محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں اوائل دسمبر کی خنک رات ان چند مریضوں پر بھاری گزری جو کورونا اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے آکسیجن سپلائی پر زندہ تھے۔ آکسیجن ختم ہوئی تو دم توڑ گئے۔ اپنی نوعیت میں یہ ایک شاکنگ واقعہ تھا، کسی بھی سماج کے لیے بھیانک خواب کی طرح۔
کوئی تصور کرسکتا ہے کہ اتنے بڑے اور اہم ہسپتال نے تین سال پہلے آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی سے معاہدہ ختم کرنے کے بعد نیا معاہدہ کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔زبانی کلامی سال سال کی توسیع دی جاتی رہی اور تین ماہ پہلے وہ بھی ختم ہوگئی۔ آکسیجن جتنی ضرورت تھی، اس سے کم منگوائی جاتی رہی۔ اضافی آکسیجن سٹور کرنے کا مناسب بندوست نہیں تھا۔ کسی قسم کا بیک اپ نہیں بنایا گیا۔
کسی بھی مریض کے لواحقین نے کبھی سوچا ہوگا کہ روز کا سودا سلف منگوانے والے سفید پوش گھرانوں کی طرح اس ہسپتال میں بھی روزکے روزآکسیجن سپلائی منگوائی جاتی ہوگی؟ کسی روز گاڑی خراب ہوجائے یا کچھ اور گڑ بڑ ہوتب مریض قدرت کے سپرد۔
مرنے والے ایک دوسالہ بچے کے والد نے بتایاکہ ان کا بیٹا آکسیجن نہ آنے کے باعث گھبرا کر ماسک منہ سے ہٹاتا، وہاں پر موجود مریض کی ماںاسے ماسک پہننے کی تلقین کرتی۔ اسے کیا خبر کہ آکسیجن ہی نہیں آرہی۔ بچہ تڑپ تڑپ کر فوت ہوگیا۔ ہم میں سے جن کے چھوٹے بچے ہیں، اس ہولناک منظر کو تصور میں لائیں،خدا نہ کرے ان کے پیارے کبھی اس کیفیت کا شکار ہوں۔پڑھ کر عجیب سا ڈپریشن طاری ہوگیا۔
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
خیبر ٹیچنگ ہسپتال صوبے کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے۔ ٹیچنگ ہسپتال کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ میڈیکل کالج منسلک ہے اور وہاں سینئر ڈاکٹرز کی بھرپور فیکلٹی موجود ہوگی۔ اگر اتنے بڑے ہسپتال کا یہ حال ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صوابی، ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت، دیر ، بونیر ، کوہستان جیسے نسبتاً پسماندہ اضلاع کے ڈسٹرکٹ، تحصیل ہسپتالوں میں کیا صورتحال ہوگی؟
اس معاملے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی نااہلی ، بدانتظامی اور چیک اینڈ بیلنس سسٹم کی عدم موجودگی واضح ہوگئی۔ پی ٹی آئی پچھلے سات برسوں سے خیبر پختون خوا میں حکمران ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں واقع صوبے کے دوسرے سب سے بڑے ہسپتال کی ایسی حالت کی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے، مگر اس افسوسناک واقعے کو صرف سیاسی بلیمنگ اور پوائنٹ سکورنگ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
یہ دراصل صوبائی معاملہ بھی نہیں۔ ایسا کوئی بھی افسوسناک واقعہ لاہور ، کراچی اور اسلام آباد میں بھی ہوسکتا تھا۔ اس سے ملتے جلتے واقعات ہوتے رہے ہیں۔بات غیر انسانی رویوں، عادتاًغفلت اورکرپشن کے عمومی کلچر کی وجہ سے بنیادی چیزوں کی چیکنگ نظرانداز کرنے کی ہے۔
ہمارے ہاں ایک خاص قسم کی سفاکی، بے رحمی اور بے شرمی عود کر آئی ہے۔ لوگ اپنی بنیادی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے۔ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ ان کی غفلت سے کسی کی جان جا سکتی ہے۔ وہ اپنے مفادات کی دلدل میں دھنسے مست پڑے رہتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ انہیں معلوم ہے وہ جرم کر کے بچ نکلیں گے، سزا نہیں ملے گی۔
ایسے کئی واقعات ہم نے لاہور میں دیکھے۔
چند سال پہلے شہر کے بہت مہنگے نجی ہسپتال میں چار پانچ سالہ بچی ایمانے ملک کو موقعہ پر موجود ڈاکٹر نے سکون آور انجیکشن کااوور ڈوز دے کر ہلاک کر دیا ۔ بچی کے والدین صاحب حیثیت تھے، انہوں نے بڑا شور مچایا، میڈیا میں بات آئی۔ سوشل میڈیا نیا نیا آیا تھا، وہاں مہم چلی۔
لاہور کی سڑکوں پر” ایمانے ملک کو انصاف دو“کے پوسٹر لگے،خاصا عرصہ تک کئی موٹر رکشے ایسے نظر آتے رہے، جن کے پیچھے یہی پوسٹر لگا تھا۔ ایمانے ملک بہت خوبصورت، معصوم صورت بچی تھی، جس نے اس کی تصویر دیکھی، وہ کلیجہ تھام کر رہ گیا۔
عید کا موقع تھا، کسی طرح بچی کے ہاتھ پر گرم پانی گر گیا، ابتدائی طبی مدد کے لیے وہ اسے نجی ہسپتال لے گئے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر چھٹی پر تھا،وہ اپنی جگہ ایک دوست ڈاکٹر کو ڈیوٹی دینے کا کہہ گیا۔وہ ہسپتال کا ملازم نہیں تھا، مگر اس سے کسی نے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور موصوف ایمرجنسی میں ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ ناتجربہ کاری کے باعث اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ بچی کو کتنی ڈوز کا انجیکشن دینا ہے۔
اوورڈوز سے معصوم پھول فوری مرجھا گیا۔ ڈاکٹر فرار ہوگیا ، اندرون سندھ سے تعلق تھا، بعد میں پتا چلا کہ وہ شاید بھارت چلا گیا یا کہیںاور نکل گیا۔ ہسپتال پر بہت تنقید ہوئی کہ اصل ذمہ داری تو ان کی تھی۔ چند دن شور مچا ، پھر خاموشی چھاگئی۔ اس دوران نجی ہسپتال نے اپنے اثرورسوخ سے ایک دو ٹاک شوز بھی اپنے حق میں کرا ڈالے ۔
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
میں جس اخبار میں کام کرتا تھا، وہاں اس پر دو کالم لکھے، کئی فیس بک پوسٹیںبھی لکھیں،مگر کچھ ہی دنوں بعد معاملہ دب گیا۔ وہ ہسپتال پہلے کی طرح پوش علاقے کے مکینوں کا مرکز ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
لاہور میں ایک سے زیادہ بار بچوں کے مشہور پارکوں میں جھولے ٹوٹ کر گرے اور ان میں ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک واقعے میں اس زمانے کے معروف بیوروکریٹ کے بھائی کا مشہور واٹر پارک ملوث تھا۔ پتہ چلا کہ کئی برسوں سے کسی نے جھولے کے پیچ ،نٹ بولٹ وغیرہ چیک ہی نہیں کیے، زنگ کے باعث ٹوٹ گیا۔
یہ چیزیں چیک کرنا جن محکموں کی ذمہ داری ہے،ان کے اہلکار پیسے لے کر آنکھیں بند کر لیتے تھے۔ سانحہ جب ہوا ، تب چند دنوں کے شور اٹھا۔ پھر سب پہلے کی طرح ہوگیا۔
پشاور ہسپتال میں ہونے والی اموات کا دکھ ان کے گھر والوں تک ہی محدود رہے گا، چند ہفتوں بعد کسی کو یہ سانحہ یاد ہی نہیں رہے گا۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بدترین غفلت کے ذمہ دار اہلکار دو چار مہینے معطل رہ کر بحال ہوجائیں گے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آکسیجن صرف پشاور کے اس ہسپتال میں ختم نہیں ہوئی بلکہ ہمارا سسٹم بہت پہلے اپنی اس بنیادی ضرورت سے محروم ہوچکا ہے۔ہمارا نظام جو لوگوں کی زندگی اور فلاح وبہبود کا ذمہ دار ہے،وہ عرصے سے سانس نہیں لے رہا۔ ہم ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں آکسیجن سپلائی بند ہونے کو المیہ سمجھ رہے ہیں۔ بات اس سے بہت بڑی اور سنگین ہے۔ کاش ہم اس کا احساس کر پائیں۔
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر