گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالے نے پاکستان کو دنیا کے نقشہ کی خوبصورت جگہ پر بنایا۔چھ موسم عطا کئے جس کے لئے دنیا ترستی ھے۔ پہاڑ ۔دریا ۔جھیلیں ۔نہریں ۔سمندر سب نعمتیں نہ صرف سیاحوں کی دلکشی کا باعث ہیں بلکہ حَسین پرندوں کا رخ بھی دوسرے ملکوں سے پاکستان کی طرف ہوتا ھے۔ جب روس۔سنٹرل ایشیائ ملکوں میں سردی کا موسم شروع ہوتا ھے اور خوراک کی کمی ھو جاتی ھےتو پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان پرندوں کے انڈس فلائ زون میں واقع ھے اور یہ کراکرم رینج اور سلیمان رینج سے پاکستان داخل ہوتے ہیں ۔ہر سال تقریبن دس لاکھ معصوم پرندے ہمارے مہمان بنتے ہیں اور سائبیریا کی سخت سردی سے تنگ آکر وہ ساڑھے چار ھزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان داخل ہوتے ہیں ۔ یہاں پر مختلف جھیلیں ان پرندوں کا ٹھکانہ بنتی ہیں۔تاندہ ڈیم کوہاٹ۔چشمہ بیراج۔ڈیرہاسماعیل خان پُل کی قریب جھیلیں ۔منگلہ ڈیم۔ وادی سون کی جھیلیں ۔تونسہ بیراج۔کینجر اور ہالے جی جھیل سندھ۔بحیرہ ارب ۔بلوچستان کا سمندری ساحل سب ان مہمان پرندوں کی پسندیدہ مقامات ہیں ۔ وہ ستمبر سے مارچ تک ہمارے ملک کا ماحول خوبصورت بناتے ہیں ۔ انڈے بچے دیتے ہیں اور چھ ماہ کے بعد مارچ کے آخر میں واپس چلے جاتے ہیں۔ ہمارا حال ہی ھے کہ جونہی یہ معصوم پرندے ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو ان کو قتل کرنے کے لئے خلیجی عرب شھزادے اور کچھ ملکی شھزادے اپنے سازو سامان کے ساتھ تیار کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ان کا اندھا دھند قتل عام شروع ہو جاتا ھے۔ لاکھوں پرندے انسانی پیٹ کا ایندھن بنتے ہیں اور اس سلسلے حکومت کا قانون آڑے نہیں آتا کہ یہ ملک تو شھزادوں کی شکار گاہ ھے چاھے وہ انسانی جانوں سے کھیلیں یا عزتوں سے حکومت خاموش تماشائ بنی اپنے بناۓ ہوۓ قوانین کو بے حسی سے ٹوٹتا دیکھتی رھتی ھے۔ اس وقت پرندوں کی چار سو اقسام میں سے صرف ستر اقسام پاکستان آرہی ہیں ۔ ہمیں نہ خوبصورت کونجیں دکھائ دیتی ھے جو V کی شکل بنا کر ہمارے سروں سے دلکش آوازیں دیتی گزرتی تھیں۔ مر غابیاں ۔رنگ برنگے مَنگ۔ رشین کاک۔ تلیر۔بٹیر ۔کنگ فشر۔کریلے سب ناپید ہو رھے ہیں ۔
اب تو ہمیں اپنے ملک کے پرندے بھی شاذ ہی ملتے ہیں کہ ہم نے گھر گھر اِئر گن رکھ کر انہیں بھی مار ڈالا۔ پہلے یہ تمیز ہوتی تھی کہ یہ حلال پرندہ ھے یہ حرام اب وہ بھی ختم ہوچکی۔ ایک صاحب بتا رھے تھے کہ ایک دفعہ ایک جنگلی کبوتر اور ایک کوا کسی مولوی کے جال میں پھنس گئے ۔ کبوتر روۓ جا رہا ھے کہ ابھی مولوی آ کے مجھے کاٹ ڈالے گا ساتھ کوا بھی رو رہا ھے۔کبوتر کوے کو کہتا چپ ہو جا تُو کیوں روتا ھے ؟ میں تو حلال پرندہ ہوں مجھے مولوی ذبح کر کے ہانڈی پکاۓ گا تجھے تو آذاد کر دے گا۔ کوا روتے ہو ۓ جواب دیتا ھے اے کبوتر تجھے پتہ نہیں یہ مولوی صاحب کا جال ھے کیا پتہ وہ میرے حلال کا فتوی دے کر مجھے بھی تیرے ساتھ پکا ڈالے۔ یہ تو خیر لطیفہ تھا مگر حقیقت یہ ھے اب لوکل پرندے ہم سے روٹھ گۓ ہیں۔ پہاڑی طوطے۔ لالیاں ۔ابابیل۔ رنگ برنگی چڑیاں ۔بلبلیں ۔ کوئل۔ تیتر۔چکور۔ کوے۔ڈوڈر کاں۔سیھڑے۔ جل ککڑ۔بہت ہی چھوٹی کالی اور سُرمئ چڑیاں ۔ہریل طوطا۔ سب نظر نہیں آرھے۔ درخت اور جنگل کٹ گئے اب یہ پرندے کہاں رہیں۔ کبھی کبھی پرندے بیچنے والی دکان پر یہ پَکھی پنجروں میں قید نظر آ جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے سرکاری سطح پر بھی کہیں پرندوں کی sancturies قائم ہونی چاہیئں تاکہ یہ سکون سے ری سکیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ