فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے لعل آج چھ سال بعد بھی اسی سوچ میں گم ہوں کہوں تو کیا کہوں؟ کروں تو کیا کروں؟ میرا تو آنگن بھی خالی اور کوکھ بھی خالی۔ بس یہ ظالم وقت ہے جو تھم سا گیا ہے، میری سماعتیں ہیں جو رک سی گئی ہیں، تمہاری آوازیں تھیں جو گم سی گئی ہیں اور میری ویران آنکھیں ہیں جو دروازے پر ٹک سی گئی ہیں۔ کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے ہر زخم کو مندمل کردیتا ہے لیکن کیا سچ مچ ایسا ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مجھے کیوں صبر نہیں آتا؟
کیوں میرا درد کم نہیں ہوتا یہ درد تو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یہ تو وہ آگ ہے جس نے میری زندگی کو جھلسادیا۔ میرے تو سونے آنگن میں صرف اداسی کا موسم ہے جو ازل تک کے لیے ٹھہر گیا ہے۔ یہ کون سا اندھیرا ہے جو چھٹ ہی نہیں رہا ہے یہ کون سی کربلا ہے کون سی قیامت ہے جو تھم ہی نہیں رہی۔ ہر صبح جب آنکھ کھولتی ہوں تو سوچتی ہوں پھر آنکھیں بند کرلوں تاکہ تم کو دیکھ سکوں تم سے بات کرتی رہوں۔ وہ بھی وقت تھا جب صبح اٹھتے ہی میرے دماغ میں پہلا خیال آتا تھا کہ تم کو اسکول بھیجنا ہے کہیں مجھے دیر تو نہیں ہو گئی
تمہارا ناشتہ بنانا ہے تمہارا لنچ بنانا ہے تم کو ڈانٹ ڈانٹ کر اٹھانا ہے اور سوکر اٹھنے میں تم کتنے نخرے کرتے تھے نا اب دیکھو آوازیں دیتے دیتے تھک جاتی ہوں مگر تم کب سن رہے ہو۔
تمہارے یونی فارم کو میں کیسے صاف ستھرا رکھتی تھی اس پر کبھی داغ نہیں لگنے دیتی تھی مگر یہ تو مجھے یہ تو نہیں پتہ تھا کہ تم سیاہی نہیں خون میں لت پت یونی فارم میں آؤگے اس کو دھونے کی ہمت تو آج بھی تمہاری ماں میں نہیں ہے۔ تمہارا ہنستا ہوا یونی فارم میں چہرہ میری آنکھوں میں ٹھہرا ہے لیکن آخری بار تمہارا گولیوں سے چھلنی خون میں لت پت چہرہ بند آنکھیں جیسے میرے دل کو چیر گیا ہے تمہارے جسم کے رستے زخم تو شاید اب سوکھ چکے ہوں گے مگر تمہاری ماں کی روح پر لگے یہ زخم ہمیشہ رستے رہیں گے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب تم نہیں آؤگے جب بھی بازار جاتی ہوں تمہارے لیے کچھ لیتی ہوں کیا کروں ماں ہوں نا۔ یہ جانتے ہوئے کہ تم اب نہیں رہے تمہاری تصویروں سے باتیں کرتی رہتی ہوں کہ بس کیسے بھی ہو یہ وقت گزرجائے مگر یہ وقت بھی نا ٹھہر ہی تو گیا ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی اب تم کو نہیں آنا پھر بھی ہر دوپہر تمہاری ماں اسکول سے تہمارے آنے کا وقت دیکھنا نہیں بھولتی کیاپتہ تم آہی جاؤ۔ یہ وہ بھیانک خواب ہو جس کے بعد تمہاری ماں کی آنکھ کھل جائے مگر تم تو بس مجھے اب میرے تصور میں ہی ملتے ہو تمہارے کپڑے تہماری ایک ایک چیز ویسے ہی سینت سینت کر احتیاط سے اب بھی رکھی ہیں تمہاری خوشبو ہر سو میرے ارد گرد پھیلی رہتی ہے۔
تمہارا لمس میں اب بھی محسوس کرتی ہوں جب پہلی بار تمہاری آہٹ میں نے اپنی کوکھ میں سنی تھی نا تو میں ڈر کے مارے پیر زمین پر نہیں رکھ رہی تھی کہ کہیں تم کو کچھ نہ ہو جائے یہ تو نہیں پتہ تھا پیروں میں روندی لاش کی صورت میں مجھے ملوگے۔
یاد ہے نا تم کتنے نخرے کرتے تھے یہ نہیں کھانا مجھے یہ کھانا ہے اور میں کیسے نوالے بنا بنا کر اپنے ہاتھ سے تم کو کھلاتی تھی۔ جب پہلی بار تم کو گود میں لیا تھا نا میں نے تو اپنی سب تکلیف بھلا کر دعا مانگی تھی یا اللہ اس کو سلامت رکھنا یہ تو ہمارے بڑھاپے کا آسرا ہوگا اور اب دیکھو نا تمہاری ماں بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی تک رہی ہے نا لیکن تم تو نہیں ہو۔ جب تم کو پہلی بار گود میں لیا تھا نا تو ایسی ہی سرد ترین تھا دسمبر جیسے اب سے چھ سال پہلے تھا میں نے تم کو اپنے سینے میں چھپالیا تھا کہ کہیں تم کو سردی نہ لگے مگر دیکھو نا اب بھی موسم اتنا ہی سرد ہے لیکن میری گود تو خالی ہے۔
اس دسمبر کا قہر تمہاری ماں پر برس گیا اگر آج تم ہوتے نا تو اٹھارہ سال کے ہوتے میں چھ سال پہلے کیسے نظر بھر کر دیکھتی تھی نا تم کو کہ میرا بیٹا جوان ہو رہا ہے اس کی دلہن میں اپنی مرضی کی لاؤنگی آخر میرا تو اکلوتا ہے میرے کون سے اور بیٹے ہیں مگر دیکھو اب تو میں اکیلے اس کمرے سے اس کمرے گھوم رہی ہوں ڈھونڈ رہی ہوں تم کو لیکن تم تو مجھے مل ہی نہیں رہے نا۔ میں تو بچپن میں بھی تم کو چھوڑتی نہیں تھی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں تم گم نہ ہوجاؤ مگر ایسے گم جاؤگے یہ تو سوچ نہیں سکتی تھی۔
جب پہلی بار تم کو اسکول چھوڑا تھا نا تم سے زیادہ میں رورہی تھی کہ پتہ نہیں کیسا ہوگا اسکول کیسے رہو گے تم تمہارا بستہ کیسے ٹھیک کر کے رکھتی تھی کم مارکس پر ہلکا ساڈانٹ دیتی تھی لیکن پھر خود ہی پڑھانے بیٹھ جاتی تھی۔ اب کیا کروں میرے پاس تو بس تمہاری بوسیدہ کتابیں اور خون آلود یونی فارم ہی رہ گیا ہے۔ کیسے اتارا ہوگا تم کو قبر میں کس دل سے تمہارا باپ تم کو اکیلے قبرستان میں چھوڑ کر آیا ہوگا اتنا بھاری جنازہ کسی باپ کو نہ اٹھانا پڑے اتنا بڑا ظرف بس خدا کسی کو ماں کو نہ دے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اپنے بیٹے کو مٹی میں رولتا دیکھے۔
میں تو تم کو بایک نہیں چلانے دیتی تھی کہ اگر چوٹ لگے گی تو کیا کرونگی۔ مگر میرا حوصلہ دیکھو میں نے تم کو خون میں لت پت دیکھا پتہ نہیں میرا دل پھٹ کیوں نہیں گیا میں زندہ ہوں لیکن زندہ نہیں ہوں کیونکہ میری سانسیں تو تم ساتھ لے گئے کیا تھا اتنی سردی میں نہ بھیجتی اسکول تم کو لیکن تمہارا جانا تو ٹھہر گیا تھا تم کو تو جانا ہی تھا تو تم چلے ہی گئے
میں تو تہماری نظر اتارتی رہتی تھی کہ میرے لعل پر ماں صدقے ماں کا دل جان صدقے ہر نماز کے بعد بس یہ دعا مانگتی تھی کہ میرا لعل سلامت رہے۔
اس کو زندگی کی ہر خوشی ملے وہ ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر جیتا رہے تم کو ماں کی بھی عمر لگے مگر اب چھ سال سے یہ سوچ رہی ہوں میرے لعل تجھ کو میں کیا دعا دے سکتی ہوں میرے لعل تجھے اب ماں کی کون سی دعا لگے گی
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان کا سمندری نمک بہترین زرمبادلہ ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ