اسدعلی طور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے فُل کورٹ کے اُنیس جون 2020 کے آرڈر کے خلاف نظرِثانی اپیل میں پینتالیس صفحات پر مُشتمل اضافی تحریری دلائل اور گراونڈز پر مشتمل سُپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ اضافی گراونڈز اور دلائل کی وجہ مسز سرینا عیسیٰ نے مُختصر حُکمنامہ کے 127 دن کے بعد ملنے والا جسٹس عُمر عطا بندیال کا تفصیلی فیصلہ بتایا ہے جِس کے ساتھ ریٹایرڈ ہونے والے جسٹس فیصل عرب کا اضافی نوٹ بھی تھا۔
جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سات ججز کے تفصیلی فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی وجوہات پر مُشتمل اختلافی نوٹ بھی اُسی دِن23 اکتوبر 2020 کو جاری کردیا تھا۔ دِلچسپی کی بات ہے کہ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی نئی درخواست میں جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس کو اُنکا علیحدہ علیحدہ فیصلہ اور سات ججز کے فیصلہ کو مُشترکہ فیصلہ قرار دیا ہے۔
مُستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اپنی اِس نئی درخواست میں استدعا کی ہے کہ وہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے تحریر کردہ اکثریتی فیصلہ کے ساتھ دیگر چار ججز ، جِن کو اِس نظرِثانی کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا جسٹس مقبول باقر، جسٹس (ر) فیصل عرب، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے اضافی و اختلافی نوٹس پر بھی نظرِ ثانی چاہتی ہیں۔
مسز سرینا عیسیٰ کی درخواست کا دوسرا نُکتہ کہتا ہے کہ جِن تین جائیدادوں کے لیے یہ سب گڑبڑ کی گئی وہ درخواست گزار (مسز سرینا عیسیٰ) اور اُنکے جوان بچوں نے خریدی تھیں اور اُن جائیدادوں کی قیمت اتنی ہی ہے جِس سے اسلام آباد یا کراچی میں ایک کنال کا گھر خریدا جاسکتا ہے تو سوال یہ تھا کہ کیا درخواستگزار اپنی ساری عُمر کی نوکری اور کمائی سے اتنی بچت بھی نہ کرسکی کہ وہ یہ جائیدادیں خرید سکتی۔
تیسرے نُکتے میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اُنکی اہلیہ یعنی مسز عیسیٰ کے اِنکم ٹیکس کی چھان بین سے پہلے چیرمین ایف بی آر کی منظوری درکار تھی اور اگر سابق چیرمین ایف بی آر جہانزیب خان کے اپنے عہدے سے ہٹانے کی تاریخ دیکھی جائے تو تصدیق ہوتی ہے کہ اُن کو اِس لیے چیرمین ایف بی آر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ انہوں نے ایسی تحقیقات کی اجازت دینے سے انکار کیا ہوگا اور یہ عمل بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ درخواست کہتی ہے کہ یہ ایک بہت ہی اہم نُکتہ تھا جِس کو نظر انداز کردیا گیا اور یہ اکثریتی تفصیلی فیصلہ کے مُواد میں ایک غلطی ہے۔
درخواست کہتی ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلہ میں بھی ایک اہم غلطی یہ لکھی ہے کہ چیرمین اے آر یو نے چیرمین ایف بی آر سے خُفیہ معلومات مانگی جو انہوں نے بغیر کسی احتجاج کے آنکھیں بند کرکے فراہم کردیں۔ درخواست کہتی ہے کہ جب 22 اپریل دو ہزار بیس کو شہزاد اکبر نے معلومات کے لیے یہ خط لِکھا تو اُس وقت چیرمین ایف بی آر جہانزیب خان تھے اور جب انہوں نے جب یہ درخواست ماننے سے انکار کیا تو شہزاد اکبر نے اپنے غیر قانونی احکامات کی حُکم عدولی پر چیرمین ایف بی آر جہانزیب خان کو عہدے سے ہٹا دیا۔ درخواست بتاتی ہے کہ اُس کے بعد یہ معلومات دس مئی 2019 کو ایف بی آر سے اشفاق احمد کے لِکھے خط سے اے آر یو کو بھجوائی گئیں جو کہ چیرمین ایف بی آر نہیں تھے بلکہ شہزاد اکبر کے ہی ایسٹ ریکوری یونٹ میں خِدمات سراِنجام دے رہے تھے۔
درخواست میں آگے چل کر کہتی ہے کہ درخواستگزار (مسز سرینا عیسیٰ) نے اٹھارہ جون دو ہزار بیس کو رضاکارانہ طور پر خود کو عدالت کے سامنے پیش کیا اور اپنی نوکری، آمدن، مالی معاملات، فارن کرنسی اکاونٹس اور بیرونِ مُلک بِھجوائی رقوم کی تفصیلات کی وضاحت کی اور فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے خود کہا کہ وہ میرے ( مسز سرینا عیسیٰ) بیان کردہ مالی ذرایع اور اُنکی مُنتقلی سے مُکمل مُطمئن ہیں اور مُجھے (مسز سرینا عیسیٰ) کو لگا کہ وہ یہ بات فُل کورٹ کے تمام دس ججز کی طرف سے کہہ رہے ہیں کیونکہ کسی جج نے اُن سے اختلاف نہیں کیا اور اِس بات کی تصدیق اُس دِن کی سماعت کی ریکارڈنگ سے کی جاسکتی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ درخواست میں لِکھتی ہیں کہ اُنہیں اگلے دِن دھچکا لگا جب فُل کورٹ کے سات ججز نے اپنا ذہن بدل لیا اور ایف بی آر کو اُنہیں نوٹس بھیجنے کا کہا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا ہے کہ اُنہیں یہ پڑھ کر تکلیف ہوئی کہ فیصلہ میں لِکھا گیا تھا کہ انہوں نے حلف اُٹھائے بغیر بیان دیا حالانکہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار نہیں کیا تھا اور اگر اُنہیں حلف لینے کا کہا جاتا تو وہ بخوشی حلف کے تحت بیان ریکارڈ کرواتیں کہ وہ جو کُچھ کہہ رہی ہیں وہ مُکمل سچ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ367صفحات کے تفصیلی فیصلے، اختلافی و اضافی نوٹس میں اُنکا نام 194 بار لیا گیا۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ وہ شرمندہ ہوتی ہیں کہ اُنکا نام اِس فیصلہ کی وجہ سے عوامی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور وہ ہمیشہ اب عوامی بحث میں اور تنقید میں مُجھے سُنے بغیر استعمال ہوگا۔
مِسز سرینا عیسیٰ ایف بی آر کی طرف سے سُپریم کورٹ کے دو حُکمناموں کی خلاف ورزی کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ جنوری2020 اور فروری 2020 کو سُپریم کورٹ کے حُکم پر فُل کورٹ کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اُنکی (مسز سرینا عیسیٰ) کی اجازت کے بغیر اُنکا جو آر ٹی او کراچی سے اسلام آباد مُنتقل کیا گیا تھا وہ واپس کراچی مُنتقل کردیا گیا ہے اور اِس کے بعد اُنکا کیس قانونی طور پر کراچی کے آر ٹی او کے دائرہ کار میں آتا تھا لیکن اُن کی تمام پیشیاں اسلام آباد کے ریجنل آفس میں ہوئیں جِس کے وہ دائرہ اختیار میں آتی ہی نہیں تھیں۔
مسز سرینا عیسیٰ ایف بی آر کے جھوٹ کا بھی پول کھولتی ہیں کہ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ مُجھے دو ہزار پندرہ، سترہ اور اٹھارہ میں نوٹس موصول ہوئے ٹیکس ریٹرن فایل نہ کرنے پر جبکہ مُجھے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ مسز سرینا عیسیٰ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد کے گھروں سے بھی معلوم کروایا لیکن کہیں بھی کوئی نوٹس ایف بی آر کی طرف سے موصول نہیں ہوا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ تفصیلی فیصلہ میں یہ غلط آبزرویشن دی گئی ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین کا دفتر صرف کوارڈینیشن کا کام کرتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ چیرمین اے آر یو شہزاد اکبر نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہویے ایک ساکھ والے چیرمین ایف بی آر جہانزیب خان کو تعیناتی کے صرف آٹھ ماہ بعد عہدے سے ہٹا دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کی درخواست میں چیرمین اے آر یو شہزاد اکبر کو ٹیکس دھوکے باز اور تحریکِ انصاف کا غیر مُنتخب رُکن لِکھا گیا ہے جو وزیراعظم عمران خان اور اُنکے ساتھیوں کے ناقدین کے خلاف جابرانہ کاروائیاں کرنے کے لیے ایک مُساوی حکومت چلا رہا ہے۔ درخواست کہتی ہے کہ براہ مہربانی عدالت اپنی اِس آبزرویشن کو ریکارڈ کی خاطر درست کرلے۔
مسز سرینا عیسیٰ کی درخواست کہتی ہے کہ سرکار کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ قوانین کا اطلاق کرتے ہوئے بےایمانی اور دہرے معیار کو اپنائیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں یہاں اِنکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن ایک سو سولہ کی جو تشریح کی گئی ہے جِس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ سُپریم جوڈیشل کمیشن کو ریفرنس بھیجیں کہ جج نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی خودمُختار اہلیہ اور نوکری پیشہ جوان بچوں کی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔ درخواست میں سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو وزیراعظم عمران خود اپنے ٹیکس ریٹرن میں اپنی تینوں بیویوں اور اپنے تینوں بچوں کے اثاثے ظاہر کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ ایسا نہ کرکے وہ خود بھی اِنکم ٹیکس آرڈیننس کی شِق ایک سو سولہ کی خلاف ورزی کے مُرتکب نہیں ہوتے؟ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایسا نہ کرکے وزیراعظم اپنے عوامی نمائندے کے طور پر ڈیکلریشن میں بدیانتی کے مُرتکب ہوئے ہیں اور اُن پر آئین کے آرٹیکل باسٹھ کا اطلاق ہوتا ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ اپنی درخواست میں اپنے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سابق ساتھی ججز کے بُرے سلوک اور نیت کو بھی بیان کرتی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عظمت سعید شیخ کے بارے میں درخواست میں لِکھتی ہیں کہ انہوں (آصف سعید کھوسہ اور عظمت سعید شیخ) نے میرے (سرینا عیسیٰ) کے بارے میں بدترین سوچ رکھا تھا۔ درخواستگزار مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ جسٹس کھوسہ اور جسٹس شیخ مُجھے ذاتی طور پر جانتے تھے اور میرے خاندانی پسِ منظر سے آگاہی کے باوجود دونوں نے میرے جائیدادیں خریدنے کی اہلیت پر شک کا اظہار کیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کی درخواست میں لِکھا ہے کہ دونوں ججز نے میرے ساتھ شوہر کے زیرِ کفالت بیوی والا سلوک کیا۔ درخواستگزار مسز سرینا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے برطانوی رجسٹری فرم ایک سو بانوے ڈاٹ کام میں جاکر خود سے بھی نام سرچ کیے اور جب سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بیٹیوں سحر کھوسہ اور ثمر کھوسہ جبکہ جسٹس (ر)عظمت سعید شیخ کی بیٹی ماہین سعید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور اُنکے بیٹے نجم ثاقب کے نام سرچ کیے تو اُنکے نام پر بھی جائیدادیں ظاہر ہوگیں حالانکہ وہ اِن میں سے کسی پر بھی الزام نہیں لگا رہیں کہ اُنکی لندن میں جائیدادیں ہیں۔
مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اُنکا یہ سرچ بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ دِکھا سکیں کہ اگر اتنی آسانی سے ججز کی اہلخانہ کی جائیدادوں کا کھوج لگایا جاسکتا تو اِن ججز کے بچوں کی جائیدادوں کو بھی ڈھونڈا جاتا لیکن صرف میری جائیدادوں کا اِس لیے کھوج لگایا گیا کیونکہ میری شادی جسٹس قاضی فایز عیسیٰ سے ہوئی ہے جو حکومت کا ہدف ہیں۔
مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کے وُکلا کوئی ثبوت نہیں دے سکے کہ اُنکی جاسوسی کی گئی لیکن اگر حال ہی میں دیا گیا وزیراعظم عمران خان کا ایک انٹرویو سُنا جائے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ میرے ٹیلی فون انٹیلی جنس ایجنسیاں ٹیپ کرتی ہیں اور وہ ہر اہم بندے کی نِگرانی کرتی ہیں اور یہ بات خود وزیراعظم اپنے مُنہ سے بتا رہے ہیں۔
مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نتائج کا خوف ختم ہوجائے تو جھوٹی گواہی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی حال ہی میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں کی گئی ایک تقریر کا بھی حوالہ دیتی ہیں جہاں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ “اپوزیشن چاہتی ہے ایک جج کو اوپر چڑھا دیں”۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ وزیراعظم کا یہ بیان توہین عدالت ہے کیونکہ عدالت میں کسی جج کو اوپر نہیں لایا جاسکتا اور سنیارٹی کی بُنیاد پر ہی جج چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان پر یا تو قوانین کا اطلاق ہوتا ہی نہیں یا قوانین کی تشریح مُختلف بیان کی جاتی ہے کیونکہ یہ عدالت وہ ثبوت مانگ رہی ہے جو ہماری دسترس میں نہیں ہیں (لیکن خُفیہ اداروں سے حاصل کیے جاسکتے ہیں ) مگر درخواستگزار (مسز سرینا عیسیٰ) نے جو حقائق بیان کیے ہیں وہ قابلِ گرفت ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ لِکھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گلگت بلتستان کی انتخابی مُہم کے دوران نشانہ بنایا اور اِس مُہم کے لیے سرکاری گاڑیوں، ہیلی کاپٹر اور رہائش گاہوں کا استعمال کیا گیا جِس کا بوجھ غریب ٹیکس دہندگان نے اُٹھایا اور اِس کی ٹیلی وِژن کی وڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ اُنیس جون 2020 کو جاری کردہ حُکمنامہ حنیف عباسی بنام عمران خان کے فیصلہ سے بھی مُتضاد تھا اور یہ وہی کیس ہے جِس کے فیصلہ پر جسٹس عُمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب نے دستخط کررکھے ہیں لیکن میرے (مسز سرینا عیسیٰ) کے کیس میں مُختلف معیار اپنایا گیا حالانکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی طرح نہ تو انتخابات میں حصہ لینا تھا اور نہ ہی وہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے تحت ڈیکلریشن کی پابند تھیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی درخواست میں اپنے اور وزیراعظم عمران خان کے لندن فلیٹ سے جُڑے حقائق کا موازنہ بھی پیش کیا ہے۔
وہ لِکھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے میرے لندن میں جائیدادیں خریدنے سے ایک سال قبل اپنا لندن فلیٹ سات لاکھ پندرہ ہزار پاونڈ میں فروخت کردیا اور یہ مالیت میری (مسز سرینا عیسیٰ) کی تینوں جائیدادوں کی قیمت سے زیادہ ہے۔
درخواست گزار آگے چل کر لکھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا فلیٹ آف شور کمپنی کے نام پر خریدا جبکہ میں نے اپنے بچوں کے نام پر خریدا۔
مسز سرینا عیسیٰ مزید موازنہ کرتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا لندن کا فلیٹ ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کرکے ٹیکس حُکام کو دھوکہ دے کر فائدہ اُٹھایا جبکہ میں نے ٹیکس ادا کیا۔
مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ میں نے اور میرے بچوں نے کبھی کسی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ نہیں اُٹھایا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے سترہ سال تک اپنا لندن فلیٹ ٹیکس حُکام سے چُھپا کر رکھا یہاں تک کہ ایمنسٹی اسکیم نہ مِل گیی۔
مسز سرینا عیسیٰ بیان کرتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے لندن کی جائیداد جس کی مالیت سات لاکھ پندرہ ہزار پاونڈ ہے ، اس پر صرف ایک بار دو لاکھ چالیس ہزار ٹیکس ادا کرکے جان بخشوا لی جبکہ میں اور میری بیٹی اپنی جائیدادوں کے صرف کرایوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہر سال وزیراعظم عمران خان کے جمع کروائے گئے ٹیکس سے زیادہ ٹیکس ادا کررہی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اور اُنکی بیٹی وزیراعظم عمران خان سے زیادہ سالانہ ٹیکس ادا کرتی ہیں اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر لندن میں اپنی جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع بتائے لیکن وزیراعظم عمران خان نے آج تک اپنی جائیدادوں کی خریداری کی منی ٹریل تک نہیں دی لیکن پھر بھی وزیراعظم عمران خان کے معاملات کو جانچنے کے لیے مُختلف معیار اپنایا جاتا ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ لِکھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے تو غیر تصدیق شُدہ دستاویزات کے باوجود انہیں سچا مان لیا گیا لیکن میری تصدیق شُدہ دستاویزات کے باوجود میرا یقین نہیں کیا جارہا۔
مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں عمران خان نے کبھی عدالت میں آکر بیان نہیں دیا اور ناہی اُن سے کبھی کوئی سوال ہوا لیکن ان کا یقین کرلیا گیا . میں نے خود عدالت کو بیان دیا لیکن میر ابیان نہیں مانا گیا۔
مسز سرینا عیسیٰ یہ بھی کہتی ہیں کہ عدالت نے کبھی ایف بی آر کو ہدایت نہیں دی کہ وہ عمران خان کو نوٹس بھیجے لیکن میرے لیے ہدایت دی گئی۔
درخواست میں مزید لِکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی ایف بی آر کو عمران خان کے تین بچوں کو نوٹس بھیجنے کا نہیں کہا لیکن میرے (مسز سرینا عیسیٰ) بچوں کو نوٹس بھجوادیے گئے .
مسز سرینا عیسیٰ کی پینتالیس صفحات پر مُشتمل دستاویز میں بہت کُچھ دھماکہ خیز ہے لیکن فی الحال اتنا ہی… بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مسز سرینا عیسیٰنے فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے سامنے اُنکا ماضی میں وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا گیا فیصلہ رکھ کر موازنہ کیا ہے کہ دونوں کیسز میں قانون کا اطلاق مُختلف کیوں؟ جبکہ دونوں کیسز میں الزامات میں بھرپور مُماثلت پائی جاتی ہے. اب دیکھنا ہوگا اگلے چیف جسٹس اور سُپریم جوڈیشل کونسل کے رُکن جسٹس عُمر عطا بندیال اپنے بعد بننے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی اِس پیٹیشن کو کیسے سُنتے ہیں.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور