مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یٹے نے کہا، بس مجھے ڈرائیونگ لائسنس مل جائے۔ پھر آپ کو اوبر نہیں چلانے دوں گا۔
بیوی نے کہا، کسی کو مت بتائیے گا کہ آج کل آپ اوبر چلارہے ہیں۔
بیٹی نے کہا، ایک تو پاپا جھوٹ نہیں بولتے۔ دوسرے یہ کہ لکھنے والا زندگی کا ہر تجربہ لکھتا ہے۔ پاپا کو بھی اوبر کے تجربات کو قلم بند کرنا چاہیے۔
تو جناب عالی، قلم، بند کرلیا ہے۔ گاڑی اسٹارٹ کرلی ہے۔
کراچی میں میرے پاس دو گاڑیاں تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک گاڑی ڈرائیور نے ٹھونک دی۔ اسی دن شدید بارش ہوئی اور دوسری دفتر کی پارکنگ سے ہلنے کو تیار نہ ہوئی۔
کریم بک کی۔ گاڑی میں بیٹھا تو نوجوان نے کہا، مبشر بھائی، میں بھی کچھ عرصے پہلے جیو میں کام کرتا تھا۔ نوکری چلی گئی۔ اب ٹیکسی چلا رہا ہوں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اس دن کی روداد فیس بک پر لکھی تھی۔
سوچا نہیں تھا کہ کسی دن خود بھی ٹیکسی چلانا پڑے گی۔
ویب سائٹ چلانے کے وسائل بند ہوئے، نئی ملازمت نہ مل سکی اور گھر کا راشن ختم ہوا تو میں نے گاڑی پر اوبر کا اسٹیکر لگایا اور ایپ آن کرلی۔
بیوی بچوں کو بہت برا لگا۔ لیکن میں نے بتایا کہ کرایہ نہ دیا تو مالک مکان گھر سے نکال دے گا۔ پھر وہ جو کہے گا، وہ زیادہ برا لگے گا۔
امریکا کافی مہنگا ہے۔ وائس آف امریکا کی تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ اوبر کی کمائی اس سے بھی کم ہے۔ لیکن بہرحال کرائے اور راشن جوگے پیسے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
واشنگٹن چھوٹا سا شہر ہے۔ میں پیدل بھی کافی گھوما ہوں لیکن ٹیکسی والا جس طرح شہر کو دیکھتا ہے اور چپے چپے سے واقف ہوجاتا ہے، ویسے کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔
ہالی ووڈ کی فلم ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی میں روبن ولیمز اپنے طلبہ کو یہی سکھاتا ہے کہ پرسیپشن بدلنے سے منظر بھی بدل جاتا ہے۔
میں کبھی سواری کی طرف نہیں دیکھتا۔ گاڑی چلاتے ہوئے باتیں نہیں کرتا۔ لیکن بعض لوگ باتیں کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ خاص طور پر بڑی عمر کے انکل اور آنٹیاں۔
ہر شخص کے پاس ایک کہانی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ براہ راست کہانی سنادیتے ہیں۔ کچھ فون پر گفتگو کرتے ہیں تو کہانی ملتی ہے۔ کبھی دو افراد ساتھ سفر کریں تو ان کی باتیں کہانی بن جاتی ہیں۔
کوئی پبلشر مل جائے تو اوبر کہانیاں کے عنوان سے کتاب چھپ سکتی ہے۔
اندازہ ہوا کہ خواتین اور لڑکیاں اوبر زیادہ استعمال کرتی ہیں۔ ہر دس میں سے سات آٹھ سواریاں خواتین ہوتی ہیں۔
میں رات گئے بھی گاڑی چلاتا ہوں۔ یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ بہادر اور خود مختار خواتین بے خوف ہوکر سفر کرتی ہیں۔
لیکن ایک دن ایک لڑکی ایسی ملی جس نے کہا، میں پہلی بار آدھی رات کو سفر کررہی ہوں۔ ڈر لگ رہا ہے۔
معلوم ہوا کہ وہ امریکی نہیں تھی۔ کسی یونیورسٹی کی غیر ملکی طالبہ تھی۔
میں نے اسے دلاسا دیا کہ واشنگٹن محفوظ شہر ہے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میری بیٹی تمھاری عمر کی ہے۔ وہ تو ذرا نہیں ڈرتی۔
میری بیٹی کا ذکر سن کر اس کا خوف کم ہوگیا۔
میں نے اسے منزل پر پہنچایا اور جب تک گھر کا دروازہ نہیں کھل گیا، وہیں کھڑا رہا تاکہ اسے تسلی رہے۔
لڑکی پلٹ کر واپس آئی، میرا شکریہ ادا کیا اور کہا، آپ یقیناً کسی ایسے ملک کے ہیں جہاں خواتین کا بہت تحفظ اور احترام کیا جاتا ہے۔
میں نے فخر سے کہا، اور کیا۔ میرا تعلق پاکستان سے ہے، جو دنیا میں خواتین کے لیے سب سے محفوظ ملک ہے۔ نہ وہاں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، نہ گھریلو تشدد، نہ قرآن سے شادی، نہ ہراسمنٹ اور ریپ کا تو نام و نشان نہیں۔ وہ لڑکی بہت متاثر ہوئی۔
بے شک پاپا جھوٹ نہیں بولتے لیکن ملک کی نیک نامی کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر