دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ

ترجمان: ہماری ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ اپنی پارٹی کا دفاع اور اپنی پارٹی کے مخالفوں پر حملہ کریں۔ غلطی تسلیم کرنا یا سچ بولنا ہماری ذمہ داریوں میں ہی نہیں آتا۔

سہیل وڑائچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عام انسان: یہ ترجمانوں کی حکومت ہے اور ترجمان، عام انسانوں سے مختلف مخلوق ہیں۔ جنہیں نہ اخلاقی قدروں کا خیال ہے، نہ یہ خدشہ کہ اُن کے بیانات اور ردّ عمل سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ترجمان: ہم الگ مخلوق نہیں البتہ ہمارا کام ضرور الگ ہے۔ ہمارا کام لوگوں کو سمجھانا ہے، انہیں سیدھی راہ دکھانا ہے، نونی اور پیپلیے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ہم اُن کے ارادے بھانپ کر اُنہیں عوام کے سامنے عیاں کر دیتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔

عام انسان: ترجمان کسی بھی جماعت کے ہوں وہ اپنے اپنے جزیروں میں قید ہوتے ہیں، اُنہی جزیروں سے الفاظ کی بمباری کرتے ہیں اور پھر کہیں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اُنہیں سچ اور حق سے کوئی علاقہ نہیں، جو نام نہاد سچ یہ بولتے ہیں وہ دنیا کے کسی بھی انصاف پسند ادارے میں باریابی نہیں پا سکتا، اُسے لازماً جھوٹ سمجھ کر ہی رد کیا جائے گا۔

ترجمان: تحریک انصاف کی حکومت کے ترجمان دنیا کے منتخب افراد ہیں، سب سے ٹاپ پر امریکہ سے تعلیم یافتہ اور امریکہ میں ہی معلمی کے جھنڈے گاڑنے والے شہباز گل ہیں جو اپنی ’’شائستگی‘‘، ’’راست بازی‘‘ اور ’’خوش کلامی‘‘ کے ریکارڈ توڑ چکے ہیں، اُن کے منہ سے ہمیشہ اپنوں اور پرائیوں دونوں کے لئے پھول جھڑتے ہیں، اُن کے مقابل کوئی آ سکتا ہے تو لائیں۔

عام انسان: نہیں واقعی، اُن کے مقابلے کا ترجمان، اِس تضادستان میں تو کم از کم کوئی ایک بھی نہیں، وہ جب نشانہ مارتے ہیں تو دو چار گولیاں راستے میں کھڑے راہگیروں کو بھی مار جاتے ہیں تاکہ سند رہے کہ اِس علاقے میں اُنہوں نے گولہ باری کی ہے۔ ترجمان، ن لیگ کے ہوں یا تحریک انصاف کے، سب ہی منہ پھٹ ہیں اور جب وقتِ امتحان آتا ہے تو پھر یہ اسحاق ڈار بن جاتے ہیں، کل کو شہباز گل ہارڈ ٹاک یا کیپٹل ٹاک میں آئے تو اُن کے لئے بھی بات کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ترجمان: دیکھیں جی! ہم ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہا سکے لیکن ٹیکسٹائل، کنسٹرکشن اور کئی دوسرے شعبوں میں اِس قدر تیزی لے آئے ہیں کہ یہ رحجان چلتا رہا تو اگلے ایک سال میں ہر طرف لہریں بہریں ہو جائیں گی۔ والٹن کمرشل پروجیکٹ، ریور راوی پروجیکٹ اور بنڈل آئی لینڈ بن گئے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

عام انسان: یہ پروجیکٹ تو بنتے بنتے بنیں گے۔ ایسے یہ سب تو ملک ریاض صاحب کے آئیڈیاز ہیں، کچھ خود بھی کریں۔ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدے پر تو ابھی تک عمل ہو نہیں سکا، نئے وعدوں پر کیسے یقین کر لیں؟ سارا معاملہ ترجمانوں نے خراب کر رکھا ہے جو سیاہ کو سفید کرکے دکھانا چاہتے ہیں۔ کیا کبھی کسی ترجمان نے اپنی پارٹی کی کسی غلطی کو تسلیم کیا ہے؟ کیا اِس بارے میں سچ بولتے ہوئے ترجمانوں کی زبان گنگ ہو جاتی ہے؟

ترجمان: ہماری ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ اپنی پارٹی کا دفاع اور اپنی پارٹی کے مخالفوں پر حملہ کریں۔ غلطی تسلیم کرنا یا سچ بولنا ہماری ذمہ داریوں میں ہی نہیں آتا۔

عام انسان: جس طرح ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر جوزف گوئیبلز پر جرمنوں کا اعتبار نہیں رہا تھا، اُسی طرح ترجمانوں پر بھی تضادستان کے رہنے والوں کو اعتبار نہیں رہا۔ آپ بےشک اپنے مخالف صحافیوں کی فہرستیں شائع کریں یا حامیوں کی، اُس سے وقتی ارتعاش تو آئے گا لیکن صحافت کو مجموعی طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ترجمان: ن لیگ کے حامی صحافی لفافے ہیں، وہ کرپشن کا دفاع کرتے ہیں، اُنہیں لوگوں کے سامنے بےنقاب کرنا چاہئے، یہ صحافت کا نہیں چند کالی بھیڑوں کا معاملہ ہے۔

عام انسان: وہ اینکر یا صحافی جو آپ کے حامی ہیں، وہ سارے کے سارے ایماندار کیسے ہو گئے؟ اُنہیں کیوں نہ لفافہ بردار کہا جائے اور آپ کے سارے مخالف بےایمان کیسے ہو گئے؟ اِس حوالے سے آپ اندھی اور بہری دلیلیں دیتے ہیں۔ جب وقت پلٹے گا جو کہ پلٹ کے رہنا ہے تو پھر یہی الزامات آپ کے گلے پڑیں گے۔

ترجمان: کل کو ہم جھوٹے پڑیں گے تو پارٹی ترجمان بدل دے گی۔ چہرے بدلیں گے تو ماحول بدل جائے گا۔ آپ جو بھی کہیں آج تک کی صورتحال تو یہ ہے کہ ہم نے صحافیوں اور اینکروں کو آگے لگایا ہوا ہے، اُن کی ٹرولنگ کرتے ہیں، اُن کے خلاف ٹرینڈ بناتے ہیں، اُن کا پورا پیچھا کرتے ہیں، کون صحافی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے؟ ہم نے ہر ایک کو سبق سکھا کر چھوڑا ہے۔

عام انسان: آپ کو نہ صحافتی اقدار کا خیال ہے، نہ معاشرتی رویوں کا لحاظ۔ جس کی جب چاہتے ہیں بےعزت کر دیتے ہیں، نہ آپ کو ماضی کا علم ہے، نہ آپ حال کو پوری طرح جانتے ہیں لیکن خود کو عالم فاضل سمجھتے ہیں۔ آپ کی یادداشت 2018سے پہلے کی ہے ہی نہیں، نہ آپ کو صحافت اور نہ صحافیوں کے پس منظر اور تاریخ سے آگاہی ہے۔ کون کس آگ سے گزر کر رزم گاہِ صحافت میں آیا ہے؟ آپ اِس سے مکمل لاعلم ہیں لیکن بڑبولا ہونے کے ناطے آپ اپنی لاعلمی کو بھی اپنا علم و فضل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی دن تو مکمل سچ سامنے آ کر رہے گا۔ کسی حد تک لوگوں کو اب بھی سچ کا علم ہے؟ اسی لئے آپ کی معاشرے میں عزت نہیں ہے۔

ترجمان: عزت کا تعین کرنے والے آپ کون ہیں؟ اِس ملک کو 70سال سے لوٹا گیا ہے۔ سیاستدان، بیورو کریٹ اور صحافی سب اِس لوٹ مار کا حصہ تھے۔ اب ہماری حکومت نے آ کر اِس لوٹ مار کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ ہم نے ہر مافیا سے ٹکر لی ہے ، شوگر مافیا، آٹا مافیا، میڈیا مافیااور عام مافیا… ہم بھی چاہتے تو مصالحت اور مصلحت سے اِن مافیاز کے ساتھ چل سکتے تھے مگر ہم نے اِن سب سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اِسی لئے ہماری حکومت پر تنقید بھی زیادہ ہے کہ ہم مافیاز کے مدِمقابل ہیں۔

عام انسان: یہ مافیا آپ کے ذہن کی تخلیق ہیں، آپ کو نہ گورننس آتی ہے، نہ میڈیا مینجمنٹ، آپ پکڑ دھکڑ، خوف و ہراس اور دبائو کے ذریعے معاملات چلا رہے ہیں جس دن لوگ اِس دبائو کے سامنے اکڑ گئے اس دن آپ کا معاملہ ختم ہو جائے گا۔

ترجمان: آپ ہمیں عام انسان کیوں نہیں سمجھتے؟ کیا ہمارے سروں پر سینگ اُگے ہیں یا پھر ہم پچھل پیر ےہیں؟

عام انسان: آپ واقعی عام لوگوں سے بہت مختلف ہیں، نہ آپ کو اپنی عزت کا احساس ہے، نہ آپ کو کسی اور کی عزت کا پاس ہے، نہ آپ کا کوئی مستقل موقف ہے، نہ ہی آپ کی کوئی نپی تلی رائے ہے۔ آپ بس ہوا کے تھپیڑوں کیساتھ اُڑتے پھرتے ہیں۔

ترجمان: ہم بڑے باعزت لوگ ہیں، ہم نے اِس معاشرے میں اپنے موقف سے ایک مقام بنایا ہے، اِس حکومت کا ترجمان بننا ایک بہت بڑا میرٹ ہے۔ خان صاحب خود فیصلہ کرتے ہیں کہ کسے پارٹی کا ترجمان ہونا چاہئے جو مخالفوں کو جتنا سخت جواب دیتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ٹھہرتا ہے۔

عام انسان: صاف کہو کہ گالیاں دیں تو حکومتی حلقے شاباش دیتے ہیں۔ شرافت سے کام لیں تو کہتے ہیں آپ سے اپنا کام اچھے طریقے سے نہیں ہو رہا۔ متحمل مزاج اور اعتدال پسند ترجمان نہیں بن سکتا۔

ترجمان: ہمارے ہاں مصلحت اور درمیانی موقف کو نہیں سراہا جاتا۔ بڑے خان صاحب واضح اور دو ٹوک بات کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ آج کل کے سب سے بڑے سیاست دان ترجمان ہی ہیں وہی پارٹی، وہی حکومت اور وہی میڈیا کو چلاتے ہیں آج کل سیاست دان ایسا ہی ہونا چاہئے میڈیا ترجمان ہی اس دور کے آئیڈیل لوگ ہیں انہیں ہی سب اختیارات بھی ملنے چاہئیں۔

About The Author