نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوزیشن جماعتوں کے لاہور والے جلسے کو محض تماشائی کے طور پر دیکھنے کے لئے میرے اس شہر میں دو روزہ قیام کے دوران ایک ’’لطیفہ‘‘ بھی ہوا۔میرا جی اگرچہ اس سے گھبرا گیا۔
مذکورہ جلسے کی رپورٹنگ کے لئے ایک عالمی نشریاتی ادارے کے نمائندہ دوست لاہورجمخانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مال روڈ سے ظفر علی خان روڈ کی جانب مڑتے ہی وہاں داخل ہونے کا دروازہ لگا ہے۔
اتوار کی دوپہر انہیں کمپنی دینے وہاں چلا گیا۔ تین بجے کے قریب ’’خبر‘‘ یہ پھیلی کہ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایاز صادق کے گھر پر منعقد ہوئے ظہرانے میں شرکت کے بعد نماز عصر کے قریب ایک ریلی کی صورت وہاں سے جلسہ گاہ روانہ ہوں گے۔ صحافی کے لئے ممکنہ ریلی کے آغاز کی فوٹیج حاصل کرنا ضروری تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ گاڑی کے بجائے ایاز صادق کے گھر پیدل ہی چلا جائے جو اس سڑک کے اختتام پر واقعہ ہے۔
ہم ماسک لگائے اس گھر کی جانب چل رہے تھے تو پولیس کی چار پانچ جیپیں بھی وہاں جاتی نظر آئیں۔ نظر بظاہر وہ ممکنہ ریلی کو “Security Cover” فراہم کرنے وہاں جانا چاہ رہے تھے۔ ایاز صادق کے مکان سے چند میٹر فاصلے پر گاڑیاں روک کر مگر ان کے ڈرائیور مذکورہ مقام کا ’’پتہ‘‘ معلوم کرنا چاہ رہے تھے۔
راہ گیروں سے پولیس والوں کی جانب سے ایاز صادق کے گھر کا پتہ معلوم کرنا مجھے حیران کن ہونے کے بجائے مضحکہ خیز لگا۔ ایاز صادق کا گھر لاہور کے ایک مشہور جج سردار اقبال کے نام سے منسوب سڑک پر موجود ہے۔
وہ ایاز صادق کے سسر بھی تھے۔ ایاز صادق لاہور سے کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ 2013 سے 2018 تک اس ایوان کے اسپیکر بھی رہے۔ ’’سکیورٹی‘‘ کے لئے متحرک ہوئی پولیس کو ان کے مکان کا بخوبی علم ہونا چاہیے تھا۔ وہ مگر راہ گیروں سے اس کا پتہ معلوم کر رہے تھے۔
لاہور پولیس کی “Vigilance” کو بے نقاب کرنے کے لئے یہ واقعہ ’’دیگ کا دانہ‘‘ تھا۔ اس امر کی گواہی بھی کہ گوجرانوالہ اور ملتان کے برعکس پولیس اور انتظامیہ نے PDM کے لاہور والے جلسے کی بابت کامل بے اعتنائی اختیار کر رکھی ہے۔
واضح طور پر نظر آتی یہ بے اعتنائی اپنے تئیں اگرچہ قابل ستائش تھی۔ اس کی بدولت لاہور والے جلسے کی بابت ’’پلس مقابلے‘‘ والی فضا نہ بن پائی۔ شہر کا ماحول Combative یا جارحانہ نظر آنے کی بجائے Festive یا میلے جیسا بن گیا۔ اس موڈ کو عمران حکومت کے ترجمانوں نے لاہور والے جلسے کو ’’ناکام‘‘ ثابت کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ محض ایک شہری کی حیثیت میں تاہم میں حیران و پریشان ہوا کہ ’’مبینہ طور پر‘‘ سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو ایاز صادق کے گھر کا پتہ ہی معلوم نہیں تھا۔
’’محاذ جنگ‘‘ کی جانب نقشوں کے بغیر روانہ ہونے جیسا پیغام۔ پولیس کی جانب سے دکھائی ’’لاعلمی‘‘ کے علاوہ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور والے جلسے کی بابت ’’موڈ بنانے‘‘ کی حکمت عملی اختیار کرنے کے ضمن میں آخری لمحات پر فیصلے کرتے نظر آئے۔
لاہور کے باسیوں کی اکثریت اپنے تئیں یہ فرض کرچکی تھی کہ یہ دونوں رہ نما ایک بڑے جلوس کو ہمراہ لے کر جلسہ گاہ پہنچیں گے۔ بے تحاشہ افراد اس گماں میں مبتلا رہے کہ وہ ایاز صادق کے گھر سے روانہ ہوکر گڑھی شاہو جائیں گے۔
وہاں سے مینارِ پاکستان تک پہنچنے کے لئے وہ راستہ اختیار کیا جائے گا جو ریلوے سٹیشن سے تھانہ نولکھا پہنچ کر دو موریہ اور ایک موریہ پل کو پار کرتے ہوئے یکی دروازے اور شیرانوالہ گیٹ کے باہر موجود سرکلر روڈ سے شاہی قلعہ اور ماضی کے منٹو پارک تک لے جاتا ہے۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری اگر یہ راستہ اختیار کرتے تو کسی بھی صورت عصر کے قریب ایاز صادق کے گھر سے روانہ ہوکر مینارِ پاکستان میں عشاء کی نماز سے قبل داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
مجھے شبہ ہے کہ لندن میں بیٹھ کر لاہور والے جلسے کی Micromanagement کرتے نواز شریف نے اپنی دُختر کو حکم دیا کہ وہ ریلی کو بھول کر فاسٹ ٹریک لیتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچیں جہاں عصر کے قریب لوگوں کی متاثر کن تعداد جمع ہوچکی تھی۔ سردی اور کرونا کی دوسری لہر کے سبب پارک میں جمع لوگوں کو لمبے انتظار کی کوفت سے بچانا لازمی تھا۔ اپنے شبے کی تصدیق کی لیکن میں نے کوشش ہی نہیں کی۔ اپنے اندر موجود رپورٹر کو ان دنوں چھٹی پر بھیجا ہوا ہے۔
ایاز صادق کے گھر سے ریلی کے بغیر سرعت سے اقبال پارک پہنچ کر تاہم PDM کے رہ نمائوں نے حکومتی ترجمانوں کو ’’مزا‘‘ نہیں آیا والا پیغام اجاگر کرنے میں مزید مدد فراہم کی۔ حکومتی ترجمانوں کے دعوے کو کج بحثی سے جھٹلانے کے بجائے تسلیم کرلیتے ہیں کہ لاہوریوں نے نواز شریف کے ’’غدار بیانیے‘‘ کو حقارت سے مسترد کردیا۔ PDM کا لاہور والا جلسہ قطعی طور پر ناکام ہوگیا۔ یہ ’’آر یا پار‘‘ والا ماحول نہیں بنا پایا۔
حکومتی ترجمانوں کے بتائے اس بیانے کو تسلیم کرلینے کے بعد مگر سوال اٹھتا ہے کہ لاہور والے جلسے کو ’’ناکام‘‘ ثابت کرنے میں مزید وقت کیوں ضائع کیا جارہا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ PDM کا جلسہ پٹ گیا۔ وہ عمران حکومت کو مارچ 2021 سے قبل گھر بھیجنے میں ناکام رہے گی۔ اس مہینے سینٹ کا جزوی انتخاب بھی خیر و عافیت سے مکمل ہوجائے گا۔ ایوانِ زیریں کی طرح ایوانِ بالا میں بھی تحریک انصاف اور اس کے اتحادی مذکورہ انتخاب کے بعد اکثریتی جماعت بن جائیں گے۔
اپوزیشن جماعتیں قانون سازی کے حوالے سے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کے قابل نہیں رہیں گی۔ اپنے شکست خوردہ زخموں کو چاٹتے ہوئے 2023 کے عام انتخاب کا انتظار کرنے کو مجبور ہوجائیں گی۔ بنیادی سوال یہ منظر تسلیم کرنے کے بعد یہ اٹھتا ہے کہ مارچ 2021 تک عمران حکومت کیا کرے گی۔
یہ کالم لکھتے ہوئے میرے کمرے میں لگے گیس ہیٹر نے پھڑپھڑانا شروع کردیا۔ میں نے اسے خوف سے بند کردیا۔ دسمبر کے وسط میں گیس کی لوڈشیڈنگ گویا شروع ہوچکی ہے۔
معاشی امور پر کڑی نگاہ رکھنے والے میرے کئی قابل اعتبار صحافی دعویٰ کر رہے ہیں کہ جنوری کے مہینے میں گیس کی وافر مقدار میں فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عالمی منڈی سے بروقت سودا نہیں ہوا۔ سردی کی شدت آئندہ سال کے آغاز میں لہٰذا ناقابلِ برداشت محسوس ہونا شروع ہوجائے گی۔
2019 اور اس برس کے آغاز میں بھی یہی عالم تھا۔ آئندہ برس کے آغاز میں بھی جاری رہا تو حکومت کے بارے میں Feel Good فضا نہیں بن پائے گی۔ گیس کی ترسیل کے علاوہ سوال یہ بھی ہے کہ IMF کے اس مطالبے کو مزید کتنے ہفتے ٹالا جاسکتا ہے جو Cost Recovery کے نام پر حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں گرانقدر اضافے کو مجبور کر رہا ہے۔
سردی کی شدت کے موسم میں ممکنہ اضافہ بلکہ عام پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کو مزید پریشان کرے گا۔ مہنگائی کے علاوہ کرونا کی دوسری لہر کے ہوتے ہوئے شہری متوسط طبقے کی اکثریت یہ سوال بھی اٹھانا شروع ہوجائے گی کہ کرونا کی مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو کب تک میسر ہوگی۔
ٹھوس اعداد و شمار یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک ہی نہیں بلکہ ہمارا ازلی شریک یعنی بھارت بھی مارچ 2021 کے اختتام تک اپنے عوام کی بھاری بھر کم تعداد کو کرونا سے مدافعت والی ویکسین لگا چکا ہوگا۔ ہمارے ہاں اس کی وسیع پیمانے پر عدم دستیابی بھی Feel Good Factor کے تناظر میں پریشان کن سوالات اٹھائے گی۔ مقامی مسائل کے علاوہ افغانستان سے جڑا قضیہ بھی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ اس فیصلے پر ڈٹی نظر آرہی ہے کہ جوبائیڈن کے 20جنوری 2021 کے روز صدارتی عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل افغان مسئلہ ’’حل‘‘ کردیا جائے۔ جو ’’حل‘‘ اس نے سوچ رکھا ہے وہ مگر کس حد تک بارآور ثابت ہوگا۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کے بغیر خانہ جنگی بہت شدت بھی اختیار کرسکتی ہے جس کے منفی اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
ایران اور سعودی عرب کا جھگڑا بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اب ہمارے جگری یار ترکی کے صدر اردوان کی حکومت کے خلاف بھی اقتصادی پابندیاں لگادی ہیں۔ اسے گلہ ہے کہ نیٹو (NATO) کا ایک اہم رکن ہوتے ہوئے بھی ترکی نے روس سے میزائل کا جدید نظام خریدنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ترکی کے خلاف لئے اس فیصلے کی بابت پاکستان کو بھی واضح مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔
مذکورہ بالا پہلوئوں پر توجہ دلانے کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ حکومتی ترجمانوں کو کسی صورت قائل کیا جائے کہ وہ PDM کو ’’ناکام‘‘ ہوجانے کے بعد اعتماد بھری رعونت سے نظر انداز کرنا شروع ہوجائیں۔ ’’گڈ گورننس‘‘ کے ان پہلوئوں کو ڈھونڈنے اور اجاگر کرنے کی کوشش کریں جو میرے اور آپ جیسے عام شہریوں کو مارچ 2021 تک بے فکر ہو جانے کو مائل کریں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ