رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی برطانوی شاہی خاندان پر بنائے گئے شوThe Crown کے تین سیزن یا یوں کہہ لیں تیس قسطیں دیکھی ہیں اور مجھے لگتا ہے میں اس پر پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔ ہر قسط میں ایک کہانی چھپی ہے‘ جو نئے سرے سے لکھی جاسکتی ہے۔ انسانوں کی زندگیوں کے عجیب و غریب قصے‘ محلوں کے مکینوں کی پُر اسرار زندگیاں‘دکھ سکھ ‘ محبتیں‘ نفرتیں‘ نفسیاتی مسائل‘ سیاست اور سیاستدانوں کی مکاریاں اور انسانی رشتوں کے درمیان جاری کشمکش۔ اسی کرائون کو دیکھ کر سوچتا ہوں‘ اگر برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل جیسے بندے کے ساتھ‘ اپنی تمام تر ذہانت اور سمجھداری کے باوجود تراسی برس کی عمر میں دھوکا ہوسکتا ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔
مجھے یاد پڑتا ہے جب چند سال پہلے یہ سیزن شروع ہوا تو اس کی دو قسطیں دیکھ کر چھوڑ دیں تھیں ۔ سوچا پھر کسی وقت دیکھوں گا۔ پھر دیکھنے کا وقت ہی نہ ملا۔ شاید مجھے بورنگ لگا ہو‘ شاید میرے ذہن میں House of Cards جیسا امریکن شو تھا جو آپ کو آنکھ نہیں جھپکنے دیتا تھا۔اس کے بعد جس سیزن نے پوری دنیا کی طرح مجھے جکڑ لیا وہ Game of Thrones تھا۔ گیم آف تھرونز کے چھ سیزن دیکھ چکا اور کچھ الجھن ہوئی تو سوچا‘ مجھے اس سیزن کی ابتدائی قسطیں دوبارہ دیکھنی چاہئیں‘ اور وہی ہوا جب میں نے وہ دو تین قسطیں دیکھیں تو پھر ساتواں سیزن شروع کیا ۔ اس دفعہ کرائون کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔ تیسرا سیزن شروع کیا تو اچانک مجھے الجھن محسوس ہوئی تو وہی کام کیا جو گیم آف تھرونز میں کیا تھا کہ پہلے سیزن کی ابتدائی تین قسطیں دوبارہ دیکھیں تو چیزیں کلیئر ہوئیں ۔ حیران ہوا‘ میں نے پہلی دفعہ یہ سیزن دیکھتے ہوئے وہ اہم باتیں کیسے اگنور کر دی تھیں ۔
موجودہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کے باپ بادشاہ جارج کا انتقال ہوئے کچھ دن ہوئے تھے اور چرچل نیا نیا دوسری دفعہ برطانیہ کا وزیراعظم بنا تھا ۔ ایک رات چرچل کی بیوی خواب گاہ میں آئی اور اسے کہا :آپ کی کابینہ کا وزیرخارجہ انتھونی ایڈن خفیہ طور پر بادشاہ سے ملنے گیا تھا ۔چرچل چونک گیا ۔ اس کی بیوی بولی کہ بادشاہ کی بیٹی مارگریٹ نے اسے عجیب بات بتائی تھی کہ فارن سیکرٹری اس کے باپ کو یہ کہنے گیا تھا کہ چرچل بوڑھا ہوگیا ہے لہٰذااس کو ہٹا کر اس کی جگہ نوجوان وزیراعظم لگائیں کیونکہ یہ اب چرچل کے بس کی بات نہیں کہ وہ حکومت چلا سکے اور جن چیلنجز کا سامنا برطانیہ کررہا ہے ان سے نبردآزما ہوسکے۔ چرچل اپنی بیوی پر چلایا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا ‘ یہ جھوٹ ہے‘ ایڈن کو تو میں نے یہاں تک پہنچایا ہے‘ میں اس کے باپ کی جگہ ہوں ‘ وہ میرے خلاف اس طرح کی سازش نہیں کرسکتا ۔ چرچل کی آواز اور لہجے میں اتنا یقین تھا کہ اس کی بیوی نے فوراً بات وہیں ڈراپ کر دی کیونکہ چرچل نے ایک ہی جملے میںبات ختم کر دی تھی کہ پوری دنیا اس کے خلاف سازش کرسکتی ہے مگر ایڈن نہیں کرے گا ۔ اس کی بیوی اپنے خاوند کو اکیلا چھوڑ کر خواب گاہ سے نکل گئی ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ چرچل جب دوسری دفعہ وزیراعظم بنا تو وہ بہت بوڑھا ہوچکا تھا۔ اس کی کابینہ محسوس کررہی تھی کہ چرچل میں اب وہ بات نہیں رہ گئی جو جنگِ عظیم دوم لڑتے وقت تھی ‘جب اس کی قیادت نے برطانیہ کو ایک یقینی شکست سے بچایا تھا؛ تاہم اس وقت یہ سوچا گیا کہ اب بھی چرچل کی انہیں ضرورت ہے‘ لہٰذا پارٹی نے انہیں دوبارہ وزیراعظم کیلئے نامزد کر دیا ؛ تاہم اس دفعہ کابینہ کو چرچل میں وہ بات نظر نہیں آتی تھی جو پہلے تھی۔ بڑھتی عمر نے چرچل کو کمزور کر دیا تھا ۔ اس کی ذہنی اورجسمانی صلاحیتیں عمر کے ساتھ پہلے جیسی نہیں رہی تھیں ۔ چرچل کی بیوی نے بھی اسے ایک دن کہا کہ تم دوسری دفعہ وزیراعظم مت بنو‘کافی ہوگیا ‘ لیکن چرچل کا خیال تھا کہ اس کے بغیر برطانیہ نہیں چل سکے گا ‘ اُس وقت برطانیہ کو ایک statesman کی ضرورت تھی اور برطانیہ میں اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔ چرچل کو بھی کچھ اندازہ ہوچلا تھا کہ اس کے خلاف پارٹی اور کابینہ میں بغاوت ہوسکتی ہے۔ بادشاہ جارج کی موت نے چرچل کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس بغاوت کو کچھ عرصے کیلئے روک سکے۔ چرچل نے ملکہ الزبتھ کی رسم ِتاجپوشی کو کئی ماہ بعد کی تاریخ پر رکھ دیا ۔ ایک دن ملکہ نے چرچل سے کہا: میں سوچتی رہی آپ میری تاجپوشی اتنی تاخیر سے کیوں کرنا چاہتے ہیں اور میرے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ جب تک تاجپوشی نہیں ہوگی اس وقت تک آپ کی پارٹی آپ کو نہیں ہٹا سکتی‘ لہٰذا آپ نے کوشش کی ہے کہ میری تاجپوشی کو التوا میں ڈال دیاجائے تاکہ آپ کی وزارتِ عظمیٰ کو خطرہ نہ رہے۔ چرچل ہکا بکا نوجوان ملکہ کو دیکھ رہا تھا جس نے اس کے اندر تراسی برس کی عمر میں بھی حکمرانی سے ہر قیمت پر چمٹے رہنے کی خواہش کو پڑھ لیا تھا۔
اس سے پہلے بادشاہ جارج کی موت سے کچھ دن قبل وزیرخارجہ ایڈن بادشاہ سے ملنے گیا جو شکار پر تھا ۔ ایڈن نے اسے بتانا شروع کیا کہ کیسے چرچل اس وقت اہم ایشوز کو ایڈریس کرنے میںناکام ہورہا تھا جبکہ روس‘ امریکہ اورقومی اہمیت کے دیگراہم ایشوز تھے‘ جن پر فوری توجہ کی ضرورت تھی۔ بادشاہ نے پوچھا :فارن سیکرٹری پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟ایڈن بولا: آپ بادشاہ جارج نہیں بلکہ ایک دوست البرٹ ( بادشاہ کا اصلی نام) کے طور پر چرچل سے بات کریں۔ بادشاہ نے جواب دیا: چرچل کا دوست البرٹ تو اُس دن مرگیا تھا جس دن وہ بادشاہ بنا ۔ میں چرچل کو نہیں کہوں گا کہ وہ وزیراعظم کا عہدہ چھوڑکر کسی نوجوان کو اپنی جگہ دے۔ اس پر ایڈن بولا:کیا آپ چرچل سے بات نہیں کریں گے‘ چاہے یہ انتہائی حساس قومی سلامتی کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہو؟ بادشاہ جارج نے طعنہ مارا: قومی سلامتی کا مفاد یا چرچل کا وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا فارن سیکرٹری ایڈن کے مفاد میں ہے تاکہ وہ اس کی جگہ لے سکے؟جب چرچل کی بیوی تک یہ بات پہنچی اور اس نے خاوند کو بتائی تو چرچل ماننے سے انکاری ہوگیاکہ پوری دنیا اس کے خلاف سازش کرسکتی ہے‘ انتھونی ایڈن ایسا نہیں کرے گا ۔
کرائون کا یہ غیرمعمولی سین دیکھ کر میرے دل سے سارا بوجھ اُتر گیا ۔ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا ہوں ۔ ان تمام لوگوں سے سب گلے شکوے دور ہوگئے جن کے بارے خیال تھا کہ وہ کبھی میرا بُرا نہیں چاہیں گے کیونکہ آپ انہیں بچوں کی طرح سمجھتے ہیں‘ جیسے چرچل اپنے فارن سیکرٹری انتھونی ایڈن کو سمجھتا تھا۔ دنیا میں تقریبا ًہر شخص زندگی میں ایک دو دفعہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے قریبی دوست یا عزیز نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔ہم انسان کمزور ہیں۔ انسانوں پر بھروسہ کرنا جبلت ہے تو اس بھروسے کو توڑنا اور دھوکا دینا بھی انسانی جبلت ہے۔ انسان کیسے اپنی جبلتوں کے خلاف بغاوت کرسکتا ہے؟انسان کے پاس آپشن ہوتا ہے ‘وہ اپنی جبلت کے خلاف بغاوت کرے یا اپنے محسن کے خلاف ‘ مگر انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان اپنے محسنوں کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ہوسکتا ہے آپ میں سے بہت سے لوگ یہ ماننے سے انکار کریں ۔ چرچل جیسا زمانہ شناس‘ مردم شناس اور ذہین آدمی بھی اپنی بیوی کی بات ماننے سے انکاری ہوگیا کہ جس فارن سیکرٹری کا اس نے باپ کی طرح خیال رکھا وہ اس کے خلاف سازش کرے گا ‘یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد اسی فارن سیکرٹری نے چرچل کے خلاف خفیہ محاذ کھولا اور وزیراعظم بن گیا۔ بوڑھا چرچل منہ دیکھتا رہ گیا ۔ ویسے تو رومن جنرل سیزر بھی بروٹس کو اپنا بیٹا سمجھتا تھا کیونکہ وہ اس کی عزیز ترین محبوبہ کی اولاد تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ سیزر نے خنجر کا وار کھا کر کہا تھا: بروٹس تم بھی؟ مگر انتھونی ایڈن نے چرچل کو یہ کہنے کی مہلت بھی نہیں دی!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر