تحریر: زمان جعفری
ترجمہ: شہزاد عرفان، عباس ݙاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 4
بورژوا دانشور قومیت کے حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر کی تخفیف میں مصروف رہتے ہیں اور ان کو غیر معقول اور ناقابل ادراک قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک قومیتی حقیقت کے سماجی وجود کا انکار کرتے ہیں۔
وہ ہمیشہ ایک قوم کے اندر نام نہاد اجتماعی مفاد اور یکجہتی کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک قوم کے اندر حریف طبقات کے مابین تمام تفریق کو دبا کر قیام امن کے امکانات پر غور کرتے رہتے ہیں۔ کسی ملک میں بورژوا قوم پرستی کو شاونزم اور آفاقیت پسندی کہا جاسکتا ہے۔
قوم اور قومی تعلقات کے حال اور مستقبل کے حوالے سے بورژوا محققین کے مطالعہ میں حقیقی سائنسی بنیادوں کا فقدان ہوتا ہے۔ ان کی آفاقیت پسندی کا محور محض ایک قومی ریاست ہوتی ہے لہٰذا والٹ روسو کے نزدیک قومی خود مختاری بین الاقوامی جنگوں اور سیاسی افراتفری کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ہنس مورگنتھاؤ کے نزدیک جوہری انقلاب کے بعد قومی ریاست متروک ہوچکی ہے۔
جیسا کہ صنعتی انقلاب آنے سے دو سو سال پہلے جاگیرداریت اپنا اثر کھو چکی تھی۔ لوئس سنائڈر بھی اس سے ملتی جلتی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ حالیہ تاریخی واقعات سے سیاسی، عسکری اور معاشی خودمختاری کے محدود ہونے سے قومی ریاست کے بڑھتے ہوئے دیوالیہ پن کا اظہار ہوتا ہے۔
ریمنڈ ارون کہتا ہے کہ جوہری عہد میں آزادی حاصل کرنے کی خواہش سیاسی افراتفری کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے اور یہ کہ متعدد نئی ریاستیں مبینہ طور پر مصنوعی نوعیت کی ہیں۔
وہ مغربی یورپ کی قومی ریاستوں کے تحفظ جس کے، اس کے خیال میں منفی اثرات ہونگے، پر بھی تحفظات کا اظہار کرتا ہے اور اس لئے وہ مشترکہ منڈی کے قیام پر زور دیتا ہے۔
وہ سمجھتا تھا کہ ترقی یافتہ صنعتی قوتوں (سابق حریفوں) کی جانب سے تشکیل کردہ یورپی فیڈریشن اپنی نوعیت کی پہلی فیڈریشن ہوگی اور اس سے ہمیشہ کے لئے مخاصمت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
انتھونی وینر کارپوریشنز کی اجارہ داری سے پر امید تھا اور اس کے خیال میں عالمی معاشی نظام کی تشکیل کے لئے "سرمایہ” بنیادی ذریعہ ثابت ہوسکتا تھا۔ ترقی پذیر ممالک کے سماجی تعلقات اور معیشت کو مبینہ طور پر جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے قومی خود مختاری کو رد کرنے والی تھیوریوں کی بنیاد پر بعض کرنسی نوٹوں کو اہمیت مل گئی۔
بورژوا دانشوروں کے یہ خیالات مارکس اور لینن کی قومی اور قومیتی تعلقات کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔
رجعتی بورژوا قوم پرستی اپنا اظہار مغرب کے بورژوائی نظریات پر مبنی آفاقیت پسندی میں کرتی ہے۔ پس ایک عالمی ریاست ایک عالمی حکومت کے نظریہ کی سب سے زیادہ آبیاری امریکہ میں نظر آتی ہے۔
یورپ کی رجعتی قوتیں متحدہ یورپ اور ماورائے قومی حکومت کے لئے کوشاں ہیں اور یورپی پارلیمنٹ سے زیادہ پر امید ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ مطلق قومی خودمختاری کا زمانہ گزر چکا ہے اور یہ کہ قومی ریاست کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔
یا مزید برآں ان کے سابق نوآبادیاتی ممالک کے لوگوں کی جانب سے ایسی قومی خودمختاری کی تو بالکل ضرورت نہیں۔ بورژوا نظریہ دان متحدہ عالمی سرمایہ دارانہ اشتراکیت کے امکان کو وجود میں لانے کی کوشش میں ہیں۔
قومی فنائیت کا نظریہ جدید نوآبادیات سے مغلوب لوگوں کی آفاقیت پسندی میں انضمام کے لئے ذہن سازی کرتا ہے۔ اس نظریہ کی وکالت کرنے والوں کا خیال ہے کہ دنیا کی ترقی کے اس مرحلے پر قومی اقدار کے تحفظ کی گنجائش نہیں بچتی اور یہ کہ قومی اقدار، سیاست اور معیشت کو یکجا کرنے کے اصول کلی طور پر متروک ہوچکے ہیں۔
اور آنے والے دنوں میں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر سرمایہ دار طبقہ لمبے عرصہ تک "قوم” کا دفاع نہیں کر سکے گا۔ ٹھیک اسی لمحے پورے پورے براعظم پر سرمایہ داریت کے پھیلائو کے نظریہ کا مسلسل دفاع کیا جا رہا ہے۔ عالمیت پسندی اور قومی فنائیت کے نظریات کی جڑیں سرمایہ کی اجارہ داری میں پیوست ہیں۔
قومی خودمختاری پہلے نمبر پر سرمایہ اور اجناس کی آزادانہ ترسیل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے جس سے شرح منافع کی افزائش رک جاتی ہے۔
دوسرے نمبر پر آفاقیت پسندی اور قومی فنائیت کے تصورات کو قومی حدود سے بلند کارپوریشنوں کی حمایت حاصل ہے جو کہ دراصل متعدد ترقی پذیر ممالک کی پالیسیوں اور معیشت پر قابض ہیں۔
تیسرے نمبر پر، نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سرمایہ دار طبقہ آفاقیت پسندی اور قومی فنائیت کی مدد سے اپنی جدید نوآبادیاتی حیثیت کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چوتھے نمبر پر ۔ زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام عالمگیریت اور قومی فنائیت کو عالمی سطح پر ابھرنے والی انقلابی قوتوں کو دبانے لئے بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
عالمگیریت اور قومی فنائیت دراصل قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور مارکس اور لینن کے نظریات کے بالکل الٹ ہیں۔ عالمگیریت اور قومی فنائیت کے تصورات قوم اور قومیت کے فرق کو جبری طریقے اور جبری انضمام سے فی الفور خاتمہ کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ مارکس ازم، لننن ازم کے نزدیک قوموں کا انضمام فطری طریقے سے ہوگا اور ایسا مستقبل بعید میں مکمل قومی آزادی اور قومی ترقی کی بنیاد پر ہوگا۔
پرولتاری بین الاقوامیت بنیادی طور پر بورژوا قوم پرستی کے بالکل الٹ ہے۔ پرلتاری بین الاقوامیت کا اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نظریاتی اصولوں، سیاسی، اخلاقی اور نفسیاتی رویوں سے قطع نظر کسی قوم کا محنت کش طبقہ ، دیگر قوموں کے پرولتاریہ کے مسائل کے حل کے لئے مشترکہ طور پر جدوجہد کرتاہے ۔
قومی سوال کے حل کے لئے قومی آزادی تحریکیں ہمیشہ سے زیادہ موثر ذرائع ہیں اور ان تحریکوں کا مقصد استحصالی قوتوں کو اکھاڑ پھینکنا ہے اور قومی آزادی اور سماجی ترقی کو یقینی بنانے کا عمل محنت کش طبقے کی سماجی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قومی تحریکیں مارکس اور لینن کے قومی سوال کی تاریخی طور پر مشروط اہمیت کوسمجھنے کی ضرورت کے تصور کی سچائی کا آئینہ دار ہیں۔ مارکس قومی آزادی کی تحریکوں کو "قومیت کی صوبائیت” پر فتح کی علامت سمجھتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:سرائیکی (وسیب)، سندھ ، بلوچستان اور قومی سوال(1)۔۔۔۔زمان جعفری
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر