نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھی نفرت و عقیدت کے موسم میں ’’صحافت‘‘ نام تھا جس کا ‘‘ عرصہ ہوا ہمارے ہاں سے ہی نہیں دُنیا بھر کے میڈیا کے ’’گھرسے‘‘ جا چکی ہے۔ 2016 کا انتخاب جیتنے کے بعد ٹرمپ نے امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تو ایک ٹویٹ لکھ کر بڑھک لگادی کہ اس کی حلف برداری کا ’’جشن‘‘ منانے امریکی عوام کی ایک ریکارڈ ساز تعداد وائٹ ہائوس کے باہر جمع ہوگئی تھی۔
اس کے مخالف ٹی وی اداروں نے بے تحاشہ میڈیا فوٹیج دکھاتے ہوئے اصرار کیا کہ مذکورہ دن فقط ’’چند ہزار لوگ‘‘ ہی نظر آئے تھے۔ ٹرمپ اور اس کے حامی مگر ’’ریکارڈ بنانے‘‘پر مصر رہے۔ Live شوز میں جب مختلف اینکروں نے ماضی کی فوٹیج دکھاتے ہوئے امریکی صدر کے ترجمانوں کو دیوار سے لگانا چاہا تو Alternate Facts کی ترکیب ایجاد ہوگئی۔ ’’حقیقت‘‘ اپنی جگہ کوئی معروضی شے نہ رہی۔ ’’حقائق‘‘کے ’’متبادل حقائق‘‘ دریافت ہوگئے۔
’’حقائق‘‘ کا بے دریغ انداز میں اپنی پسند کا بیانیہ فروغ دینے کے لئے PDM کے اتوار کے دن لاہور میں ہوئے جلسے کی بابت ’’رپورٹنگ‘‘ کے دوران بھی احمقانہ استعمال ہوا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ کے اس ضمن میں ’’تجزیے‘‘ سنتے ہوئے میں اپنی ’’صحافت‘‘ کے بارے میں واقعتا پریشان ہوگیا ۔ کئی مرتبہ اس پیشے کو تقریباََ جنونی انداز میں اختیار کرنے کے بارے میں شرمساری کا احساس ہوا۔ بنیادی Spin یا جھگڑا ’’کتنے لوگ تھے؟‘‘ والے سوال سے جڑا ہوا تھا۔
نواز شریف کے جن ’’حامیوں‘‘ کو اس دور میں بھی آزاد میڈیا میں رونمائی کی اجازت میسر ہے وہ مینارِ پاکستان کے احاطے میں ’’ریکارڈ ساز‘‘ تعداد جمع ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ حکومتی مخالفین کی نگاہ ’’چھ ہزار‘‘ سے زیادہ لوگ دیکھ نہیں پائی۔ ’’غیر جانب دارصحافیوں‘‘ نے لاہور والے جلسے کا مقابلہ عمران خان کے اکتوبر 2011 والے جلسے سے کرنا شروع کردیا۔
ایسے ساتھیوں کی ایک مؤثر تعداد حال ہی میں اسی مقام پر خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ کے لئے جمع ہوئے ہجوم کا حوالہ بھی دیتی رہی۔ ایک حوالے سے واجب پوائنٹ یہ بھی رہا کہ اتوار کے روز جمع ہوئے ہجوم کی تعداد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ عمران خان کے 2011 میں اس مقام پر ہوئے جلسے میں موجود شرکاء کا مقابلہ حاضرین کی اس تعداد سے ہونا چاہیے جو ’’گیارہ سیاسی جماعتیں‘‘ مل کر دکھانا چاہ رہی تھیں۔
اس تناظر کو اجاگر کرتے ہوئے “Poor Show” کی داستان بنانا مزید آسان ہوگیا۔ میں جماندرو لاہوری ہوں۔ میرے مرحوم والد کو سیاسی جلسوں میں شرکت کا جنون لاحق تھا۔ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتے۔ ان دنوں لاہور میں ’’تاریخ ساز‘‘ جلسے فقط موچی دروازے کے باہر والے باغ میں ہوا کرتے تھے۔
مادرِ ملت نے1964 کے صدارتی انتخاب کے دوران مال روڈ کے آغاز میں واقعہ ناصر باغ میں ہجوم جمع کرنے کی روایت متعارف کروائی۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی باغ کو بھرتے ہوئے اپنی مقبولیت ثابت کرتے رہے۔
اپریل 1986 میں لیکن ان کی دُختر طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تو مینارِ پاکستان کے چمن میں ایک تاریخ ساز ہجوم دکھایا۔ عمران خان صاحب نے اکتوبر 2011 میں ان کے بنائے ’’ریکارڈ‘‘ کو توڑنے کی کوشش کی۔ میری بدقسمتی یہ رہی کہ موچی دروازہ، ناصر باغ اور مینارِ پاکستان کے بیشتر جلسوں کا بذاتِ خود شرکت سے مشاہدہ کیا ہے۔
اپنے تجربے سے Eye Count کی جو صلاحیت حاصل کی ہے اسے بروئے کار لائوں تو PDM کے لاہور والے جلسے کو ’’ناکام‘‘ ثابت کرنا کم از کم میرے لئے ممکن نہیں۔ اس جلسے کے انعقاد سے ایک روز قبل ہفتے کی سہ پہر اور رات کے ڈیڑھ بجے مینارِ پاکستان کے احاطے میں کافی وقت گزارہ تھا۔
وہاں کی گہماگہمی اور ہلچل ایک بھرپور Momentum کا عندیہ دیتی نظر آئی۔ یہ Momentum قطعاََ حیران کن نہیں تھا۔ PDM کے حال ہی میں پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہوئے جلسوں کے برعکس مینارِ پاکستان والے جلسے کو ’’روکنے‘‘ کے لئے مقامی پولیس اور انتظامیہ ہرگز متحرک نظر نہیں آئی۔
ریاستی مزاحمت کے بغیر نواز شریف کے حامیوں کے لئے ’’اپنے شہر‘‘ میں متاثر کن تعداد جمع کرنا جوئے شیر لانے کے ہرگز مترادف نہیں تھا۔ وہ اس ضمن میں ’’ناکام‘‘ نہیں ہوئے۔
’’کتنے لوگ تھے؟‘‘ والے سوال کا معروضی اور ٹھوس جواب حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس ’’رقبے‘‘ کو طے کرلیا جائے جو مینارِ پاکستان کے احاطے میں لوگوں کو جمع کرنے کے لئے باقی بچا ہے۔
ماضی کا منٹو پارک جہاں مینارِ پاکستان 1960 کی دہائی میں تعمیر ہونا شروع ہوا ایک وسیع و عریض باغ ہوا کرتا تھا۔ بتدریج اس کے بیشتر حصے کو لوہے سے بنائے جنگلوں اور کنکریٹ سے بنے ’’کارپارک‘‘‘ کی نذر کردیا گیا ہے۔
کئی برسوں تک اس میدان میں فقط ایک ’’گیٹ‘‘ سے داخل ہوا جاتا تھا جو بادشاہی مسجد کے عین مقابل سڑک پار کرنے کے بعد نظر آتا تھا۔ اب اس میدان میں داخلے کے چار سے زیادہ گیٹ ہیں۔ اس کے اِردگرد لگائے جنگلے کو پھلانگ کر اندر کودنا تقریباََ ناممکن ہے۔
اتوار کے جلسے میں داخلہ صرف ایک ہی ’’گیٹ‘‘ سے ممکن تھا۔ ’’گیٹ نمبر3‘‘ کو VIP بناکر قائدین کی آمد کے لئے مختص کردیا گیا تھا۔ سردی اور کرونا کی دوسری لہر کے خوف کے باوجود حاضرین کی مؤثر تعداد مینارِ پاکستان کے احاطے میں عصر کے قریب جمع ہو چکی تھی۔
دوسرے شہروں سے آئے شرکاء کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے کارکنوں نے نوازشریف کے حامیوں کو بچھاڑدیا۔ راوی کے کنارے سے مینارِ پاکستان کو لے جانے والی سڑک پر JUI کے جھنڈے والی بسوں کی طویل قطاریں موجود تھی۔
15سے زیادہ منٹوں تک پیدل چلتے ہوئے مجھے فقط یہ قطار ہی نظر آ ئی۔ JUI کی بسیں صرف خیبرپختونخواہ کے شہروں ہی سے نہیں آئی تھیں۔ ایک بھاری تعداد بالائی سندھ کے شہروں، قصبات اور خاص طور پر شکار پور سے لاہور لائی گئی ۔
JUI کے مقابلے میں دیگر جماعتیں ایسا اہتمام کرتی نظر نہیں آئیں۔ مسلم لیگ (نون) نے مجمع جمع کرنے کے لئے مقامی ایم این ایز اور ایم پی ایز پر انحصار کیا۔ وہ اپنے ’’حلقوں‘‘ سے لوگوں کو گاڑیوں اور ویگنوں میں بھر کر لائے۔
زیادہ تر شرکاء کا تعلق مگر لاہور کے قدیمی محلوں سے تھا۔ وہ مینارِ پاکستان تک پہنچنے کے لئے پیدل سفر کو ترجیح دیتے رہے۔ ’’کتنے لوگ تھے؟‘‘ والے سوال کے مقابلے میں ذاتی طورپر میں اس Feel کو دریافت کرنا لازمی شمار کرتا ہوں جو کسی شہر میں ہوا جلسہ Project کرتا ہے۔
اس تناظر میں اعتراف کرنا لازمی ہے کہ ابھی تک مینارِ پاکستان کے احاطے کو محترمہ بے نظیر بھٹو ہی نے اپریل 1986 میں لاہور ایئرپورٹ سے بذریعہ مال روڈ اس مقام تک پہنچنے کے بعد واقعتا ’’بھر‘‘ دیا تھا۔
اس جلسے کا Dominant موڈ Excitement تھی جو محترمہ نے اپنی Presence سے جنرل ضیاء کے جبر کے مقابلے میں اجاگر کی۔ عمران خان کے اکتوبر2011 والے جلسے میں شرکاء کی تعداد مذکورہ جلسے سے میرے Eye Count کے مطابق ہر صورت آدھی تھی۔
اس جلسے نے مگر جوانی سے وابستہ بھرپور توانائی یا Energy کو موسیقی اور Event Management کے جدید ترین ذرائع کے استعمال سے خیرہ کن انداز میں اجاگر کیا تھا۔ PDM کے لاہور والے جلسے کی اجتماعی Feel ان دو جلسوں کے مقابلے میں ایک میلے جیسی تھی۔
موڈ جارحانہ نہیںFestive تھا۔ اتوار کے دن آخری پھیرا میں نے مینارِ پاکستان کے گرد شام ساڑھے چھ بجے کے بعد لگانا شروع کیا۔ گاڑی کو شاہی قلعے کی دوازے کے ساتھ بنائے ’’روشنائی گیٹ‘‘ کے قریب کھڑا کیا اور مینارِ پاکستان کے احاطے کے گرد دائرے میں ایک گھنٹے سے زیادہ پیدل سفر کرتا رہا۔
کرونا کے خوف سے مینارِ پاکستان کے اندر داخل نہیں ہوا۔ ماسک لگانے کے باوجود مجھے احاطے کے باہر موجود کئی افراد نے پہچان کر سیلفیاں بنانے کو مجبور کیا۔ان کی ’’محبت‘‘ نے مزید پریشان کردیا۔ دائرے میں ایک گھنٹے سے زیادہ ’’پیدل مارچ‘‘ اس امر کی گواہی دے رہا تھا۔
اتوار کے دن مینارِ پاکستان کے گرد ایک متاثر کن ہجوم جمع ہوگیا تھا۔ پھل اور چٹ پٹی چیزیں فروخت کرنے والوں نے بھرپور’’ سیزن ‘‘ لگایا۔ حتیٰ کہ وہاں لوگ ’’صدقے‘‘ کے لئے بکرے بھی بیچتے نظر آئے۔
میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق اہم ترین بات یہ تھی کہ شام سات بجے کے بعد اندرون شہر کے نوجوانوں کی کئی ٹولیاں مسلم لیگ نون کے جھنڈے لہراتے ہوئے اس جلسے میں داخل ہو رہی تھیں۔ دیگر جماعتوں کے کارکن جبکہ گھروں کو لوٹنا شروع ہوگئے تھے۔
’’تازہ ٹولیوں‘‘ نے واضح الفاظ میں پیغام دیا کہ وہ صرف نواز شریف کا ممکنہ خطاب جلسے میں بیٹھ کر براہِ راست سننے کے خواہاں ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ اس خطاب کو ٹی وی پر دکھانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ سوشل میڈیا پر انحصار ’’مزا‘‘ نہیں دیتا۔
ان تازہ دم ٹولیوں کی تعداد ہمارے عوام کے ایک مؤثر حلقے کے لئے نواز شریف کے ’’بیانیے‘‘ کی قوت اجاگر کر رہی تھی اور اس حقیقت کو عیاں بھی کہ ہمارا میڈیا کتنا ’’آزاد اور بے باک‘‘ ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر