مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تمھیں دیکھ کر مجھے اپنی سابق گرل فرینڈ یاد آگئی۔” کیتھ صاحب نے گلوگیر لہجے میں کہا۔
میں گھبرا گیا۔ اسٹئرنگ پر جمے ہاتھ کپکپا گئے۔ گاڑی لہرا گئی۔
"جس شام زیادہ پی لوں تو سر چکرانے لگتا ہے۔” کیتھ صاحب بڑبڑائے۔
"کیا آپ کی گرل فرینڈ بھی میری طرح ادھیڑ عمر تھی، بال سفید تھے اور اوبر چلاتی تھی؟” میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں۔ وہ تمھاری طرح ترک تھی۔ ترکی والے بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ لیکن کٹر مسلمان۔ اپنے مذہب کے بارے میں بہت حساس۔” کیتھ صاحب نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔
میں نے اپنے بارے میں تصحیح کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کے بجائے سوال کیا، "ترک گرل فرینڈ سے دوستی کیوں ختم ہوئی؟ یقیناً وہ شراب پینے پر خفا ہوتی ہوگی؟”
کیتھ صاحب بولے، "نہیں تو۔ ہم دونوں کی تو دوستی ہی شراب خانے سے شروع ہوئی تھی۔ دونوں کو ایک جیسی کاک ٹیل پسند تھی۔”
"پھر؟”
"پانچ سال تک دوستی برقرار رہی۔ پھر میں نے شادی کی پیشکش کی۔ اس انتہاپسند عورت نے شرط عائد کی کہ کنورٹ ہوجاؤ کیونکہ مسلمان غیروں سے شادی نہیں کرتے۔ میں نے انکار کردیا۔ کنورٹ ہوجاتا تو قیامت کے دن مسیح کو کیا منہ دکھاتا؟ اس کے بعد ہماری راہیں جدا ہوگئیں۔”
کچھ دیر خاموشی رہی۔ میں ایک سوال اور کرنا چاہتا تھا۔ پوچھنے کا حوصلہ کرتا رہا۔ گاڑی منزل پر پہنچی تو سواری کے اترنے سے پہلے پوچھا، "اس عظیم ترک خاتون نے کبھی ہاتھ تو نہیں لگانے دیا ہوگا؟”
کیتھ صاحب جذباتی ہوگئے۔ آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگے، "ہاں۔ جب سے دوستی ختم ہوئی ہے، نہ وہ خود کو ہاتھ لگانے دیتی ہے اور نہ ہمارے دونوں بچوں کو۔ تم مسلمان بہت ظالم ہوتے ہو۔”
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر