نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان پیپلزپارٹی، جہد مسلسل ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

30نومبر پاکستان پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہے اور ملتان میں یوم تاسیس کی تقریب ہوئی ہے جس میں پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

30نومبر پاکستان پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہے اور ملتان میں یوم تاسیس کی تقریب ہوئی ہے جس میں پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی، یہ پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخی فتح ہے کہ ماضی میں مخالف رہنے والی پارٹیاں اس کے صفحہ پر آ چکی ہیں۔

30 نومبر 1967 کو جنم لینے والی پارٹی آج بھی اپنے منشور پر ثابت قدم ہے۔

اسلام ہمارا دین ہے

جمہوریت ہماری سیاست ہے

سوشلزم ہماری معیشت ہے

جمہوریت ہماری سیاست ہے

اس بنیادی منشور پر قائم پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سمیت بے شمار جیالوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے جس کی بنیاد پر پارٹی منشور میں شہادت ہماری منزل ہے کا نقتہ شامل ہو چکا ہے۔

سینیئر صحافی نذیر ناجی جو کبھی پیپلز پارٹی کے دوست کبھی نقاد رہے ہیں نے اپنے مضمون میں میں لکھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت بار بار زیر عتاب اس لیئے ہوتی ہے کہ وہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے کہ اصول سے دستبردار نہیں نہیں ہوتی ، طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، کے اصول کے اندر بھی ایک فلاسفی ہے کیونکہ اللہ کے بعد سب سے بڑی عدالت عوام کی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی پارٹی کے کارکنوں کی خوشنصیبی یہ ہے ان کی قیادت ہمیشہ کرشمہ ساز رہی ہے، ہمارے ایک صحافی دوست عطرت جعفری جس کے والد محترم اہل علم بھی تھے اہل کتاب بھی کا کہنا ہے اصل لڑائی یہ ہے پیپلزپارٹی کے مخالف یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ موجود پاکستان بھٹو کا بنایا ہوا پاکستان ہے ، حقیقت بھی یہ ہی ہے کیونکہ قائد اعظم کا بنایا ہوا پاکستان 24 سال کے اندر ٹوٹ گیا تھا ، آج اگر پاکستان ہے تو اس کی بنیاد بھی 1973 کا آئین ہے اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کی وجہہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے جس کے بانی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید ہیں جس نے فرمایا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے ، یہ انتہائی درد ناک حقیقت پہلو ہے کہ ایٹمی پروگرام کے بانی کو ایک تصوراتی اور فرضی مقدمے کی آڑ میں تختدار پر لے جایا اور باور کرایا گیا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں گھاس نہیں اگتی، میں عرض یوں ہی نہیں کیا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت ہمیشہ کرشمہ ساز رہی ہے کون کیسے بھول سکتا ہے کہ اقتدار کے لالچی جنرلوں نے اپنی قوم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں بھارتی جنرلوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر نہ صرف قوم کو شرمسار کیا تھا بلکہ ان کی نالائقی کی وجہ سے موجودہ پاکستان بھی راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا ، جی ہاں اس ملک کی دوبارہ تعمیر کرنے والے شہید بھٹو ہی تھے ، یہ کرشماتی شخصیت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی تھی کہ چار سال کے اندر انہوں نے دن رات محنت کرکے پاکستان کو دنیا کے باوقار ممالک میں شامل کیا ، مذاکرات کے میز پر ناقابل شکست بھٹو شہید نے بھارت کے قبضے میں چلی گئی ہزاروں مربع میل اراضی بھی واپس لی ، 90 ھزار فوجی افسروں اور جوانوں کو باعزت رہا کروا کر پاکستان لائے۔

لاہور میں دنیا بھر کے مسلم ممالک کا اتحاد بنایا ، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، ملک کو متفقہ دستور دیا ، ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا، ہیوی مکینکل اور ایرو ناٹیکل جیسے ادارے بنائے ، پاک چین دوستی قائم کی ، ہر پاکستانی کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کا حق دیا ، قائد عوام نے سیاست کو محلات سے نکال کر کچی بستیوں کے بدحال انسانوں کے قدموں میں کھڑا کردیا، عوام کو سیاسی شعور ، فخر سے جینے کا ڈھنگ اور بولنے کیلئے زبان دی۔

جب ملک ترقی کی منازل طے کرنے لگا تو 5 جولائی 1977 کو اقتدار کے لالچی جنرلوں نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ملک کو فتح کیا بلکہ قومی غیرت، خود داری اور آزادی کو گروی رکھ کر اقتدار حاصل کیا ، ان بیشرم جنرلوں نے اپنے ناجائز اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے عوامی شعور کو کچلنے کیلئے طاقت کا بھرپور اور سفاکانہ استعمال کیا ، یہ پیپلزپارٹی کے جیالے ہی تھے جنہوں نے تختہ دار پر جھول کر اور کوڑوں کی بارش کے باوجود جیئے بھٹو کا نعرہ بلند کرکے وطن کی مٹی کے سوداگروں کے حوصلے کو شکست دیتے رہے۔

ان جیالوں کے حوصلے کی بنیاد محترمہ بینظیر بھٹو شہید تھیں جو اقتدار کے لالچی جنرلوں کیلئے اعصاب شکن تھی، محترمہ بینظیر بھٹو شہید وطن کی آزادی کے سوداگر جنرلوں کیلئے چیلنج بن گئی، جو جیل کی آہنی دیواروں کے اندر قید رہ کر اقتدار پر قابض جنرلوں کی ننید حرام کر رہی تھیں، آج ان جیالوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے جمہوریت اور آئین کی بحالی کیلیئے اپنا سب کچھ قربان کردیا یہ ہی پیپلزپارٹی کی میراث ہیں، جمہوریت کیلئے پیپلزپارٹی کے جیالوں نے آگ اور خون کے کئی دریاع عبور کیئے ، جس قدر پیپلزپارٹی کے جیالوں کا قتل عام ہوا ہے اتنے انسان تو دو ممالک کے درمیان جنگ میں بھی نہین مارے جاتے ، جتنی قوت پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کو ختم کرنے پر استعمال کی گئی ہے۔

اگر مقبوضہ کشمیر کی آزادی پر استعمال کی جاتی تو مقبوضہ کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا، آج پیپلزپارٹی 53 یوم تاسیس کے موقع  پر اپنے اصولی موقف پر فتحیاب ہوکر نئے عہد میں داخل ہو رہی ہے۔

یہ پیپلزپارٹی کی اصولی اور جمہوری فتح ہے جس کا سہرا جناب آصف علی زرداری کے سر ہے ، کوئی شک نہیں جناب بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے نانا کی طرح طرح کرشمہ ساز ہیں ، اس سارے منظر جب جمہوریت کے صفحہ پر ملک کی تمام جمہوری قوتیں پی ڈی ایم پر جمع ہیں تو یہ کرشمہ ساز بلاول بھٹو زرداری کی پہلی سیاسی فتح ہے۔

فوجی آمر جنرل ضیا کی آمریت انتہائی اور بے شرم آمریت تھی اس نے سیاسی شعور اور جمہوری آزادی کو بے رحمی سے پامال کیا انہوں نے میڈیا ہاوسز کے مالکان کو تو خرید لیا مگر جمہوریت پسند صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا، جیالوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر بھی جبر کا ہر حربہ استعمال کیا، اس سفاک اور بے رحم آمریت میں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کیلیئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید حوصلے اور استقامت کی علامت رہیں ، یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید دنیا بھر میں آمریتوں سے آزادی کیلئے لڑنے والوں کیلئے مشعل راہ تھیں ، یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اقتدار کے لالچی اور خود غرض جنرلوں کی ننیدیں حرام کردی تھیں، اس زمانے میں انقلابی اور مزاحمتی ادب اور شاعری کا محور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید تھیں، یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو ذہنی اذیت دینے کیلئے پی پی پی کے جیالوں کو عتاب کا نشانہ بنانے والوں نے جناب آصف علی زرداری کو نشانہ بنانا شروع کردیا ، جس کیلیئے آصف علی زرداری پہلے ہی ذہنی طور تیار تھے کیونکہ انہیں شہید بھٹو کے داماد اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے شریک حیات ہونے کی قیمت ادا کرنی تھی ، جو آصف زرداری نے زندگی کے سنہری اور بہترین دن قید کی نظر کردیئے۔

آصف علی زرداری قید میں رہے ، جیالوں کو شرمندہ نہیں کیا ، ان کی رگوں میں ایک بھادر باپ کا خون تھا ، جب صدارت کے منصب پر بیٹھے تو شہید قائد عوام کے داماد ہونے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے جانشین کا حق بھی ادا کیا ، جناب آصف علی زرداری کا ماننا ہے کہ ان کی سیاسی استاد محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہیں انہوں نے جمہوری انداز میں جمہوریت سے لڑائی کرنے والوں سے حساب برابر کردیا، صدر زرداری نے اپنے وہ اختیارات جو آمروں نے پارلیمنٹ سے ہتھیائے تھے پارلیمنٹ کو واپس دیکر غیر جمہوری عناصر کو اعصابی شکست دی ، صدر آصف علی زرداری نے 1973 کے آئین کو اصل صورت میں بحال کرکے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جدوجہد کو فتح سے ہمکنار کیا۔

پانچ سال کی قلیل مدت میں اپنی قائدانہ صلاحیت پر شہید ذوالفقارعلی کے وعدے کے مطابق صوبوں کو خود مختاری بھی دی اور پختون اور گلگت بلتستان کے عوام کو شناخت بھی دی ، یہ صدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ان غریب خواتین تک رسائی حاصل کی جو ریاست کے ثمرات کی حقدار تھیں ، انہوں نے آغاز حقوق بلوچستان کے ذریعے ایک نئے عہد کی شروعات کی تھی، سی پیک کا بانی بھی بانی بھی وہ ہیں اور پاک ایران گیس پائپ لائن کے بانی بھی۔

آصف علی زرداری وطن پرست بھی ہیں پاکستانی قوم پرست بھی، وہ جمہوریت کے علمبردار بھی ہیں اور آئین کے نگہبان بھی ، آصف زرداری جمہوریت سے نفرت کرنے والوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چھپ رہے ہیں،

About The Author