نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریونیو عوامی خدمت کچہری اور مظلوم بیوہ کی تلخ کہانی۔۔۔جاوید اقبال

مجھے قومی امید ہے کہ ریونیو عوامی خدمت کچہری کے ضلعی کپتان ضرور بروقت انصاف کی فراہمی میں اپنا غیر جانبدارانہ و منصفانہ کردار ادا کریں گے

جاوید اقبال۔رحیم یارخان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح ضلع رحیم یار خان میں بھی 2نومبر 2020ء کو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ہدایت پر ضلع کی چاروں تحصیلوں میں ریونیو عوامی خدمت کچہریوں کا انعقاد کیا گیا. رحیم یار خان سپورٹس جمنازیم میں ڈپٹی کمشنر علی شہزاد کی سربراہی میں ریونیو عوامی خدمت کچہری لگائی گئی. جس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریونیو)ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر، اسسٹنٹ کمشنر سرمد علی بھاگت،اسسٹنٹ کمشنر(ایچ آر)ریاست علی چودھری سمیت تحصیلدار، سب رجسٹردار، انچارج اراضی ریکارڈ سنٹر، اے ڈی ایل آر اور دیگر ریونیو عملہ موجود تھا جبکہ تحصیل صادق آباد کے صادق کلب میں اسسٹنٹ کمشنر عامر افتخار، تحصیل خانپور میونسپل کارپوریشن ہال میں اسسٹنٹ کمشنر محمد یوسف چھینہ اور تحصیل لیاقت پور کے اراضی ریکارڈ سنٹر میں اسسٹنٹ کمشنر ارشد وٹو نے ریونیو عوامی خدمت کچہری میں متعلقہ افسران و سٹاف کے ہمراہ عوامی درخواستوں پر احکامات جاری کئے۔ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے سپورٹس جمنازیم رحیم یار خان میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریونیو)ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر، اسسٹنٹ کمشنر سرمد علی بھاگت کے ہمراہ عوامی مسائل سنتے ہوئے موقع پر ہی دادرسی کے احکامات جاری کئے۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرعلی شہزاد نے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کے احکامات پر تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور ریونیو افسران کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ محکمہ مال کا تما م ریکارڈ مکمل ہونا چاہیے تاکہ شہریوں کے مسائل حل کرنے میں دیر نہ ہو۔ریونیو افسران و سٹاف سرکاری اور شہریوں کی ملکیتی زمینوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں اگر سرکاری یا نجی ملکیتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کی شکایت پر محکمہ مال کے افسران کی غفلت پائی گئی تو متعلقہ ریونیو افسر و عملہ ذمہ دار ہوں گے اور ان کا کڑا احتساب کیا جائے گا۔حکومت پنجاب کے ریونیو عوامی خدمت کچہری کے انقلابی قدم سے زمینوں سے متعلق عوامی مسائل کی براہ راست نشاندہی اور ان کے حل میں عملی پیش رفت ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ سابقہ کچہری میں رحیم یار خان میں244جبکہ ضلع بھر میں مجموعی طور پر356افراد نے رابطہ کیا اور اس میں سے346کے مسائل موقع پر حل کئے گئے۔ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ریونیو سٹاف کی محکمانہ کارکردگی پر نظر رکھیں اور ریونیو ریکارڈ کی تسلسل کے ساتھ مختلف زاویوں سے چھان بین کا عمل جار ی رکھا جائے ۔ریونیو عوامی خدمت کچہریوں میں ایک چھت تلے عوام کو درستگی ریکارڈ، فرد اجراء ، انتقالات کا اندراج، رجسٹری، انکم سرٹیفکیٹ، معائنہ ریکارڈ، ڈومیسائل اجراءاور دیگر ریونیو سے متعلقہ امور فوری حل کئے جا رہے ہیں ۔ریونیو عوامی خدمت کچہری میں سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں نے اپنے مسائل کے حل کےلئے تحریری درخواستوں کے ہمراہ رجوع کر رہے ہیں.
محترم قارئین کرام،، بلاشبہ ریونیو عوامی خدمت کچہریاں لگانے کا فیصلہ اور اقدام نہایت ہی خوش آئند بات ہے. اللہ کرے کہ ایک ہی چھت تلے لگائی جانے والی ان خدمت کچریوں میں عوام کے مسائل حل ہوں اور انہیں بلاتفریق انصاف میسر آ سکے. ہمیں حکمرانوں کی نیت اور انتظامیہ کے عملی اقدامات پر شک نہیں کرنا چاہئیے. اچھائی اور خیر کی امید کے ساتھ ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی اور سپورٹ کرنی چاہئیے. لیکن بار بار دن کی روشنی میں سانپوں کے ڈسے ہوئے لوگوں کا رات کی تاریکی میں رسی سے ڈرنا بھی کوئی بعید اور عجیب بات نہیں ہے. علی شہزاد ہوں یا ڈاکٹر جہانزیب لابر یقینا مثبت و اصلاحی سوچ کے حامل آفیسران ہیں. ہم نے اکثر سیاسی ادوار میں دیکھا ہے کہ اداروں اور مختلف دفاتر میں صاحب اقتدار گروپ کے بااثر حضرات کی بے جا سیاسی مداخلت اچھے آفیسروں کی اچھائی اور نیک نامی کو چاٹ جاتی ہے.بے شمار کھلی کچہریوں میں پیش ہونے والوں اور دی جانے والی درخواستوں پر حقیقی کاروائی کہاں، کیسے، کتنی اور کس قدر ہوتی ہے. اگر ماضی کے اس کڑوے سچ اور حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یقین کریں یقین نہیں آتا. میرا تو ایمان ہے کہ اگر کہیں پر انصاف موجود ہو تو انصاف اپنی موجودگی کا احساس خود دلاتا ہے.انصاف خود صرف بولتا ہی نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر بولتا ہے.
مجھے کافی امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار انصاف فراہم کرنے والے انتظامی اداروں میں سیاسی مداخلت کے دروازے بند کرکے ایک مضبوط اور اچھی بنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوں گے. بشرطیکہ اگر وہ ساتھ ساتھ نگرانی کرتے رہے اور وقفے وقفے سے اپنی منجھی کے نیچے ڈانگ پھیرتے رہے تو انصاف کا ضرور بول بالا ہوگا.
میں اپنے ضلع کے ڈپٹی کمشنر علی شہزاد، نئے آنے والے کمشنر بہاول پور کیپٹن(ر) ظفر اقبال، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی خدمت میں رحیم یار خان کی ایک شریف درانی فیملی کی بیوہ خاتون اور اس کے یتیم دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی زمین اقتدار کی طاقت، دھونس، قبضہ گیری، جعل سازی اور فراڈ کے ذریعے ہڑپ کرنے کی سچی اور کھری داستان سرسری طور پر پیش کر رہا ہوں. بیوہ خاتون شاہدہ تسنیم درانی اور اس کے بچوں کی تحصیل رحیم یار خان کے چک76این پی اور موضع محمد پور قریشیاں میں واقع 46ایکڑ 6کنال کے لگ بھگ قمیتی زمین محکمہ شکار کا اعزازی گیم وارڈن رشید کورائی اور ان کے دیگر ساتھی کس طرح ہتھیانا چاہتے ہیں. زمین ہتھیانے کی خاطر بیٹے اجمل رشید ایڈووکیٹ کا گھر اجاڑنے والے رشید خان کورائی جوکہ مقامی اہم حکومتی شخصیات کے دست خاص ہیں.اب یہ شخص اپنی سابق بہو حنا خورشید درانی اور اس کے خاندان کے ساتھ طاقت کے نشے میں کیا کیا ظلم و زیادتیاں کر رہا ہے. کچھ کاغذات پر جبرا دستخط کروانے کی دو تین کوششیں کی جاتی ہیں. ناکامی پر گھریلو تشدد کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں. بہو کو بمعہ دو بچے گھر سے نکال دیتے ہیں.تنسیخ نکاح کے ذریعے علیحدگی ہوتی ہے. جہیز کا سامان واپس نہیں کرتے بچوں کے کفالتی اخراجات عدالت میں جمع نہیں کرواتے . اس کی تفصیلات بیان کرنے کےلیے کم ازکم تین کالم ضروری ہیں.رشید کورائی محض زمین کا مستاجر تھا اور مالکان شاہدہ تسنیم وغیرہ کا ڈیفالٹر ہے. مالکان اس سے بقیہ رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں اور آئندہ کے لیے اسے زمین ٹھیکے پر دینے کی بجائے رقبہ خالی کرنے کا کہتے ہیں. یہ شخص بپھر جاتا ہے. نہ صرف زمین خالی کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے بلکہ موقع پر جانے والے مالکان کو اپنے غنڈوں کے ذریعے مار کر کتوں کے آگے ڈالنے جیسی سنگین دھمکیاں دیتا ہے. اپنے دیگر حواری ساتھیوں عاشق حسین کورائی، مختیار کورائی کے ذریعے جعل سازی کرکے عدالت میں جھوٹا کیس دائر کر دیتا ہے.کیس کی پیروی و پیشی کے دوران ڈسٹرکٹ کچہری میں حنا خورشید اس والدہ اور کونسل کا راستہ روکا جاتا ہے دھکے اور غلیظ قسم کی گالیاں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں. درخواست کے باوجود شہر کے ماڈل تھانے سٹی اے ڈویژن میں ملزمان کے خلاف پرچہ درج نہیں کیا جاتا. ڈی ایس پی کی موجودگی میں ہونے والے کٹھ میں سابق شوہر اجمل رشید کورائی حنا خورشید کو گولیاں مارنے اور قتل کرنے تک کی دھمکی دیتا ہے تب بھی اسے نہ کوئی روکتا ہے اور نہ اس کے خلاف کاروائی ہوتی ہے.یقینا آپ کا سوال ہوگا کیوں?. ملزمان کا پولیس سے یارانہ اور صاحب اقتدار بااثر وزراء کی طاقت. یہ بہت بڑا گروہ ہے اور غیر اعلانیہ گینگ ہے. مجھے سابق ڈی پی او طارق حنیف جوئیہ کے یہ الفاظ یاد آ رہے ہیں. اپنے دفتر میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں طارق حنیف جوئیہ نے کہا تھا کہ بہت جلد رشید کورائی گینگ کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا.ان دنوں خان پور کے ایک کورائی گینگ سے درجنوں موٹر سائیکلیں اور چوری و ڈکیتی کا دیگر سامان برآمد ہوا تھا. تھانہ رکن پور اور کوٹسمابہ کے علاقوں میں نقلی داڑھیاں لگا کر ڈکیتیاں کرنے والا گروہ بھی پہلی بار اس دور میں بے نقاب ہوا تھا.
جس شخص اور قبضہ گروپ کے پاس زمین خریدنے کا کوئی معاہدہ نہیں، کوئی ریکارڈ اور کوئی ثبوت نہیں. زمین خریدنے کےلین دین رقم وغیرہ کا کوئی ثبوت نہیں. جعل سازی والے اشٹام پیپر کے علاوہ.اشٹام پپیر بھی ایسا جو خود چیخ چیخ کر جعل سازی کی گواہی دے رہا ہے. ایسے گروہ پر تو فورا فراڈ اور جعل سازی کا مقدمہ درج ہونا چاہئیے. لیکن افسوس کہ اتنے حقائق سامنے آ جانے کے بعد بھی انہیں تحفظ فراہم کرنے والے یہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ ہماری مرضی چلے گی ہم جو چاہیں گے وہی ہوگا. اقتدار کی زبان اور اقتدار کا نشہ بھی بڑی عجیب چیز ہوتے ہیں. انسان انسانوں کے زمینی خدا بننے کے دعوے کرنے لگتے ہیں.
محترم قارئین کرام،، صوبائی و وفاقی، وردی اور بغیر وردی والی پاکستان کی تمام ایجنسیوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر اس پوری داستان کی مکمل چھان بین کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا.میرٹ اور انصاف ہونا چاہئیے حقداروں کو حق ملنا چاہئیے. میرٹ اور انصاف کے راستے روکنے والوں کو بے نقاب کیا جانا چاہئیے.
مجھے قومی امید ہے کہ ریونیو عوامی خدمت کچہری کے ضلعی کپتان ضرور بروقت انصاف کی فراہمی میں اپنا غیر جانبدارانہ و منصفانہ کردار ادا کریں گے.ریونیو کے حوالے سے یہ کیس اس وقت اسسٹنٹ کمشنر رحیم یار خان سرمد علی بھاگت کے پاس زیر سماعت ہے. رشید کورائی کو طلب کر کے صرف اتنا پوچھا جائے کہ وہ کس حیثیت سے معاہدہ مستاجری ختم ہو جانے کے باوجود زمین پر قابض ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہی

About The Author