قاسم سیال
آجکل ملک عزیز میں کرونا اور جلسوں کا راج ہے۔ ایک جلسے کا تذکرہ انجام کو پہنچتا ہے تو دوسرا اپنے پورے جوبن کے ساتھ رونق لگانے آجاتا ہے یوں تو گوجرانوالہ ‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور کے جلسے شرکت نفوس کے حوالے سے بڑے جلسے تھے مگر وہ سب یک روزہ تھے۔ ملتان کا جلسہ اپنے اندر یوں انفرادیت لایا کہ حکومت وقت کی منتشر پالیسی کے سبب تین روزہ ہو گیا بلکہ آفٹر شاکس کے حوالے سے دیکھا جائے تو ابھی تک چل رہا ہے ۔
قسمت سے بزدار سرکار کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے بلکہ دکھانے کیلئے کہ وہ وزیراعلیٰ ہیں شوق چرایا تھا جس کا خاتمہ بھی خود انہی کے ہاتھوں ھنڈیا کے بیچ چوراہے ٹوٹنے سے ہوا۔ کئی اضلاع کی پولیس فورس ہزاروں کی تعداد میں ملتان منگوا لی گئی۔ سٹیڈیم کو تالے لگا دئیے گئے اور بجلی بند کر کے پانی چھوڑ دیا گیا اور اپوزیشن کو واضح پیغام دیا گیا کہ جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
شہر میں کنٹینر جلسہ گاہ کے اطراف میں کھڑے کر دئیے گئے حتیٰ کہ ڈیرہ غازیخان ڈویژن سے لوگوں کی آمد کو روکنے کیلئے پل چناب پر بھی کنٹینر سے استفادہ کیا گیا۔ شہر کے اطراف کی تمام سڑکوں پر پولیس کی چیکنگ شروع ہو گئی کہ کوئی قافلہ کہیں سے بھی پہنچنے نہ پائے۔ حکومت کی دھمکیاں دل دہلا دینے والی تھیں مگر اپوزیشن کی پیپلزپارٹی جو کہ اسکی میزبان بھی تھی کا کہنا تھا کہ جلسہ ہر صورت میں ہو گا۔
یہ اور بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس بھی پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا گیا اور جیالے اپنے دل کے پھپھولے نہ جلا سکے کہ اس یوم تاسیس پر وہ تمام جماعتیں بھی ایک پلیٹ فارم پر کندکے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو گئیں جن کیخلاف پی پی پی اور جو پاکستان پیپلز پارٹی کیخلاف جدوجہد کرتی رہی ہیں یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گے محمود و ایاز۔ جب ہر طرف سے شیلنگ‘ لاٹھیوں سے مسلح پولیس کے دستے شہر میں نظر آئے تو مولانا فضل الرحمن صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ ڈنڈوں کا جواب ڈنڈوںسے دیا جائیگا ۔
تین چار روز تک شہر کیا پورے سرائیکی وسیب میں اس جلسے کا چرچا رہا۔ پابندی کے اعلان اوربندوبست نے اپوزیشن کے احتجاجی جلسے کو جہاں مسلسل کئی روز تک ٹی وی چینل تک بلکہ شہر کے گلی کوچوں میں بھی پھیلا دیا یعنی دوسرے شہروں کے جلسے ایک روزہ بلکہ ملتان کا ہفت روزہ ہو گیا اور بالآخر دوپہر کو اچانک فورس ہٹا لی گئی ۔
اپوزیشن نے تو تہیہ کر لیا تھا کہ جلسہ ہر صورت ہو گا اسلئے مولانا مدرسہ قاسم العلوم گلگشت سے پاکستان پیپلز پارٹی سابق وزیر یوسف رضا گیلانی کے گھر غوث الاعظم روڈ سے اور مسلم لیگ ن براستہ موٹر وے مریم نواز شریف کی قیادت میں گھنٹہ گھر پہنچے جو کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ جلسہ گاہ کی ہمسائیگی میں واقع ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا جلوس کنٹینر پر ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ آصفہ بھٹو زرداری کی قیادت میں نکلا جنکے ساتھ سندھ سے صوبائی وزراء سعید غنی اور ناصر شاہ کے علاوہ فریال تالپوربھی ملتان آئیں بلکہ آصفہ بھٹو زرداری کی سیاسی اننگز میں پہلی باقاعدہ انٹری تھی اسکی آمد نے جہاں جیالوں کے دل گرما دئیے وہاں جلسے میں شریک تمام لوگ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی جھلک بھی دیکھ رہے تھے۔
وہ شروع سے لیکر آخر مرکز نگاہ بنی رہی‘ وہ عوام کی تصویریں بناتی رہی‘ تالیاں بجاتی رہی اور اپنی شہید ماں کی طرح اس نے اپنے آپ کو ایک چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔ جیالوں کو اس میں ‘ اسکی آواز میں‘ اسکے عوام کو ہاتھ لہرانے میں‘ نعرے لگانے میں ‘ تقریر کرنے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نظر آتی رہیں اور کئی جیالوں کو جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد دیکھی تھی آصفہ بھٹو محترمہ کی چھوٹی بیٹی کو دیکھ کر روتے ہوئے بھی دیکھا کہ انہیں وہی وقت یاد آگیا جب محترمہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کیلئے جدوجہد کر رہی تھی۔ آصفہ کی پہلی سیاسی تقریر تھی اس میں ماں کی طرح بلا کا اعتماد تھا مختصر خطاب تھا مگر جاندار تھا۔
مریم نواز گھنٹہ گھر پہنچیں تو گاڑی کے اوپر مریم اورنگزیب کے ساتھ آگئیں۔ سٹیج پر آکر اس نے آصفہ بھٹو کا ہاتھ پکڑ کر فضا میں یکجہتی کا پیغام دیا ویسے تو یوسف رضا گیلانی نے بھی خطاب کیا تھا۔ اختر مینگل اور دیگر رہنما بھی تھے مگر مریم نواز نے تو موجودہ حکومت کے وہ لتے لئے کہ رہے نام اللہ کا۔ ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا ایک بیان بازی اور تقریروں کا انداز رہا ہے جس میں شائستگی اور تحمل رہا ہے ‘ کبھی ذاتی تکلیفوں کا ذکر کرتے نہیں دیکھامگر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں جیسے کو تیسا کی طرح سوال و جواب ہوتا ہے دونوں ایک لیول پر کھڑی نظر آتی ہیں ۔
مصائب اور قربانیوں کی جتنی داستانیں آصفہ بیان کر سکتی تھی اس سے زیادہ کون بیان کر سکتا ہے مگر مریم نواز نے جہاں اپنے اوپر اپنے خاندان پر حکومت کے جبر کی کہانی بیان کی اور عمران خان وزیراعظم کی کارکردگی اور ذات کو ہدف تنقید بنایا وہ بالکل عمران خان کے بیانیہ سے ملتا جلتا تھا ۔ سٹیج پر ہر پارٹی اپنی اپنی داستان بیان کرتی رہی۔ کسی نے صدر پی ڈی ایم کا ذکر نہ کیا۔ مریم نواز نے پیپلز پارٹی پر بھٹو صاحب کی پھانسی سے لیکر میاں نواز شریف کی والدہ کی وفات تک کا ذکر کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا حکومت نے کئی دنوں سے یہاں پکڑ دھکڑ شروع کررکھی ہے ۔
لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی مگر ہم اس سے ڈرنے والے نہیں ہم نے ذرا ڈنڈا دکھایا اور حکومت بھاگ گئی اور 13 دسمبر کو لاہور میں حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں گے جبکہ جمعہ اور اتوار کو ملک گیر احتجاج ملتان میں انتظامیہ کے تشدد اور ظلم و جبر کیخلاف ہو گا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے کہا ہم حکومت کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمیں کنٹینر مہیا کر دئیے ہیں انہوں نے کہامیرے بیٹوں پر مقدمات قائم کئے گئے اور قاسم گیلانی پر سٹیڈیم کا تالہ توڑنے کا مقدمہ بنایا گیا جسکو ہائی کورٹ نے مقدمہ خارج کر دیا اور گیلانی کو رہا کر دیا ۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سب کچھ ملتا جلتا تھا ویسے جلسہ لگاجیسے ہوتے ہیں مگر پابندی لگانے اور اٹھانے کی پالیسی نے حکومت کی امیچور پالیسی کی قلعی کھول دی کہ بعد میں شاہ محمود قریشی اور عامر ڈوگر کہتے نظر آئے کہ پابندی نہیں لگانی چاہئے تھی۔انہیں سٹیڈیم میں جلسہ کرنے دیا جاتا تو ان کا بھرم ٹوٹ جاتا کہ یہ سٹیڈیم کو بھر نہ سکے۔ اسی قسم کی گفتگو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی ہوئی کہ پابندی لگا کر اسکی اہمیت کو بڑھا دیا گیا اور ایک روز کا جلسہ کئی روز پر پھیلا دیا گیا سب اپوزیشن اکٹھی تھی ‘ بظاہر ایک تھے مگر درپردہ وہ ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ‘ دلوں میں کدورت رکھنے کی وجہ سے یہ مصنوعی ماحول اس وقت تک برقرار رہا جب تک موجودہ حکومت اپنی ناکام پالیسیوں‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور غیر سنجیدہ فیصلوں کی بدولت عوامی بے چینی اور سیاسی بے یقینی کے ساتھ قائم ہے۔
بروقت فیصلے نہ کر سکنے کی پالیسی کی وجہ سے قوم کا اربوں کا نقصان ہو رہا ہے ۔ حکومت کو معلوم نہیں کیوں دیر سے ادراک ہوتا ہے ۔ مدعا یہ کہ حکومت کی اور اپوزیشن کی سوچ سترسال سے ایک رہی ہے ۔
ہرحکومت اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہے اور حکومت کو غلط پہنچائے گئے اعداد و شمار پر یقین رکھتی ہے۔ اسے ہر طرف چین ہی چین نظر آتا ہے اور اپوزیشن ایک وقت کے جان کے دشمن حکومت کی مخالفت میں اس وقت تک ہیں جب تک حکومت قائم ہے پھر وہی کھیل شروع ہو جاتا ہے۔
نئی بات سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ بھٹو کی شاندار انٹری تھی جس نے نعرے لگوا کر احساس دلایا کہ میں بلاول بھٹو کے ساتھ ہوں۔ اگر ہمارے بھائیوں کو گرفتار کیا گیا تو ہم خواتین جدوجہد کریں گی۔ آمد پرجوش‘ استقبال زبردست ‘ مستقبل روشن‘ نتیجہ اللہ جانے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر