وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیشے کا معقول اور زدو ہضم اردو ترجمہ کیا ہوگا؟ کوئی میری رہنمائی فرمائے تو شکرمند ہوں گا۔ البتہ ایک ممکنہ تشریح یہ ہو سکتی کہ وہ بدقسمت مکالمہ، اصطلاح، فقرہ، شعر، نعرہ اور لفظ جو پیدا تو بہت توانا ہوتا ہے مگر اپنی تاثیر اور مقبولیت کی قیمت یوں ادا کرتا ہے کہ ہر خاص و عام اسے جا بے جا، بنا مطلب سمجھے زورِ بیاں کی خاطر اس قدر بے دردی سے برتتا ہے کہ وہ مکالمہ، اصطلاح، فقرہ، شعر، نعرہ اور لفظ بے روح ہو کر خالی کھوکھے کی صورت ٹکے ٹوکری ہوجاتا ہے۔ شاید اسی کیفیت کو کلیشے کہتے ہیں۔
مثلاً ’’ہمیں اس ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لیے دن رات ایک کرنا ہوگا‘‘ یقیناً پہلی بار جس کسی کے منہ سے یہ جملہ نکلا ہوگا وہ شخص بہت دردمندی اور عزمیہ کیفیت میں مبتلا رہا ہوگا۔ جملے کی روح سے گمان ہوتا ہے کہ یہ قائدِ اعظم کی وفات کے فوراً بعد یا ایک آدھ سال کے اندر کہا گیا ہوگا۔ وہ دن اور آج کا دن یہ جملہ اور اس سے ملتے جلتے ممیرے چچیرے فقرے ہر قومی دن پر جاری ہونے والے پیغام یا خطاب میں مسلسل چیپے جا رہے ہیں۔ تہتر برس میں اس جملے کا لباس لیرو لیر ہوچکا ہے، اس کی روح قفسِ عنصری کب کا چھوڑ چکی۔ اب صرف ڈھانچے کی بھی چند ہڈیاں بچی ہیں پھر بھی کوئی باوردی یا ناوردی اسے کہیں نہ کہیں اپنے خطاب میں ٹانکے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اب کوئی پوچھے کہ حضرت یہ فرمائیے کہ قائدِ اعظم آخر کیسا پاکستان چاہتے تھے کہ جسے بنانے کے لیے آپ دن رات محنت کرنے کا عزم کر رہے ہیں؟
کبھی قائدِ اعظم کے منہ سے بھی کسی نے سنا کہ وہ پاکستان بنانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ وہ تو بس حالات کے معروضی تجزیے کے بعد ایک خاص نتیجے پر پہنچے اس نتیجے کو فیصلے میں بدلا اور بن گیا پاکستان اللہ اللہ خیر صلا۔
مگر آپ ایک بنی بنائی چیز کو دوبارہ بنانے پر کیوں بضد ہیں۔ اس کے اندر بنے مکانوں اور مکینوں کو پہلے سے بہتر بنانے پر توجہ دینے سے آپ کو کس نے منع کیا ہے۔ کون روک رہا ہے آپ کو اس کارِ خیر سے؟ اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی کنفیوژن ہے تو قائدِ اعظم کی تمام اہم تقاریر و بیانات و سوانح عمریاں بازار میں رعایت دستیاب ہیں۔ انھیں خرید کر پڑھنے اور پھر ان کی روشنی میں ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں آخر کیا اڑچن ہے۔
آپ کبھی نہ مانیں گے کہ اصل اڑچن آپ خود ہیں۔ صرف توتے کے مافق فقروں کی تکرار سے مطمئن ہو کر سوجانے سے تو گھر کے سامنے پڑا کچرا بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا چہ جائیکہ آپ قائدِ اعظم کے تصورات پر مبنی نظام کے قیام کے لیے تصور ہی تصور میں دن رات ایک کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
وہ دن رات آپ کہاں سے لائیں گے جن کے بارے میں بابا جی نے فرمایا تھا کہ کام، کام اور صرف کام۔ آپ شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ اس کا مطلب ہے کام کام اور صرف ذاتی کام۔ مجھے آپ کو دیکھ کر وہ مریض یاد آ رہا ہے جس نے ڈاکٹر سے شکوہ کیا کہ سر جی بارہ سو روپے کا ایکسرے بھی کرا لیا آرام پھر بھی نہیں آیا۔
اچھا خیر دن رات ایک تو بعد میں کیجیے گا پہلے یہ بتائیے کہ کیا آپ نے جناح کی زندگی کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے؟
وہ تو آئین و قانون کی بالادستی پر دل سے یقین رکھتے تھے کیا آپ بھی رکھتے ہیں؟ وہ تو کسی غیر آئینی و غیرقانونی اقدام کو مصلحتاً بھی ہضم کرنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ کیا آپ بھی قانون اور آئین کی پاسداری میں اتنے ہی بے لچک ہیں۔ وہ تو بطور گورنر جنرل کوئی بھی زبانی حکم نہیں صادر کرتے تھے۔ ہر شے لکھت میں ہوتی تھی تاکہ سرکاری ریکارڈ کا حصہ رہے۔ کیا آپ کی بھی یہی روش ہے؟
وہ پہلے خوب سوچ بچار کرتے تھے اور پھر اپنے فیصلے پر اٹل ہو جاتے تھے۔ ان کا ڈرائیور ضرور یو ٹرن لیتا تھامگر فیصلے کبھی یوٹرن نہیں لیتے تھے۔ ان کے پروفیشنل کیریئر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں تھا۔ کیا آپ بھی ایسے ہی ہیں؟
وہ تو نپی تلی تقریر کرتے تھے اور احتیاط رکھتے تھے کہ جیسا کہا جا رہا ہے ویسا ہی سماعتوں تک بھی پہنچے تاکہ بعد میں کوئی جملہ واپس نہ لینا پڑے یا یہ نہ کہنا پڑے کہ دراصل میرا یہ نہیں وہ مطلب تھا اور اخبارات نے میری گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر یا توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ کیا آپ کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے؟
وہ تو ہر شخص کو ذمے داری سونپتے ہوئے بس یہ دیکھتے تھے کہ کیا یہ شخص اس ذمے داری کو ایمانداری سے نبھانے کا اہل ہے کہ نہیں۔ اس کا جو بھی عقیدہ یا برادری ہو جناح صاحب کے لیے اس کی حیثیت ثانوی تھی۔ کیا آپ بھی لوگوں کو اسی معیار کے مطابق ذمے داریاں سونپنے پر یقین رکھتے ہیں؟
انھیں نے اپنے نجی و سرکاری اخراجات کے لیے الگ الگ کھاتہ بنایا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ گورنر جنرل ہاؤس میں جو ڈبل روٹی آتی تھی اس کی بھی رسید بنتی تھی۔ کیا آپ یا آپ میں سے کوئی ایک دل پر ہاتھ رکھ کہ کہہ سکتا ہے کہ ہاں میری بھی یہی عادت ہے؟
جب جناح صاحب صرف سیاستداں تھے اور جب گورنر جنرل بن گئے تب بھی وہ روزانہ کی بنیاد پر صرف صحافیوں کی فرمائش پر اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لیے بیان برائے بیان یا ترکی بہ ترکی کے مرض میں مبتلا نہیں رہے۔ وہ تب ہی منہ کھولتے تھے جب اشد ضرورت ہو۔ اسی لیے ان کے ہر ہر لفظ کو اخبار سے عوام تک سنجیدگی سے سنا اور محسوس کیا جاتا تھا۔ کیا آپ کے منہ سے نکلے الفاظ کی بھی یہی قدر و قیمت ہے؟
کالم کی طوالت کے پیشِ نظر مزید مثالیں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ بس یہ عرض کرنا ہے کہ آیندہ آپ بات کو وزنی بنانے کے لیے کسی اور کلیشے کا سہارا لے لیجیے گا۔ اس بے چارے لاٹھی ٹیک جملے کو اب بخش دیں کہ ’’ ہمیں اس ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لیے دن رات ایک کرنا ہوگا‘‘۔
(استاد دامن)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر