رؤف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گن پوائنٹ پہ بلوچ سرنڈر نہیں کرتا! کھجور کے باغ سے انگور کا پھل اتارنے کی خواہش رکھنے والے یہاں معتبر ٹھہرے۔ تنکوں سے بنے چھونپڑوں میں رہتے ہیں اور پوچا کرتے ہیں آگ کی، انجام کا تصور زیادہ محال نہیں۔ کتنا دلنشیں سپنا ہے کہ لال رنگ ہاتھوں پہ سجائیں گے اور لوگ حنا کی خوشبو اور خون کی بو میں فرق نہیں کر پائیں گے۔ لال رنگ ہتھیلی پہ صرف حنا کا بھلا لگتا ہے، جن کے ہاتھ پیر اور سر کے بالوں تک میں رنگ انسانی خون سے آیا ہو ان کو کیا نام دیا جائے۔
بات بہت سادہ ہے سیاست اور طاقت کے مرکزوں تک پہنچنے کیلیے انسانی خون کو سیڑھی بنانے والے تاریخ کے کوڑا دانوں میں بد بو چھوڑتے ہوئے ملتے ہیں۔ صدیوں کی تاریخ پڑی ہے، کوئی بھی رہزن رہنما کا روپ دھارے زیادہ دیر اپنا بہروپ چھپا نہیں پایا۔
حقیقت پسندی کے قائل ہوئے بنا بہتری کی امید بہت فضول ہے۔ اور ایک بات مگر دھیان میں رکھنے کی یہ بھی ہے کہ زیادہ وقت نہیں بچا۔ دھونس، دھمکی، دھاندلی، گالی اور گولی کا دھندہ بھی زیادہ دیر چلتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا۔ کچھ تلخ سی باتیں ہیں مگر میرے نزدیک ان کو کنسیڈر کیے بنا اس بھنور سے نکلنا بھی محال ہے۔
ہم اس وقت بحثیت ریاست ایک بھنور میں پھنس چکے ہیں۔ نیتیوں پہ شک نا بھی کیا جائے اہلیتوں پہ سوال ضرور اٹھتے ہیں۔ بلوچستان کی گلیوں میں بہتے خون کی کیا جسٹیفیکشن ہے، غدار ہیں، ملک دشمن ہیں، انڈین ایجنٹ ہیں وغیرہ وغیرہ، یہ سب اب گھسے پٹے جملے ہیں اور ان سے منزل کا گماں کیا جا سکتا ہے پائی نہیں جا سکتی۔ خون بہا ہے، کوئی تدبیر کرو کہ اس رنگ کی سرخی مدہم پڑے۔
بلوچ بہت سادہ اور جذباتی قوم ہے، صرف سازش کا روڑہ ذہن سے نکال کر نیت سے جاو رستہ نکلے گا۔ لیکن ان کی سائیکی سمجھو، ان کے کلچر کو پرکھو، اور ان کی تاریخ کا مطالعہ کرو۔ جبر کو بلوچ نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری میر گل خان نصیر کی کتاب "بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار” میں سے ایک واقعہ بیان کرتا ہے کہ جلیانوالہ باغ سانحہ کے مرکزی مجرم جنرل ڈائر نے جب بلوچستان پر لشکر کشی کی تو بلوچ انتہائی محدود وسائل کے باوجود ایک عورت گل بی بی کی قیادت میں لڑا ہے۔
انگریز سے قبل بھی بلوچ نے ہر جگہ مزاحمت کی ہے لیکن شکست تسلیم نہیں کی
انگریز سے قبل بھی بلوچ نے ہر جگہ مزاحمت کی ہے لیکن شکست تسلیم نہیں کی۔ تم بس اس کی نفسیات اور تاریخ کو تعصب کا چشمہ اتار کر پڑھو۔ نیت کو ٹھیک کرو اور ان سے باضابطہ بات کرو۔ بات کرو گے تو بات چلے گی اور بات چل نکلی تو بات ضرور بنے گی۔
ہر چیز ہندوستان کے کھاتے میں ڈال کر کبوتر کی طرح آنکھیں موند لینے سے بلا نہیں ٹلے گی۔ ہندوستان نے بھی اپنی فاشسٹ اصلیت دنیا پہ آشکار کر دی ہے۔ کوئی بے وقوف نہیں ہے کہ ایک جبر سے چھٹکارے کیلیے دوسری وحشت کے گڑھے میں گرے۔ ہندوستان بھی کوئی فلاحی ریاست نہیں ہے وہاں پر بھی وحشیانہ جبر کا نظام رائج ہے۔
اگر تو ہندوستان والی سازشی تھیوری میں رتی برابر بھی سچائی ہے تو پھر یہ بھی آپ کی بہت بڑی ناکامی ہوئی کہ وہ آپ کے سوشل بانڈز توڑ کر اندر سرایت کر گیا۔ یہ صرف ایک چالاک اور شاطر وکیل کی اپنے مقدمے کو مضبوط بنانے کیلیے دلیل تو ہو سکتی حقیقت نہیں۔ سچ کی شمع اٹھاو، جو جھوٹ کے بھانبھڑ سے بہت طاقتور ہوتی ہے۔ ایک شمع جو سچ کی دیا سلائی سے جلائی گئی ہو اور اس میں تیل خلوص نیت کا پڑا ہو تو یقین مانیں کئی طوفانوں کے مقابل جلنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
بلوچستان میں بندوق برداری بند کرنا ہو گی۔ ٹینک کھیتیاں اجاڑتے ہیں، اگر ہریالی لانی ہے تو محبت اور شگوفے چھوڑتی گفتگو کا آغاز کرو۔ بلوچ کو جتنا دباو گے اتنا ابھر کے آئے گا یہ اس کی نفسیاتی انفرادیت ہے ۔ بندوق سے اس کا رشتہ صدیوں کا ہے اس سے اس کو ڈرانا ممکن نہیں۔ بظاہر سخت ، چہرے پہ ناگواری کا اظہار لیے یہ بلوچ اندر سے بہت نرم ہے۔
حالات کے جبر نے اس کو ایسا بنا دیا ہے، تلخیوں کی نا ختم ہونے والی تاریخ نے اسے اس طرح کر دیا ہے ورنہ بلوچ ایسا نہیں ہے۔ سازشیں کر کے اس سے اس کی شناخت چھیننے کی بجائے اس کی شناخت تسلیم کر لو یہی تمہاری بقا کی ضمانت بنے گا۔ تم اس کی عزت نفس بحال کر دو یہ تمہیں تکریم کے تخت پہ بٹھائے گا۔
بلوچ کو تقسیم کرنے کی سازشی تھیوریز کو بلوچ رد کرتا ہے۔ اور جان لو کہ یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ ان کی خواہشوں کا احترام کرو اگر احترام کی خواہش رکھتے ہو۔ بہت ہو گیا اب تھوڑا سا خلا میں قلعے تعمیر کرنے کی بجائے زمین پر گدان بناو۔
آپ کو اپنی تزویراتی پالیسی بدلنی ہو گی۔ محبت کے ہتھیاروں سے خود کو لیس کرو، ان میں بہت طاقت ہوتی ہے، یہ سنگدل سے سنگدل انسان کو بھی رام کر سکتے ہیں۔ بلوچوں کے سینوں میں گولیوں سے چھید کر کے دیکھ لیا اب ان کے دلوں میں پیار کی مدھر بانسری کے سر سے راستہ بنانے کی کوشش کرو۔ ہر بار دھوکہ اور فریب کی چانکیائی سیاست کی آنکھ سے بلوچستان مسئلے کو دیکھا گیا۔ ایک بار صرف ایک بار بلوچستان کو حقیقت اور امن کی آنکھ سے بھی دیکھ لو۔
نواب نوروز خان کے قصے سے بد اعتمادی، سازشی انداز سیاست اور دھوکے بازی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا۔ ان مسلسل فریبی چالوں نے بلوچ کے ذہن میں ایک مخصوص احساس محرومی اور غلامی کے احساس کو پروان چڑھایا۔ جو آپ کے عمل سے روز بروز پختہ ہوتا جا رہا ہے۔
خیر بخش مری نے آپ کے ساتھ چلنا چاہا, آپ نے اس کو بند گلی کا راستہ دکھا دیا، لاہور کے کالجوں میں تعلیم حاصل کرتا شوخ نوجوان چڑھتی عمر کے ساتھ آپ سے مایوس ہو گیا اور عشق کے اس راستے پر چل نکلا جہاں کانٹوں پر چلنا تھا، مگر بے اعتبار رویوں، تضحیک آمیز روشوں اور ہر صورت فتح کرنے کی خواہش نے، خیر بخش مری کو آپ نے خود سے بہت دور کر دیا۔
میر غوث بخش بزنجو نے محبت کا ہاتھ بڑھایا لیکن آپ کی طرف سے انتہائی حقارت سے جھٹک دیا گیا۔ مفاہمت اور معتدل سیاست کا پیامبر مرا تو آپ سے مکمل مایوس ہو چکا تھا۔ غوث بخش بزنجو ایک مضبوط فیڈریشن کا پر جوش حامی تھا اور اپنی تمام زندگی اس مقصد کیلیے وقف کردی مگر اس کے ہاتھ کیا آیا سوائے ایک آزرو کے جو وہ دل میں لیے اس جہان سے کوچ کر گیا۔
میر گل خان نصیر نے شعر کہے، شعور دینے کی بات کی، بلوچ کو جوڑنے اور ریاست کے ساتھ مضبوط اور قابل احترام رشتہ استوار کرنے کی کوشش کرتے کرتے میر گل خان بھی ویسے ہی نامراد ٹھہرا جیسے باقی بلوچ اکابرین۔
نواب اکبر خان بگٹی ایک پڑھا لکھا اور دانش ور ٹرائبل سردار تھا۔ ریاست کے ساتھ اس کی وفاداری بعض اوقات ضرورت سے زیادہ رہی۔ انہوں نے کئی مواقع پر قومی مجرموں کے ہاتھ تک مضبوط کیے۔ بھٹو دور میں گورنر شپ لینے کا فیصلہ یقینن قوم دوست اور جمہور دوست نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کافی دفعہ اس طرح کے کمپرومائزز کئے۔
مقصد ان کا بھی کسی طرح عزت نفس کی بحالی کے ساتھ ساتھ بلوچ اور فیڈریشن کے درمیان تعلقات کی بحالی تھا۔ اپنی تمام تر وفاداریوں کے ساتھ بھی بگٹی صاحب کا انجام بھی باقی بلوچ رفقاء جیسا ہی ہوا۔
عطاء اللہ مینگل بھی غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر، اکبر خان بگٹی اور خیر بخش مری کی طرز فکر کے ساتھ جڑے ہوئے بلوچ قائد تھے۔ ان تمام بے رخیوں اور زیادتیوں نے ان کا اعتماد بھی متزلزل کر دیا۔ ایک اکٹیو سیاسی زندگی کو تیاگ کر اب برسوں ہوئے وہ خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔
یقینا ان کے دل میں بھی اپنے گم شدہ بیٹے کی یاد سوئیاں چبھوتی ہو گی اور وہ اپنے تئیں دو آنسو بہا کر اس جبر کو یاد کرتے ہوں گے۔
تیسری نسل آنے کو ہے اور بلوچ کے ساتھ ریاستی سطح پہ پالیسی میں کوئی بدلاو نہیں۔ وہی لفاظی، وہی توپوں کی گھن گرج اور وہی مہروں کے ذریعے حقیقی بلوچ کو کارنر کرنے کی روش جاری ہے۔ میر حاصل خان بزنجو بھی موت سے قبل بے وفائی اور تضحیک کے نشتر سہہ کر گیا۔
اب اختر جان مینگل اور ڈاکٹر مالک چوکوں، چوراہوں پر اپنے پرکھوں کا مقدمہ لیے جبر کے نشتر سہہ رہے ہیں۔ جیسے حالات جا رہے ہیں ان کےلیے بھی وفا نبھاہنے کے بدلے رسوائی کی چادر تیار ہے۔
اب بس کردیں جناب! اب نا آپ میں وہ جوش بچا ہے اور نا بلوچ میں وہ ظلم سہنے کی سکت۔ اب معاملات کو سدھارنے کی بات کریں۔ بلوچ کے دل بڑے ہیں اور ظرف بھی لامتناہی ہے، آپ پہل کریں اور یقین رکھیں کہ یہ نا تو آپ کی تضحیک کرے گا اور نا ہی آپ کو دھوکا دے گا۔
بلوچ مفاہتی سیاست کی بھی ایک تاریخ رکھتا ہے اور اس خطے میں اس کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ یہ جب کسی معاملے پر صلح کرتا ہے تو پوری نیت اور دل کے ساتھ کرتا ہے اور اس کو نبھاہتا بھی ہے۔ اس لیے اب سچ کا دامن تھام لیجئے، مان لیجئیے، اور لفظوں سے نہیں عملی طور پر معافی مانگ کر نئے دن کی شروعات کیجیے۔
بلوچ جس قدر بدلہ لینے میں مشہور ہے ویسے ہی اس کی معافی کا اخلاقی معیار بھی نمایاں طور پر انفرادی نوعیت کا ہے۔
بس ایک بات ذہن نشین رہے کہ بلوچ گن پوائنٹ پہ کبھی سرنڈر نہیں کرتا، تاریخ اس بات کا برملا اظہار کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کوڑو فقیر۔۔۔ ڈاکٹر رؤف قیصرانی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ