نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست اور کرکٹ میں فرق ۔۔۔ نصرت جاوید

عمران خان صاحب کو مسلسل یہ گماں لاحق ہے کہ اپنی 22 سالہ جدوجہد کے ذریعے انہوں نے نواز شریف جیسے سیاستدانوں کی ’’حقیقت‘‘ عیاں کردی تھی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتہائی مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عمران خان صاحب اپنے وزراء سے ان دنوں سخت ناراض ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ وہ اپوزیشن کا مؤثر انداز میں مقابلہ نہیں کرتے۔ ٹی وی سکرینوں پر بجھے بجھے نظر آتے ہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی حزب مخالف کو منہ توڑ جواب نہیں دیتے۔

وزیر اعظم کے مبینہ غصے کی وجوہات میں نے ایک صحافی کے تجسس کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میری ’’تحقیق‘‘ بالآخر ایک بار پھر مجھے یاد دلانے کو مجبور ہوئی کہ خان صاحب بنیادی طورپر سیاست دان نہیں فاسٹ بائولر ہیں۔ مخالف کھلاڑی کو جم کر کھیلنے کا موقعہ نہ دینا بائولر کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اس کی ’’وکٹ اُڑانے‘‘ کو وہ ہمہ وقت بے چین رہتا ہے۔ آئوٹ ہونے کے بجائے بلے باز چوکے چھکے لگانا شروع ہوجائے تو بائولر پریشان ہوجاتا ہے۔ سیاست مگر کرکٹ نہیں۔ اس کھیل کی مخصوص مبادیات اور جدلیات ہیں۔ مقابلے کا آغاز یہاں بیانیے سے ہوتا ہے۔ اکتوبر2011کے لاہور والے جلسے کے بعد سے عمران خان صاحب کے بیانیے کو حیران کن پذیرائی نصیب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ’’کرپشن‘‘ اس کی بدولت پاکستان کا اصل مسئلہ نظر آئی۔ عمران خان صاحب پاکستانیوں کی مؤثر تعداد کو اس امر پر بھی قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ سیاست دانوں کا ’’روپ دھارے‘‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے ’’چور اور لٹیرے‘‘ وطنِ عزیز کی پسماندگی کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ ان کی جماعتیں موروثی سیاست کی نمائندہ ہیں۔ اقتدار میں ’’باریاں‘‘ لیتی ہیں۔ کسی ’’غیر‘‘ کو اقتدار تک پہنچنے نہیں دیتیں۔ عمران خان صاحب کا اصل کمال خود کو ایک درویش صفت Outsider کے طورپر پیش کرنا تھا۔ کرکٹ نے انہیں Celebrity بنایا تھا۔ اس Status کو انہوں نے لاہور میں کینسر کے علاج کا جدید ترین ہسپتال تعمیر کرنے کے لئے استعمال کیا۔ خلقِ خدا کی خدمت کے جذبے سے مغلوب ہوکر ہی وہ روایتی سیاست دانوں کو للکارنے پر مجبور نظر آئے۔ اقتدار کے کھیل سے بے غرض لاتعلق والے Image نے انہیں معاشرے کے کئی ایسے طبقات خاص طورپر نوجوانوں کو متحرک کرنے میں بھرپور معاونت فراہم کی جو سیاست کو ’’دھندا مگر گندا‘‘ سمجھتے ہوئے اس سے لاتعلق رہا کرتے تھے۔ کسی بھی نوعیت کی سیاست کا حتمی ہدف مگر اقتدار کا حصول ہی ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اقتدار پارلیمانی نظام کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نصیب ہوتا ہے۔ یہ Outsider یا ’’انقلابی‘‘ نظر آتے رہ نما کو بھی بالآخر نام نہاد Electables کا محتاج بنادیتا ہے۔ عمران خان صاحب کو اس محتاجی کی اہمیت حقیقی معنوں میں 2013 کے انتخاب کے بعد دریافت ہوئی۔ اس کے بعد جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں کے سلسلے شروع ہوگئے۔ نواز شریف کو تحریک انصاف نے کسی عوامی تحریک کے ذریعے گھر نہیں بھیجا تھا۔ پانامہ پیپرز اس حوالے سے کلیدی سبب ہوئے۔ ثاقب نثار نے آصف سعید کھوسہ جیسے دبنگ منصفوں کی مدد سے نواز شریف کو ’’صادق وامین‘‘ ثابت نہ ہونے دیا۔ عدالتی فیصلے مگر کسی سیاست دان کو کامیاب یا ناکام بنانے میں حتمی کردار ادا نہیں کرتے۔ عوام کے ذہنوں میں ان کے بارے میں موجود تاثر یا Perception ہی اس ضمن میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ عمران خان صاحب اس حقیقت کا ادراک ابھی تک کر نہیں پائے۔ ان کا سادہ مزاج سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ پاکستانیوں کی معقول تعداد خاص طور پر وسطی پنجاب کے وسیع تر حلقے ابھی تک سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ٹھہرائے نواز شریف سے نفرت کو تیار کیوں نہیں ہورہے۔

عمران خان صاحب کو مسلسل یہ گماں لاحق ہے کہ اپنی 22 سالہ جدوجہد کے ذریعے انہوں نے نواز شریف جیسے سیاستدانوں کی ’’حقیقت‘‘ عیاں کردی تھی۔ عدالتی فیصلوں نے بھی ان کے بیانے کو اثبات فراہم کیا۔ جن سیاستدانوں کی بے دریغ کرپشن کو انہوں نے بے نقاب کیا انہیں اور ان کے حامیوں کو تو ان دنوں لوگوں سے شرم کے مارے منہ چھپانے کی ضرورت تھی۔ وہ مگر PDM نامی اتحاد میں جمع ہوکر ملک کے کئی شہروں میں تعداد کے اعتبار سے بھاری بھر کم اجتماعات منعقد کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ پیمرا کے ذریعے Regulate ہوا میڈیا ان اجتماعات کو اگرچہ ویسی Coverage فراہم نہیں کررہا جو افتخار چودھری کی بحالی کے لئے چلائی تحریک اور عمران خان صاحب کے دھرنوں اور جلسوں کو میسر ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا نے مگر خلا کو بہت تیزی سے پُر کر دیا ہے۔ یوٹیوب پر چھائے حق گو Influencer بھی پارسائی کی گھن گرج سے محروم ہوئے نظر آرہے ہیں۔

اکتوبر 2011 سے عمران خان صاحب کی Core Constituency یا جنونی حامی اس گماں میں مبتلا رہے کہ ان کے ’’ہیرو‘‘ کو اقتدار مل گیا تو پاکستان میں ویسے ہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے جو فرانس اور ایران میں انقلاب کے بعد رونما ہوئے تھے۔ ہمارے شہروں کے بڑے چوکوں میں ’’کرپٹ‘‘ سیاستدان درختوں سے اُلٹے لٹکے ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ قومی خزانے کو لوٹاتے نظر آئیں۔ ’’لوٹی ہوئی دولت‘‘ حاصل کرنے کے بعد عمران خان صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ غیر ملکی قرضے بھی یکمشت ادا کردئیے جائیں گے۔ بجلی اور گیس انتہائی ارزاں نرخوں پر میسر ہوگی۔ بازار میں رونق لگی رہے گی۔ جو خواب دکھائے گئے تھے ان کی عملی تعبیر کسی بھی اعتبار سے ممکن ہی نہیں تھی۔ خان صاحب کو اقتدار سنبھالے اب دو برس گزرگئے ہیں۔ ان برسوں میں بالآخر IMF ہی سے رجوع کرنا پڑا۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے امکانات بھی معدوم تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ عمران خان صاحب یہ سمجھنے سے قطعاََ قاصر ہیں کہ عوام کے مابین دن بدن گہری ہوتی مایوسی کا اصل سبب تحریک انصاف اور اس کے ترجمانوں کے دکھائے خوابوں کا بالآخر سراب ثابت ہونا ہے۔ بے رحم احتساب والا بیانیہ اب پٹ چکا ہے۔ ہم ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آچکے ہیں۔ حالات کو معمول پر لانے کے لئے حکومت کو اب اپنے بنیادی فریضہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ترجمانوں کے دھواں دھار One Liners اور وزراء کی اپوزیشن جماعتوں کے خلاف تند و تیز تقاریر اب کسی کام نہیں آئیں گے۔

حالات میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا بھرپور اظہار بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی ہوا۔ حکومتی صفوں سے جب بھی مراد سعید کھڑے ہوتے تو ہذیانی تقریر سے حزب مخالف کو دیوار سے لگادیتے۔ بدھ کے روز انہوں نے کوئٹہ میں PDM کے جلسے میں ہوئی چند تقاریر کے بارے میں ’’مذمتی قرارداد‘‘ پڑھی۔ اس کے بعد ایک دھواں دھار تقریر کے ذریعے PDM کی صفوں میں ’’گھسے غداروں‘‘ کے لتے لینا شروع کردئیے۔ نواز شریف کو Certified ’’جھوٹا‘‘ پکارا۔ اصرار کیا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ’’بدعنوان‘‘ قائدین کے لئے NRO کی طلب گار ہیں۔ یہ فرمانے کے بعد انہوں نے انتہائی ڈرامائی انداز میں اس ’’تجویز‘‘کے ورق پھاڑنا شروع کردئیے جو بقول ان کے اپوزیشن نے نیب قوانین میں نرمی لانے کے لئے حکومت کو ’’تحریری‘‘ طورپر پیش کی تھی۔ کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ نواز شریف کی جیل سے پہلے ہسپتال اور بعد ازاں لندن چلے جانے کے بعد NRO نہ دینے کے دعوے اب کھوکھلے سنائی دینا شروع ہوگئے ہیں۔ نواز شریف جیل سے سرنگ کھود کر ’’فرار‘‘ نہیں ہوئے تھے۔ لندن کے لئے وہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد ہی روانہ ہوئے۔ مان لیتے ہیں کہ انہوں نے بیماری کا ’’ڈرامہ رچایا‘‘ تھا۔ اس الزام کو اگر من وعن تسلیم کرلیں تب بھی پیغام یہ ملتا ہے کہ وہ عمران صاحب کی قیادت میں کام کرتی کابینہ کی اجتماعی بصیرت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ’’چالاک اور کائیاں‘‘ ثابت ہوئے۔ ان کی لندن رخصتی کے بعد تحریک انصاف کے ترجمان اب خفت میں لکیر پیٹتے ہی سنائی دیتے ہیں۔

’’غداری‘‘ والے بیانیے کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا۔ کرپشن اور بری حکومت کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے عمران خان صاحب نے کئی ایسے بیانات دے رکھے ہیں جو اس ضمن میں ان دنوں ان کے گلے پڑرہے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے کمال ہوشیاری سے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر حربیار مری کے بارے میں خان صاحب کے دئیے ایسے ہی ایک بیان کا حوالہ دیا۔ مراد سعید کے پاس اس کا توڑ موجود نہیں تھا۔ خود کو دیوار سے لگا محسوس کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتیں اپنی بقاء کے لئے جوابی وار کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ ان سے نبردآزما ہونے کے لئے حکومت کو اب کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author