تحریر: زمان جعفری
ترجمہ: شہزاد عرفان، عباس ݙاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 3
زبان اور وطن :
نمایاں پہلو (اقتصادی عوامل ، تاریخی فطرت)
اس علامت نویسی سے قوم کی نمایاں اشکال کی موزوں وضاحت ہوتی ہے جو کہ بیک وقت دیگر گروہوں کو سماجی اور تاریخی طور پر ایک دوسرے سے ممیز بھی کرتی ہے۔ پس قوم کے تصور کی تشریح کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قوم طے شدہ عوامل کی بجائے تغیر پذیر عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔
لوگ بالخصوص مادی تعلقات اور مفادات کی بنیاد پر یکجا ہوتے ہیں۔ اس عمل کو مزید پرکھنے کے لئے اور سماجی ترقی کی شرائط کا جائزہ لینے کے لئے اینگلز مجموعی طور پر وطن اور آبادی کے حجم کو پیش نظر رکھتا ہے۔
مارکس نے صوبائیت پر قومیت کی فتح کے طور پر قومی آزادی کی تحریک کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ اینگلز کے مطابق ایک قوم کے لئے تاریخی مدارج کا طے کرنا ضروری ہے جبکہ قوم کی تشکیل کے لئے ریاست کا ہونا ناگزیر شرط نہیں ہے۔
قومیت
قومیت معاشرے کی ایک مستقل شکل ہے جو کہ قبائلی نظام کے خاتمے پرنمودار ہوئی۔ قوم کی طرح قومیت بھی ایسا سماجی ، تاریخی مظہر ہے جس کی بنیاد مشترکہ زبان، مشترکہ وطن، مشترکہ معاشی مفادات، مشترکہ سیاسی سماجی اور ثقافتی اقدار اور مشترکہ قومی نفسیات پر ہوتی ہے ۔
قومیت سماجی اور قومی تعلقات کی سطح پر قوم سے مختلف ہوجاتی ہے۔ نظریاتی و اصولیاتی طور پر فرد واحد کی قومیت کا تعین کرنے کے لئے سماجی اور نسلی گروہوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
قومی گروہ
قومی گروہ قوم یا قومیت کا چھوٹا (بعض اوقات مقداری حوالے سے بہت زیادہ) حصہ ہوتا ہے۔ جو کسی بھی ملک کے قدیمی باشندے نہیں ہوتے۔ قومی گروہوں کے قوموں یا قومیتوں کے ساتھ سماجی اور نسلی تعلقات انتہائی کمزور اور عموماً رسمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
قومی گروہ کا قومی تشخص نسل در نسل کمزور ہو کر اس قوم اور قومیت کے اثرات قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں جس قوم یا قومیت کے درمیان وہ رہ رہے ہوتے ہیں۔ آنے والی نسلیں اس قوم کی زبان، رسم و رواج اور ثقافت اپنانا شروع کردیتی ہیں۔
قومی گروہوں کا اپنی قوم کے ساتھ معاشی، سماجی اور سیاسی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ درحقیقت وہ اپنی قوم سے جدا ہوچکے ہوتے ہیں۔
نسلی گروہ
نسلی گروہ لوگوں کے چھوٹے گروہ ہوتے ہیں جو عموماً منتشر ہوتے ہیں اور ان میں سماجی اتحاد کا فقدان ہوتا ہے۔ ان گروہوں کو عموماً نسلی خدوخال، زبان، وطن، مشترکہ اقدار ، تاریخ، ثقافت، رہن سہن اور رسم و رواج کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے۔
اصولی طور پر نسلی گروہ قبیلے اور خاندان کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں جو کہ ماضی میں نسلی، جغرافیائی بقاء کے لئے لمبے عرصے تک موجود رہے۔
کسی بھی مخصوص قومی ڈھانچہ میں درج بالا عناصر کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر نسلی جغرافیائی گروہ بھی موجود ہوتے ہیں جو کہ قوم یا شاذونادر قومیت کے اجزائے ترکیتی ہوتے ہیں، جو دراصل اس قوم میں ڈھل چکے ہوتے ہیں۔
تاہم وہ روز مرہ رہن سہن، رسم و رواج جیسے معاملات میں بدستوراپنی امتیازی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ نسلی جغرافیائی گروہ عموماً عرصہ دراز سے ایک خطے پررہ رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مخصوص لہجے ، روایتی لباس اور لوک مت سے پہچانے جاتے ہیں۔
نسلی اور نسلی جغرافیائی گروہوں میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ تاہم اول الذکر ایسے ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر ان کے سماجی اور نسلی اعتبار سے مختلف ہوتا ہے جبکہ موخرالذکر ایسے ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں جو نسلی اعتبار سے ان سے مطابقت رکھتا ہے۔
نسل کا تعین پہلے پہل سماجی اور طبقاتی عوامل سے ہوتا ہے لیکن جب قوم تشکیل پاجاتی ہے تو نسل اور سماجی عوامل بمشول طبقاتی عوامل براہ راست جڑ جاتے ہیں جو کہ قبل از قومیت معاشرہ کو سماجی نسلی معاشرہ کہلوانے کی اجازت دیتے ہیں۔
نسلی عوامل ایسی اقدار ہیں جو زبان ، وطن اور ثقافت مخصوص لوک داستانوں، پہناوے، خوراک، گھروں کی اندرونی سجاوٹ، رسم و رواج اور روایات میں جھلکتی ہیں اور جو صدیوں کے ارتقائی عمل میں نمو پاتی ہیں اور اور جو ان مخصوص لوگوں کے شعور اور نفسیات کی عکاسی کرتی ہیں اور ایک قوم کے خدوخال تراشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
قوم کی فطرت میں نسلی عوامل اپنی سماجی فطرت تبدیل نہیں کرتے بلکہ بالخصوص غیر طبقاتی خصوصیات تاریخی طور پر ارتقاء پذیر رہتے ہیں۔ قومیت کے اندر نسل نسبتاً مستقل درجہ ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ بھی تغیر پذیر ہوتا ہے (مثال کے طور پر زبان، رسم و رواج اور روایات کے ارتقاء اور سماجی کردار میں) قومیت کے اندر سماجی اور طبقاتی درجے اور نسلی درجے موجود ہوتے ہیں۔
جو بعض اوقات اضافی طبقاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ قومیت میں طبقاتی عنصر زیادہ لچک در ہوتا ہے اور اس کا کردار، علامات مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:سرائیکی (وسیب)، سندھ ، بلوچستان اور قومی سوال(1)۔۔۔۔زمان جعفری
(جاری ھے)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا