نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زبانوں کا حُسن۔۔۔گلزار احمد

جب میری پوسٹنگ ہھاولپور ہوئی تو وہاں کی سرائیکی تو شھد کی طرح میٹھی ہے ۔ سب سے پہلے اس وقت حیرانی ہوئی کہ ریڈیو سٹیشن کا ہر بندہ میرا استقبال یہ کہ کر کرتا کہ۔۔دلھا سئیں کیا حال ہے

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن میں ایک دکان سے گزر رہا تھا جہاں مرغی کے چوزے فروخت ہوتے ہیں۔ دکاندار صرف سرائیکی زبان جانتا تھا اور اس کے پاس ایک افغان آدمی چوزے خریدنے کے لیے کھڑا تھا مگر دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ رہے تھے۔ مجھے دکاندار نے اشارہ کیا کہ اس بندے کی بات سمجھ نہیں آ رہی آپ مدد کر دیں۔۔ میں نے افغان سے پوچھا تو اس نے چوزوں کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
دا خاندان کئی یا نہ کئی۔۔
مطلب یہ چوزے انڈے بچے دینگے یا نہیں۔ میں نے دکاندار سے پوچھ کے افغان کو بتایا کہ بچے دینگے۔
پھر افغان نے اردو میں آرڈر دیا ۔۔
دو مرد اور آٹھ بیویاں دے دو ۔۔
یعنی دو نر اور آٹھ مادہ چوزے ۔
میں نے پوچھا یہ شریعت کے مطابق آرڈر ہے اس نے کہا ہاں۔۔۔
جب میری ملتان پوسٹنگ ہوئی تو میرے حلقہ احباب میں رانگڑ اور روہتکی زبان بولنے والے بہت دوست تھے۔ مجھے وہ دوست اور ان کی زبان کے لطیفے بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ ایک لطیفہ ایک فوجی کا ہے جو گھر آئینہ لے کر آیا جو کم لوگوں کے پاس تھا یوں سمجھیں ابھی ایجاد ہوا تھا۔اس زبان میں کیا لطف ہے۔۔
۔جب سیسے نئے نئے نکلے تھے تو اک پھوجی پھوج میں سے ایک سیسہ لے آیا اور لے آ کےگھر میں الماڑی میں دھر دیا۔الماڑی کا لا دیا تالا۔ ناوے دھوے اور سیسہ دیکھے اور پھر الماری کا تالا مند دے۔ اس کی بیوی نے سوچیا یہ کیا چیج ہے الماری میں دیکھ کر تالا لگا دیتا ہے اس نے پوچھی کی لے آیا تو اس میں؟۔پھوجی نے کہا کچھ نا ہے تیرے مطلب کی چیج نہ ہے۔ایک دن پھوجی سیسہ دیکھے الماری کا تالا لانا بھول گیا۔بیوی بھاگی بھاگی گئی اور سیسہ اٹھایا اپنا منہ دکھیا اس نے تاں کھڑی کھڑی چلکی ماری۔رے میں برباد ہو گئی۔۔ رے میں لٹ گئی رے ناس جاوے اس کا۔۔یہ سن کر اس کی ساس بھاگی بھاگی آئی۔ یو بولی بیٹی کی ہویا۔ بولی ماں تیرا بیٹا نئی بُوہ لے آیا۔ ساس بولی نئی بُوہ لے آیا؟کدھر ہے؟ وہ الماڑی میں دھری ہے اس کو بٹھا کے روز تالا لگاوے ہے ۔آج وے تالا لانا بھل گیا اور منے دیکھ لیا۔ سس بولی میں دیکھوں کون سی ہے وے رنڈی۔۔بڈھی نے کھولی الماڑی۔ اٹھایا شیشہ اور اپنا منہ دیکھا اور ماتھے پہ چاٹ ماری اور کہا اگر ڈُبن لگ گیا تھا تو کم سے کم اپنی عمر کی لے آتا یو میرے جیسی بڈھی کی دیکھی تنے۔۔۔
جب میری پوسٹنگ ہھاولپور ہوئی تو وہاں کی سرائیکی تو شھد کی طرح میٹھی ہے ۔ سب سے پہلے اس وقت حیرانی ہوئی کہ ریڈیو سٹیشن کا ہر بندہ میرا استقبال یہ کہ کر کرتا کہ۔۔دلھا سئیں کیا حال ہے ۔۔ مجھے دلھا بنے عرصہ ہو چکا تھا لیکن اچانک دلھا بننے کا مزہ اس شخص کو پتہ ہوتا ہے جو اچانک دلھا بن جائے جیسے میں بن گیا۔ سارا دن سٹیشن پر دلھا سئیں کی آوازیں سن کر میں خیالوں میں سچ مچ دلھا بنا پھرتا اور اسے نشے کو لے کر جب واپس گھر آتا تو وہی پرانی بیوی میرا استقبال کرتی ۔میں سر کو دو تین جھٹکے دیتا کچھ ہوش ٹھکانے آتے تو اپنی اوقات میں پہنچ جاتا۔
ایبٹ آباد جب گیا تو اڈے پر سوزوکی کنڈکٹرز کی پہلی آواز سنی ۔۔۔ ماسی
جُلسو ۔۔اور یہ آواز آج تک ذھن میں گونجتی رہتی ہے۔ راولپنڈی والوں کی زبان میں اچھنا اور گچھنا بہت پیارے الفاظ تھے جو شروع میں تو سمجھ نہ آئے لیکن پھر ہم سمجھنے لگے۔ ہمارے پنیالہ ٹاون کے ساتھ پہاڑی پانی کے نہر نما گزر گاہ ہے۔ یہاں پنیالہ کے لوگ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں اور میلے کا سماں بن جاتا ہے اس اجتماع کو پنیالہ مازدیگر کا افسانوی نام دیا گیا ہے۔جو بڑا رومینٹک ہے۔

About The Author