ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں اپنی دوست کی عیادت کو جانا تھا ایک اور دوست کے ساتھ لیکن ایک مشکل آن پڑی تھی!
” دیکھیے مجھے بھی خیریت دریافت کرنے جانا ہے لیکن وعدہ کیجیے کہ میری غلط بیانی کی تردید نہیں کریں گی”
” غلط بیانی کی تردید؟ ارے غلط بیانی ہی کی تو تردید کی جاتی ہے ” ہم نے ابرو چڑھائے،
” آپ کو تو علم ہے، میں ان کے گھر کا کچھ نہیں کھا سکتی۔ منع کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے سو میں کہوں گی کہ روزے سے ہوں ” وہ بولیں۔
مسئلہ یہ تھا کہ بیمار دوست ہندو مذہب سے تھیں اور ساتھ میں بہت مہمان نواز بھی۔ تیمارداری کے لئے ساتھ جانے والی دوست چھوت چھات کی سخت پابند، سو ہندو کے گھر کا کھانا ان کو ابکائیاں لینے پہ مجبور کرتا تھا۔
ہمیں یہ واقعہ ایک بھولی بسری یاد دلا گیا۔ ایک ایسی یاد جس میں ہماری خلد مکانی اماں رنجیدہ ہوئی تھیں اور ہم نے ان سے بے پناہ محبت ہونے کے باوجود ان کی بات نہ ماننے کی گستاخی کی تھی۔ کیا کرتے اماں اور ہمارے درمیان نظریاتی اختلاف آن ٹپکا تھا۔
اماں میں ممتا کوٹ کوٹ کے اس طرح بھری گئی تھی، جیسے شیرے سے بھرے برتن کو ہلکی سے ٹھوکر لگے اور وہ چھلک جاۓ۔ ہم سے محبت اور پھر ہمارے بچوں سے بے تحاشا محبت! ان کی اس ممتا نے ہمارے بہت سے مسائل حل کر دیے۔ نہ ہمیں کبھی بچوں کو ان کے پاس چھوڑنے میں کوئی فکر لاحق ہوئی اور نہ انہیں سنبھالنے کوئی تامل۔ ابا کے رخصت ہو جانے کے بعد اگر کبھی ہم ان سے درخواست کرتے کہ کچھ دنوں کے لئے ہمارے پاس آ جائیں تو باوجود اپنے گھر سے بے پناہ انس کے وہ ہماری خواہش کبھی رد نہ کرتیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب زندگی نے ہمیں عجیب سے دوراہے پہ لا کھڑا کیا تھا۔ جونہی سپیشلسٹ بننے کی تربیت کا اختتام ہوا، گود میں ننھی پری آن پہنچی۔ اب امتحان دیں یا آٹھ برس کے بعد آنے والی کی قلقاریاں سنیں۔ جاپے سے فراغت ملی تو سوچا کل وقتی آیا رکھ لی جائے جو بچی کی دیکھ بھال کرے اور ہم امتحان کی تیاری۔
کنوؤں میں بانس ڈلوانے کی کسر رہ گئ مگر آیا مل کے نہ دی۔ ایک دن اسی فکر میں بیٹھے تھے کہ بیٹ مین نے آ کر بتایا کہ یونٹ سے رفیق آیا ہے۔ ہم اپنے دھیان میں تھے سو پوچھا، کون رفیق؟
“جی، وہ رفیق مسیح، خاکروب”
“اوہ اچھا ٹھیک ہے، میں لان میں بیٹھتی ہوں، تم صفائی کروا لو”
جونہی ہم لان میں آ کے بیٹھے، ہماری نظر سائیکل کو ایک طرف کھڑا کرتے رفیق پر پڑی، مرنجاں مرنج اور دھیمی آواز کا مالک رفیق!
یکایک ایک کوندا سا دماغ میں لپکا!
“ارے ہم نے پہلے کیوں نہیں سوچا” ہم نے خودکلامی کی۔
“سنو رفیق” ہم نے پکارا
“جی بیگم صاحبہ” وہ تیزی سے چلتا ہوا پاس آن کھڑا ہوا،
“تمہاری فیملی کہاں ہے؟”
“یہیں ہے جی، میرے ساتھ کوارٹرز میں” جواب سن کر ہماری آنکھیں چمک اٹھیں،
ہم نے ایک لحظه بھی توقف کیے بنا پوچھا، کیا تمہاری بیوی ہماری بیٹی کی آیاگیری کر سکتی ہے؟
ہماری بات سن کے وہ کچھ مضطرب ہوا، اپنا وزن ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پہ منتقل کرتے ہوئے بولا،
“وہ جی… وہ… ہم تو مسیحی ہیں نا… تو”
“سنو رفیق، مجھے اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر تمہاری بیوی راضی ہو تو کل سے ہی لے آنا۔ میں اچھی تنخواہ دوں گی”
وہ ہمیں سلام کرتے ہوئے مڑا، اس کی آنکھوں میں حیرت، پریشانی اور تشکر کے جذبات منجمد سے ہو گئے تھے۔
پینتیس چالیس سالہ دبلی پتلی، گہری سانولی رنگت، قدرے اونچے دانت، کپڑے پرانے مگر صاف ستھری، دھیمی آواز مگر صاف اردو بولنے والی حنیفاں بی بی، ہماری شہر بانو کی پہلی آیا!
اب صورت حال کچھ یوں بنی کہ حنیفاں صبح آٹھ بجے آتی، اور ہم اسے ضروری ہدایات دے کے ساڑھے آٹھ بجے لائبریری روانہ ہوجاتے۔ دو بجے تک کتابوں سے سر کھپا کے گھر پہنچتے تو نہائی دھوئی، ہنستی کھیلتی بچی ہمارا استقبال کرتی۔ حنیفاں اسے ہماری گود میں ڈالتی اور تیزی سے اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے روانہ ہو جاتی۔ ہم بچی سے تھوڑا لاڈ کرتے، شکم سیری اور قیلولہ ہمیں شام کے لئے تازہ دم کرتا۔ ٹھیک پانچ بجے حنیفاں پھر آتی اور ہم پھر سے روانہ ہوجاتے۔ آٹھ بجے لائبریرین بے تابی سےگھڑی دیکھتے ہوئے ہماری طرف دیکھتا تو ہم سمجھ جاتے۔ لائبریرین، حنیفاں اور ہمارے دن کا اختتام ایک ساتھ ہوتا۔
پالنے میں شیر خوار بچی غوں غاں کرتی ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔ہم نے تیزی سے تیار ہوتے ہوئے اپنا ہدایت نامہ جاری کرنا شروع کیا،
” حنیفاں، دیکھو آج بیٹ مین چھٹی پہ ہے اس لئے اماں جب کہیں انہیں ناشتہ بنا دینا۔ وہ رات ہی آئی ہیں، تھکی ہوئی سو رہی ہیں، اٹھیں گی تو ان کو بتا دینا کہ ہم دوپہر کے کھانے پہ ان سے ملیں گے۔ اور ہاں دوپہر کا کھانا اماں سے پوچھ کے بنا لینا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گی”
جب کبھی ہمارا بیٹ مین چھٹی جاتا، حنیفاں ہمارے کچن کا کام بھی سنبھال لیا کرتی۔
“جی آپ بے فکر ہو کے جائیں ، میں اماں جی کا خیال رکھوں گی” وہ مسکرا کے بولی،
دوپہر کو جونہی ہماری گاڑی پورچ میں رکی، حنیفاں گھر کے دروازے کو سرعت سے کھولتی اضطرابی کیفیت میں تیزی سے چلتی ہمارے پاس آئی،
” باجی، شہربانو اماں جی کے پاس ہے۔ میں نے کھانا بنا دیا ہے، میں جا رہی ہوں ” یہ کہتے کہتے، ہمیں کچھ کہنے سننے کا موقع دیے بنا تیزی سے گیٹ پار کر گئی۔
ہم حیرت سے اسے آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھ کے سوچا کیے کہ آج اسے کیا ہوا؟
گھر میں داخل ہو کے اماں کو سلام کرتے ہی اندازہ ہو گیا کہ مزاج سخت برہم ہے۔ابھی ہم اندازہ لگانے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ وہ پھٹ پڑیں،
” یہ کیا غضب ڈھایا تم نے ؟”
“کیا اماں؟ کیا ہوا؟”
” خدا کا خوف کرو! کیا زمانہ آن لگا ہے اب سادات کے بچے غیر مسلموں کی گود میں کھیلیں گے، اور ان کے ہاتھ سے کھانا کھائیں گے”
ہمیں ایک لحظے میں بات سمجھ آ گئی۔اماں حنیفاں کے مسیحی ہونے پہ برافروختہ تھیں۔
” اماں، وہ انسان پہلے ہے اور مسیحی بعد میں” ہم سہج سے بولے،
” ارے اس کا میاں مہتر ہے، گھر گھر کی غلاظت سمیٹتا ہے اور یہاں ہماری مہارانی بیٹی ان کے ہاتھ کا پکا کھاتی ہیں ” اماں کا لہجہ تند تھا۔
” اماں، جو غلاظت ہمیں خود سمیٹنی چاہیے، اگر کوئی قسمت کے پھیر میں آیا ہوا بدنصیب ہماری مدد کر رہا ہے تو یہ تو اس کی عظمت کی دلیل ہوئی نا۔ ہمیں اس بات پہ ان کا شکر گزار ہونا چاہئے ورنہ یہ ان کا کام نہیں”
ہم نے اپنے فن تقریر سے کام لیا۔
“ارے بھاڑ میں گیا تمہارا فلسفہ! جس شخص نے کلمہ نہ پڑھا، اس کے ہاتھ کا کیسے کھائیں ہم”
” دیکھیے اماں، کیا ہم حضرت عیسٰی اور بی بی مریم کو نہیں مانتے ؟ دوسری بات کیا وہ اپنی مرضی سے مسیحی ہے اور ہم اپنی مرضی سے سید! تیسری بات یہ کہ کیا ہم سب رب کائنات کی تخلیق اور آدم وحوا کی اولاد نہیں ہیں؟”
“بی بی ، تم کچھ بھی کہو! میں تو شہربانو کو اس کی گود میں دینے سے رہی، اور ہاں میں اس کے ہاتھ سے پکا کچھ نہیں کھانے والی “
اماں کو رام کرنے کا حربہ ہمیں آتا تھا۔ ہم نے اماں کے گرد اپنے بازو حمائل کیے،
” اچھا چلیے، کچھ آپ کی مانی جائے گی اور کچھ ہماری! منظور ؟”
“کہو” پیشانی کے بل کچھ ہلکے ہوئے،
“دیکھیئے جب تک آپ یہاں ہیں، آپ کا کھانا میں خود بنا دیا کروں گی لیکن اماں پلیز دوسری بات ماننے پہ مجھے مجبور مت کیجیے۔ میں حنیفاں کو نوکری سے جواب دے کے اپنی نظر میں خود گر جاؤں گی۔ میں جو بنیادی انسانی حقوق کی تڑپ رکھتی ہوں، میں کس منہ سے ان پہ بات کروں گی۔ میں اپنے قول وفعل میں تضاد نہیں دیکھ سکتی پیاری ماں، پلیز مجھے معاف کر دیں”
اماں کی پیشانی سے دھیرے دھیرے سلوٹیں غائب ہونا شروع ہوئیں، تنا ہوا چہرا ڈھیلا پڑ گیا۔ وہ جھکیں اور انہوں نے ہماری پیشانی پہ بوسہ دیا۔
ہم مقدمہ جیت چکے تھے!
دیکھیے، طیب رضا کاظمی بھی یہی احساس رکھتے ہیں!
بھنگیوں کی توپ
ساری بات ھے نیّت کی اور نسبت کی
پانچوں وقت بلانے والا جانتا ھے
دل کے کالے کیا سمجھیں اس حکمت کو
ٹھنڈا میٹھا پانی ڈال کے
اپنی ساری آلائش کو صاف کیا
نصف ایمان ھے آخر بھائی
ایک ذرا سا ذرہ ساری محنت ضائع کر سکتا ھے
باقی نصف ایمان کو پیچھے چھوڑ آیا ھوں
کالے گندے بھنگی کی بخشش کے لئے
اس نے کونسی توپ چلانی ھے ویسے بھی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر