تو سرکار کے نوکر ہیں، جو سرکار کی مرضی”۔
تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ آج آپ کی طرف سے طلباء کی بغاوت کی آپ کی طرف سے کی گئی حوصلہ افزائی آپ کے کام آتی۔ اور اس کے نتیجہ میں یا تو کسی کو یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ اپنے محسنوں پہ ظلم کرنے کا کوئی حکم دیتے۔ یا پھر باغیوں کی ایسی کھیپ موجود ہوتی جو سرمائے کے گماشتہ ان حکمرانوں کے ایسے فرمانوں کو جوتے کی نوک پہ رکھتی ۔۔۔
پیارے اساتذہ کرام ! اب بھی سوچ کے دھاروں کو تبدیل کرنے کو کافی وقت پڑا ھے۔ آپ کسی گمراھی اور غلط فہمی میں پڑنے کی بجائے مکمل طور پر یہ جان لیں اور یہ سمجھ جائیں کہ اول تو ان حکمرانوں نے آپ کو کسی خاطر میں نہیں لانا بلکہ یہ الٹا آپ کو مزید رسوا کرینگے کیونکہ یہ حکمران اپنے سامراجی آقاؤں کے پکے اور سچے وفا دار ہیں۔ اور ان کے مفادات کے محافظ بھی۔
اور اگر یہ حکمران کسی طور آپ کی ثابت قدمی کے طفیل کچھ تسلیم کرنے یا کچھ دان کرنے پر آمادہ ہو بھی جائیں تو یہ ان کے کسی احسان کی وجہ نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ سب آپ کی اور آپ کے طبقے کی منظم اجتماعی طاقت کے مرہونِ منت ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
پیارے اساتذہ کرام ! آپ نا کام لوٹیں یا کامیاب ۔ واپس آکر یہ تہیہ کر لیں کہ آپ سب نے انقلاب روس کے بانی ولادیمر لینن کے اس قول کو رہنما بنانا ھے کہ ” ایسی کوئی بھی تعلیم جس کا تعلیمی اداروں کے باہر کے سماج سے کوئی تعلق نہ ہو ھم ایسی تعلیم کو مسترد کرتے ہیں ” ۔
جناب آپ ایک بار بچوں کے سماج میں موجود ہر زیادتی پر سوال اور احتجاج کی حوصلہ افزائی کر کے تو دیکھیں ، پھر دیکھنا آپ کے اور سماج کے مستقبل کے یہ بچے آپ کو، آپ کے بچوں کو، آپ کے بھائی بندوں کو اور آپ کے طبقے کو ملنے والے ہر دکھ اور اذیت کا مداوا کرنے کیلئے کس طرح حکمرانوں کے تاج اور تخت کو اپنے قدموں کی ٹھوکروں کی زد پہ رکھ کر اپنے ہاتھوں سوشلسٹ سویرے کا سورج اگاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
یہ بھی پڑھیے:
16, دسمبر ! سانحۂِ بنگال و پشاور۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر