نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توشہ خانے میں عزت کی نیلامی۔۔۔عفت حسن رضوی

معاشیات کے ماہرین کی طرح ہم خود ساختہ فلسفی، لکھاری اور زبان و قلم کے شعبدہ باز اس حقیقت سے نظر چرا لیتے ہیں کہ بھوک تو جنس نہیں دیکھتی،

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’سر آپ برگر کھلا دیں بڑی بھوک لگی ہے، سرکاری پناہ گاہ میں ہم عورتیں کہاں جاتی ہیں۔‘ دبلی پتلی سی درمیانی عمر کی اس لڑکی نما عورت کا جملہ میں شاید کبھی نہ بھلا سکوں، میں اسے پنڈی کی کمرشل مارکیٹ لے گیا، برگر خرید کر دیا۔ میری بھوک اڑ چکی تھی سو اسے واپس اسی بیوٹی سیلون کی قریبی گلی میں چھوڑ دیا جہاں سے پک کیا تھا۔

ہمارے ایک جاننے والے عرصہ دراز سے مجرد ہیں، ادھیڑ عمری اپنے عروج پہ اور سرکاری نوکری میں افسری زوال کی جانب گامزن ہے۔ کال گرلز سے ان کے روابط کا کبھی علم نہ ہوتا اگر وہ خود نہ بتاتے۔ شاید کسی ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اس لیے روانی میں سارا قصہ سنا گئے۔

’جب ایک ایک کر کے بنیادی ضرورت کی چیزوں پر قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں تو اندازہ ہو رہا تھا کہ مساکین، غربا، فقرا، مفلس و محتاجوں کی تعداد بڑھے گی۔ معاشیات کے سائنس دان مہنگائی کے گراف بناتے ہوئے جسے بھول جاتے ہیں وہ ہے جسم فروشی۔ پیٹ بھوکا اور جیب خالی ہو تو اس پیشے میں بھی نئے لوگ اینٹری دیتے ہیں۔‘

سرکار کا یہ افسر وہ خواتین گنوانے لگا جن سے حال ہی میں ملاقات ہوئی، ایک اچھی عمر کی خاتون راولپنڈی کے بیوٹی سیلون میں ویکسنگ تھریڈنگ کرتی ہیں۔ ایک کم عمر لڑکی  بھی ملی جو کپڑے کی مشہور برانڈ میں سیلز گرل تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ اس بار جو کچھ عجیب ہوا ہے وہ یہ کہ اب کال گرلز روایتی جسم فروش نہیں۔ انٹرمیڈیٹ یہاں تک کے گریجویٹ بھی ہوتی ہیں، عام سے گھر کی لگتی ہیں۔

’پتہ نہیں یہ جسم بھی بیچتی ہیں یا نہیں لیکن اپنے چند گھنٹوں کے عوض موبائل بیلنس، فاسٹ فوڈ کا کھانا، برینڈ کے کچھ کپڑوں جوتوں کی خریداری اور تھوڑے پیسوں کی ڈیمانڈ ضرور کرتی ہیں۔ میں ان کی چھوٹی چھوٹی حسرتوں پہ حیران ہوں۔‘

’ایک لڑکی شاید بچوں کی ماں تھی اس نے شاپنگ کی فرمائش کی تو اسے یہاں جناح سُپر لے آیا۔ میں نے اسے جلدی میں بچوں کے چھوٹے کپڑے اٹھاتے ہوئے دیکھ لیا تھا، لیکن پوچھا نہیں۔ بے چاری مجھے گاڑی میں جتاتی رہی کہ اس نے بہت مہنگا سوٹ خریدا ہے اس لیے بل زیادہ بنا۔‘

جس صدق دل سے انہوں نے یہ عجیب و غریب ریسرچ سنائی ایسے ہی کھلے دل سے میں سنتی رہی۔ بغیر کسی اخلاقیات اور مذہب کے وضع کردہ حلال و حرام کے نتیجے پہ پہنچے میں یہ سن رہی تھی کہ غربت نے کیسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ دبوچے ہوئے انسان کو ہلنے کی بھی گنجائش نہیں۔

اسلام آباد کے صحافی عاصم علی رانا نے ٹوئٹر پر ایک مکینک کی تصویر لگائی ہے جو بھیک مانگنے کا پلے کارڈ لیے بیٹھا ہے۔ یہ بجلی کا 34 ہزار روپے کا بل بھرنے کے لیے اپنا گردہ بیچنا چاہتا ہے لیکن کم بخت دل کا مریض ہے، جہاں گردہ بیچنے کو ہزار صحت مند تیار ہوں وہاں بیمار کا خریدار بھلا کون ہوگا۔

عاصم علی رانا نے مکینک سے تفصیل پوچھی تو وہ سر جھکا کر یوں رونے لگا جیسے عزت قدموں میں آ گری ہو۔ مجھے وہ تمام خواتین اور خواجہ سرا یاد آگئے جو زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کے لیے خود کو بیچنے سر بازار آجاتے ہیں۔ انہوں نے کوئی پلے کارڈ اٹھا رکھا ہوتا ہے نہ کسی سے مدد کی کوئی اپیل کرتے ہیں۔

ہاتھ پھیلانا، بھیک مانگنا کوئی اچھی بات تو نہیں۔ اپنی عزت کی قیمت لگانا بھی شریفوں کو زیب نہیں دیتا لیکن سسٹم نے مفلسی کا علاج عزت نفس کچلنے میں ہی رکھ چھوڑا ہو تو کیا کیجیے۔ وگرنہ مفلس باپ کی بچوں سمیت خودکشی کی خبریں تو آئے روز کا معمول ہیں۔

معاشیات کے ماہرین کی طرح ہم خود ساختہ فلسفی، لکھاری اور زبان و قلم کے شعبدہ باز اس حقیقت سے نظر چرا لیتے ہیں کہ بھوک تو جنس نہیں دیکھتی، غربت دستک دے تو یہ نہیں سوچتی کہ گھر میں کوئی مرد بھی ہے یا نہیں۔ مفلسی کے آگے بچہ، بوڑھا، مرد یا عورت کی تفریق نہیں۔

’عزت کی سوکھی روٹی‘ والی بحث میں پڑ گئے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا اس حکومت نے سوکھی روٹی کے قابل بھی چھوڑا ہے کہ نہیں، رہ گئی سلائی مشین تو اسے چلا کر بچے جوان کرنے والا نسخہ بھی ایسی ہوشربا مہنگائی کے آگے کب کا گھٹنے ٹیک چکا۔ اور پھر مشرقی و اسلامی روایات کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پہ ڈھوتی اس عورت کے ساتھ لگے وہ چار پانچ پیٹ بھی دیکھنا ہوں گے جن کے جہنم بھرنے کی ذمہ داری اسی اکیلی پر ہے۔

جیسے بھوک و ناداری کی وحشت سے تنگ باپ اپنے بچے برائے فروخت، شوہر اپنا گردہ فروخت کرنے کو تیار ہے ویسے ہی عزت برائے فروخت تک آچکی ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور لوگوں کی عزت و آبرو زندگی کے توشہ خانے میں نیلامی کے لیے رکھی ہے۔

پہلے یہ حال نہ تھا، لیکن اب آپ خود اپنے چاروں طرف جائزہ لیجیے، سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص کسی ایسے نادار کی سفارش کر رہا ہے جسے علاج کے لیے پیسے کی ضرورت ہو، بچوں کی تعلیم کے لیے چند سو روپے کم پڑ رہے ہوں یا گھر میں فاقہ کشی چل رہی ہو۔ غربت ہر زمانے میں رہی مگر مفلسی کا سایہ اب غریب کے قد سے بڑا ہوچکا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ جائزہ لے رہے ہیں مہنگائی کی وجہ رسد میں کمی ہے یا مافیا کی ذخیرہ اندوزی، سرکار کا ادارہ شماریات کہتا ہے مہنگائی کی شرح میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے، ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ مہنگائی کے اس طوفان سے نچلا ہی نہیں متوسط طبقہ بھی زیر بار ہوا ہے۔

لیکن غربت کا مارا کہتا ہے سستے یا مہنگے کی بحث نہیں، آٹے چینی کمیشن کی رپورٹ سے ہمیں کیا، دو وقت کی روٹی اور عزت نفس بچانے کی بحث بھی بہت پیچھے رہ گئی، یہاں تو سانس کا زندگی سے رشتہ جوڑے رکھنے کی فکر ہے۔

معاشی ماہرین کو شاید آمدنی اور خرچوں کے درمیان توازن کا راز ملتے ملتے بہت دیر ہوجائے، حقائق جاننے والی کمیٹیوں کو مہنگائی کی وجوہات کا کھوج لگاتے زمانے لگ جائیں، حکومت بھی شاید قیامت تک غربت کا علاج ڈھونڈتی رہے لیکن آپ اور ہم جس حد تک کرسکیں ، جس شکل میں کرسکیں پھیلے ہوئے ہاتھوں کی مدد کریں، سوالی نظروں کی امید بنیں۔

About The Author