ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیکٹا کی طرف سے کوئٹہ میں تھریٹ الرٹ جاری ہونے کے باوجود اپوزیشن نے جلسہ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔25 اکتوبر کو کوئٹہ میں دفعہ 144 لگائی گئی ۔مبینہ طور پرکچھ وقت کے لیے موبائل فون سروس سمیت کوئٹہ شہر کو جانے والے راستوں کو بھی بند کیا گیا اس دوران کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں بم دھماکہ ہوا جس میں چار قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اس سب کے باوجود پی ڈی ایم کا کوئٹہ میں جلسہ ہوا اور خوب ہوا۔لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جلسے میں شرکت کی۔اورجلسہ میں شریک شرکا آخری لمحے تک جوش وخروش سے بھرپور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔مجموعی طورپر پی ڈی ایم کے جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل ہوئی اور تینوں جلسے شاندار ہوئے یوں کہہ لیں کہ اپوزیشن نے نیازی الیون کے خلاف کھیلتے ہوئے آخری اوور کی پہلی تین گیندوں پر شاندار اسٹروک کھیلتے ہوئے ہر بال کو باونڈری سے باہر کی راہ دکھائی ۔اب بقیہ تین سکور تین بالوں پر بنانے ہیں اس لیے شائد کہیں پر تین استعفوں کی باتیں ہورہی ہیں۔
گوجرانوالہ جلسے کے بعد وزیراعظم نے اس پر دوران تقریر کمنٹ کیئے مگر کراچی جلسے کے بعد ایک انٹرویو ہوا جس میں دو صحافیوں نے سوالات کیئے ۔اس انٹرویو کے بعد یہ معمہ تاحال حل نہیں ہوسکا کہ یہ انٹرویو دیا گیا تھا یا لیا گیا تھا۔گویا پہلے دو جلسوں کے بعد جو چال چلی سو بری چلی۔کوئٹہ جلسے کے وقت میڈیا پر وفاقی وزیر مراد سعید کو بٹھا دیا گیا۔حکومتی تھنک ٹینک نے کمال کردیا۔پی ڈی ایم کا کیا توڑ سوجھا۔اب تو یہ سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ یہ تھنک ٹینک حکومت کا دوست بھی ہے یا نہیں۔وہ پی ڈی ایم جو وزیراعظم کو باربار کہہ رہی ہے کہ ان کا تنازعہ حکومت سے نہیں ہے بلکہ حکومت کو لانے والوں سے ہے ان کے سامنے مراد سعید اور شہباز گل کی کیا بساط ۔اس حکمت عملی پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
بات اگر ضرورت کی ہے تو بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر توجہ اور بروقت فیصلے وقت کی اشد ضرورت ہیں۔پہلے بھی عرض کی تھی کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا بیانیہ سخت سے سخت تر ہوتاجائےگا۔لہجوں اور رویوں کی تلخی میں اضافے سے سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا۔پی ڈی ایم کے پہلے دو جلسوں کے بعد جب اپوزیشن کا موقف واضح ہوگیا تھا تو ڈائیلاگ کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کے لیئے اقدامات کیئے جاتے۔مگر وزیراعظم کے موقف نے سیاسی تناو میں مزید اضافہ کیا۔ناراض اپوزیشن کو راضی کرنے کی بجائے مزید اقدامات کی دھمکیاں دی گئیں۔کیا حکومتی رویے ایسے ہوتے ہیں۔کیا معاملات ایسے ٹھیک ہوں گے۔ملک میں سیاست کے نام پر حکومتی اور اپوزیشن کی سطح پر ایک تماشہ سا لگا ہوا ہے ۔کوئٹہ کے جلسے میں جو تقریریں ہوئیں یہ اشارہ کررہی ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف بڑھ رہی ہے۔آئے روز سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس اپوزیشن کے اتحاد کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے خاص طورپر اس وقت جب عددی اعتبار سے یہ حکومت اور اس کے اتحادیوں سے کہیں زیادہ ہوں۔اگر نہیں تو پھر حکومت کو کون یہ سمجھائے گا کہ فی الوقت محاز آرائی ملک اور حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔
اپوزیشن کے موقف کا بعد میں جائزہ لیتے ہیں پہلے ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں ۔ہوشربا مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔حکومت نئے روزگار کیا دے گی پہلے سے موجود برسرروزگار آئے روز اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ریڈیو پاکستان پھر پی آئی اے کے ملازمین کا احتجاج۔شاہراہ دستور پر ملازمین کے دھرنے پہلے سے موجود بے روزگاروں کے حوصلے پست کررہے ہیں۔بے یقینی کی کیفیت میں محرومیوں میں اضافہ ہوتا ہے دلوں میں نفرت پلنے لگتی ہے ۔ان حالات میں قوم اجتماعی سوچ کی بجائے انفرادی بہتری کی طرف توجہ دینے لگتی ہے۔قومی بیانیہ کمزور ہوجاتا ہے۔اجتماعیت ختم ہوجاتی ہے۔اگر اس محرومی کے آتش فشاں سے نفرت کا لاوا بہنے لگا تو کون روکے گا۔کوئی ہے جو ملک کی خاطر سوچے جو بائیس کروڑ عوام کو تسلی دے سکے دلاسہ دے سکے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران پر ملک کے مقتدر حلقے کیوں خاموش ہیں۔کیا ان کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے یا پھر کسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔جو بھی ہے بہرحال پاکستان کے مقتدر حلقوں کو دخل دینا پڑے گا ۔بجاے اس کے کہ حالات کسی کے کنٹرول میں نا رہیں معاملات کو دیکھنا ہوگا۔اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ایک تو ویسے حکومت سے ملک نہیں چل رہا رہی سہی کسر اپوزیشن کے اتحاد نے پوری کردی ہے۔اب کے بعد سیاسی ، معاشی ، معاشرتی بحران مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔معاشی جمود کے سبب پریشان حال عوام کی اپوزیشن کے جلسوں میں شرکت بڑھتی جائے گی۔اپوزیشن کے بیانیے کو تقویت ملے گی ۔اور ان حالات میں حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ عوام کو کسی سطح پر کوئی ریلیف دے سکے ۔یہ تو اتنے نااہل ہیں کہ بلاوجہ ہونے والی مہنگائی کو بھی نہیں روک سکے۔
کراچی جلسے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس کے بعد آرمی چیف نے ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔اس سارے عمل کے دوران یہ ایک مثبت بات تھی۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آرمی چیف ان معاملات سے خود کو الگ نہیں سمجھتے اور نا ہی ان کو کسی سیاسی جماعت کے سربراہ سے رابطہ کرنے میں کوئی الجھن ہے یہ اچھی بات ہے ۔آرمی چیف کو چاہیے کہ اپنا کردار ادا کرتے ہوے تمام سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مسائل کاحل تلاش کریں۔نفرتوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔نیا قومی بیانیہ تشکیل دینے میں سیاسی قوتوں کی حوصلہ افزائی کریں۔اگر آرمی چیف یہ سب کرجاتے ہیں تو ان کا شمار تاریخ کے ان بہترین جرنیلوں میں ہوگا جنہوں نے ملک وقوم کو مایوسی اور بحران سے نکالنے میں مدد دی اور ملک وقوم کے سامنے سرخرو ہوئے۔
برائے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ