رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فطرت کے قریب‘ ندی نالوں کے سنگم پر درختوں کے جھنڈ کے کنارے اور عام دیہات میں رہنے والے ہی جانتے ہیں کہ خزاں کا موسم کیا کیا رنگ بکھیرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ درختوں اور جھاڑیوں کے پتے اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد ٹہنیوں سے سرگوشی میں اجازت طلب کر کے ایک اور منزل کی طرف روانہ ہوں‘ اپنے اپنے منفرد رنگوں میں دھیمے دھیمے الوداع ہوتے ہیں۔
کئی دنوں تک نئے رنگوں میں ٹہنی سے لپٹے رہتے ہیں کہ پورے موسم کی رفاقت اور ہر رگ و ریشے میں آب و خون کی رسانی کے احسان کا بوجھ تعلق توڑنے پر آمادہ نہیں ہونے دیتا۔ اس طرح جیسے دلہن کہیں دور جانے کے لئے آہوں اور سسکیوں میں طالبِ دعا ہو‘ نئے ٹھکانے کے لئے۔
پتوں کی منزل زیادہ دور نہیں ہوتی۔ اپنے محسن درخت کے قدموں میں ہی جاں نچھاور کر ڈالتے ہیں۔ نمک حلالی کی اس سے بڑی مثال شاید ہی کہیں اور مشاہدے میں آئے۔ زمین پر پڑے پڑے مٹی میں اپنا جسم و روح جذب کر ڈالتے ہیں۔ تحریف و تحلیل میں کئی ماہ گزر جاتے ہیں۔ زمین پر آ رہنے کے بعد کیڑوں مکوڑوں کو ڈھانپے رکھتے ہیں۔ ان کو اپنی آغوش میں لئے رکھتے ہیں۔ تہہ در تہہ‘ حشرات الارض کے لئے سردیوں میں محفوظ پناہ ثابت ہوتے ہیں
۔
رنگ برنگے پتوں کی یہ قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ مٹی میں مل کر بھی تھکے ماندے درختوں کو نئی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی موٹی چادر زمین میں نمی بھی برقرار رکھتی ہے تاکہ درختوں کے حصے کا پانی مناسب مقدار میں انہیں ملتا رہے۔ جب مٹی میں مل کر یہ پتے مٹی کی ہیئت تبدیل کرتے ہیں تو خوراک بن کر بہار میں نئے آنے والے پتوں اور ان کو سہارا دینے والی ٹہنیوں میں نئی روح پھونک دیتے ہیں۔
رنگ برنگے پتوں کی یہ قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ مٹی میں مل کر بھی تھکے ماندے درختوں کو نئی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی موٹی چادر زمین میں نمی بھی برقرار رکھتی ہے تاکہ درختوں کے حصے کا پانی مناسب مقدار میں انہیں ملتا رہے۔ جب مٹی میں مل کر یہ پتے مٹی کی ہیئت تبدیل کرتے ہیں تو خوراک بن کر بہار میں نئے آنے والے پتوں اور ان کو سہارا دینے والی ٹہنیوں میں نئی روح پھونک دیتے ہیں۔
خزاں کے پتوں کے جنم و وصال کے لا متناہی سلسلے نے ہی روئے ارض کے حسن کو برقرار رکھا ہوا ہے‘ کرۂ ارض پہ جنگلات کو سنبھالا ہوا ہے تاکہ ہمارے موسموں‘ ہوائوں اور تباتاتی تنوع کا توازن بگڑ نہ جائے۔ کہیں بگڑتا نظر آ رہا ہے تو ایسا اس فطری نظام کو محفوظ رکھنے میں ہماری ناکامیوں کی وجہ سے ہے‘ بلکہ قدرتی وسائل کے بے تحاشا ضیاع اور بے دریغ استحصال کے باعث ہے۔
کسی ایک موسم کا‘ خصوصاً پاکستان میں‘ کسی اور موسم سے مقابلہ کوئی باذوق شخص نہیں کرے گا۔ ہر موسم کی اپنی کیفیت ہے‘ اپنا رنگ ہے‘ اپنا حسن ہے‘ اپنی الگ دلکشی کے بے بہا خزانے ہیں۔ ہمیشہ گزارش کرتا ہوں کہ دل و دماغ کو کشادہ کریں گے تو فطرت اپنے حقیقی رنگوں میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہو گی۔ اپنی روح کو اندھیروں سے نکال کر آفاق میں پھیلی روشنی کی جگمگ پر نظر دوڑائیں گے تو ہر پتے اور ہر پھول میں الگ اور جداگانہ لطف محسوس کریں گے۔ تھوڑا سا فطرت شناسی کی طرف مائل ہوں تو مصنوعیت کی دھول خود بخود آپ سے الگ ہو جاتی ہے۔
بات خزاں کی ہو رہی تھی کہ آج کل ہر جگہ اسی کے رنگ ہیں۔ جس طرح انسانوں‘ جانوروں‘ پرندوں کی نسلیں ہوتی ہیں‘ اسی طرح درختوں کی بھی کئی انواع ہیں۔ کئی اقسام کے درختوں کو اکٹھا کسی ترتیب میں یا ترتیب کے بغیر دیکھیں تو ان میں سے ہر ایک اپنا الگ حلیہ‘ قد و قامت‘ تنوں اور ٹہنیوں کی ساخت‘ پتوں کی بناوٹ رکھتا ہے۔ ان کے پتوں کے رنگ اور ان پر کھلنے والے پھولوں اور پھلوں کی ساخت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
یہ سب آسمان کے پس منظر میں فطرت کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ اس کے بیان کے لئے اس خاکسار کے پاس نہ تو الفاظ کی وسعت ہے اور نہ ہی اس کے اظہار پر ملکہ حاصل ہے۔ بہت کچھ مشاہدے سے تعلق رکھتا ہے‘ اور ہم صرف اس کی طرف دعوت دے سکتے ہیں کہ ہر شخص اس کی لذت اور تاثیر اپنے فطرت سے لگائو کی نسبت سے محسوس کرتا ہے۔
پاکستان کی وسعتوں‘ جغرافیائی تنوع اور اس کی مٹی نے صدیوں سے درختوں کی ایسی اقسام پیدا کی ہیں کہ ہر سال ایک سے ہزاروں کا پھیلائو ہوتا ہے۔ ہمارے تمام مقامی درختوں کو اکیلا پن بالکل پسند نہیں‘ بالکل ہماری قبائلی جبلت کی طرح۔ ہم بھی تو اپنا کنبہ آباد کرتے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے بستی‘ گائوں اور ایک طاقت ور قبیلہ۔ محسوس کیا ہے کہ درختوں میں بھی انسانوں اور جانوروں کی طرح افزائشِ ذات اور تحفظ و سلامتی کا شعور موجود ہے۔ خیر شعور تو ہماری فضیلت کی نشانی ہے۔
بس استعارے کی صورت استعمال کرنے کی جسارت کر بیٹھا ہوں۔ فطرت نے اپنی ہر تخلیق کو خود حفاظتی اور پھیلائو کی قوت سے نوازا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسان اور حیوان تو ایک ایک یا دو دو کی صورت میں بڑھتے ہیں‘ درخت سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے ارد گرد جھنڈ کھڑے کر دیتے ہیں۔ جہاں کہیں ہم نے ان کی زندگیوں کا تحفظ کیا ہے‘ انہیں پھلتا پھولتا دیکھا ہے۔ زمین کی زرخیزی اور موسموں میں اعتدال‘ دونوں پرندوں اور جانوروں کے لئے خوراک کا سامان تو فراہم کرتے ہی ہیں‘ لیکن جو ہماری روح کو سرشاری اور آنکھوں کو تراوٹ اور تازگی بخشتے ہیں‘ وہ کہیں اور کہاں؟ یہ سکون اگر میسر ہو گا تو وہ قدرت کے کسی اور شاہکار‘ دریا‘ سمندر‘ پہاڑ‘ ریگستان اور شاید صحرائوں کی پُراسرار تنہائیوں اور خاموشیوں میں۔
فطرت پسند شمالی امریکہ میں خزاں کے رنگوں کو دیکھنے کے لئے قافلوں کی صورت نکلتے ہیں۔ اگرچہ ہر شہر میں رنگ برنگ لرزتے پتے اپنی ایک الگ کیفیت پیدا کرتے ہیں‘ لیکن پہاڑی سلسلوں کی ڈھلوانوں پر سینکڑوں میلوں پہ پھیلے ہوئے قدرتی جنگلات انسان کو طلسماتی دنیا میں اڑا لے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جوں جوں آپ شمال کی طرف جائیں‘ درختوں کے رنگوں میں خزاں کی کیفیت طاری دیکھیں گے۔ خوبانی کے درخت آج کل کے دنوں میں زرد‘ سنہری اور گلابی چادریں اوڑھ لیتے ہیں۔ ایسے خوبصورت رنگوں کا امتزاج انسان برسوں کی ریاضت کے بعد بھی نہیں پیدا کر سکتا۔
آڑو اور آلو بخارا کے درختوں کے پتوں کے رنگ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ آڑو تو لگتا ہے کہ کسی نے پیتل کے چھوٹے چھوٹے ایک جیسے ٹکڑوں کو گہری پالش کر کے زمین پر بچھا دیا ہو۔ آلو بخارا کے پتے ابھی تک درختوں پر اپنی ٹہنیوں سے چمٹے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کی جامنی‘ زرد اور گلابی دھاریں ان کے اگلے سفر کی خبریں دے رہی ہیں۔ ناشپاتی کے پتوں کی ساخت دیگر پھل دار درختوں کے پتوں کی نسبت ذرا موٹی ہوتی ہے‘ اس لئے یہ ایک نہیں بلکہ تین رنگوں میں ڈھلتے ہیں‘ کچھ حصہ سنہری‘ کچھ زرد اور کچھ کے کنارے گلابی مائل ہیں۔
ہمارے جنگلی درختوں کے پتے یکدم نہیں بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر رنگ تبدیل کرتے ہیں۔ ان میں صرف پاپولر اور چنار چند دنوں میں پورے سال کا بوجھ اتار کر ہلکے ہو رہتے ہیں۔ چنار اپنے آپ کو گہری بھوری تقریباً پکی ہوئی گندم کے رنگ میں رنگی چادر میں لپٹائے کچھ دن جاڑے سے محفوظ رہتا ہے۔ سنہرے بھورے پن کا سفر صرف چند ہفتوں میں‘ تقریباً پندرہ نومبر کے بعد شروع ہو کر ایک ماہ میں درختوں کو ڈھانچے میں تبدیل کر دیتا ہے۔
پوٹھوہار کے علاقوں میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ننگ دھڑنگ درختوں پر نہ کبھی بہار آئی ہے اور نہ کبھی گل کھلے ہیں۔ جونہی پُرانے پتے اپنی زندگی کی سب منزلوں سے گزر کر مٹی بنتے ہیں‘ ٹہنیوں میں نئے پتے شگوفوں کی صورت سرما میں گہری نیند سو جاتے ہیں‘ بہار میں دیکھیں گے کہ وہ کیسے آنکھیں کھول کر آہستہ آہستہ سردی میں ٹھٹھرتے درختوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔
گنجائش نہیں کہ شہتوت‘ انگور‘ ارجن اور چینی ٹالی کے شوخ گلابی اور سنہری رنگوں کی جاری فطری نمائش کا ذکر تفصیل سے کر سکتا۔ آج کل کوئی درخت ایسا نہیں جس کے پتوں کے گرنے کی سرسراہٹ اور بدلے بدلے رنگ آپ کو اپنی طرف متوجہ نہ کریں۔ لیکن ہمیں فرصت کہاں؟ نہ جانے ہم اپنی ہی فطرت سے کیوں بیگانے سے ہوتے جا رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر